فاٹا اصلاحات سے کچھ آگے بڑھنے ہو گا
(Shahzad Saleem Abbasi, )
وفاق کے زیر انتظام فاٹاکے 11 قبائلی علاقہ
جات ہیں جن کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ اور ان میں سے 20 لاکھ دربدر
ہیں۔قبائلی علاقہ جات میں پشاور کا قبائلی علاقہ ، کوہاٹ کا قبائلی علاقہ،
ڈی آئی خان کا قبائلی علاقہ، بنوں کا قبائلی علاقہ، باجوڑ ایجنسی، کرم
ایجنسی، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی،شمالی وزیرستان ایجنسی اور جنوبی
وزیرستان ایجنسی شامل ہیں جنہیں عام طور پر باقی پاکستان کے لوگ " علاقہ
غیر" کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔حالانکہ دیکھا جائے تو یہ لوگ علاقہ
غیر کے لوگ نہیں بلکہ وہاں کے قبائل ہیں جن کا اپنا طور طریقہ اور رسم و
رواج ہے ، انہیں علاقہ غیر کے لوگ اور دیار غیر کے لوگ یا معاشرہ سمجھنا
ہماری بد ترین کوتاہی ہے۔ "فاٹا کی نامور شخصیت شاہ جی گل آفریدی نے بھی
افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ہمیں اپنا پاکستانی بھائی سمجھنے کے
بجائے "علاقہ غیر" کے لوگ تصور کرتے ہیں یعنی کہتے ہیں کہ فاٹا غیر لوگوں
کی سرزمین ہے ، دوسرے الفاظ میں ہمیں اس ملک کا شہری نہیں سمجھا جاتا ۔"سچی
بات تو یہ ہے کہ جب ہم کچھ چھوٹے ہوتے تھے تو ہمارے گاؤں میں قبائلی بھائی
بڑی پگڑی ، ویسکوٹ ، پشاوری چپل اور ایک عدد چھوٹی موٹی چیزوں سے بھر ا
ٹرنک لے کر پھیری لگاتے اور آوازیں لگاتے تھے، کنگی لے لو، شیشہ لے لووغیرہ
تو ہمارے محلے والے بھی ہمیں انکے قریب جانے سے روکتے اور بسا اوقات یہ بھی
کہتے کہ یہ لوگ علاقہ غیرکے ہیں ،پکڑ کر لے جائیں گے۔
عجیب بات ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اصلاحات لانے کے لیے ایف سی
آر میں ترامیم اور فاٹا میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت تو لیکن جو قانون
قبائلیوں کے خلاف انتہائی غلط طریقے سے استعمال ہو رہاتھا آج بھی اسی طرح
قبائلیوں کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہے۔ صدی ہو چلی ہے کہ فاٹا کے مظلوم عوام
اب بھی انگریزوں کے کالے قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن " ایف سی آر" کے
جال میں پس رہے ہیں۔ایف سی آر قانون کی ایک متنازع شق کو" اجتماعی ذمہ داری
"کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی گئی۔ پہلے
اس شق کے تحت پولیٹکل ایجنٹ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ پورے قبیلے کو کسی
بھی جرم میں گرفتار کر کے طویل عرصے تک پابند سلاسل رکھ سکتا تھاتاہم ایف
سی آر 2011 بل کے ترمیمی بل کے بعدایجنٹ سے یہ اختیار واپس لے لیا گیااور
اب پورے قبیلے کو نہیں بلکہ مرحلہ وار سزاؤں کا سلسلہ روا رکھا گیا ہے جوکہ
اب بھی قبائلی عوام سے انتہائی زیادتی ہے ۔ قبائلی امور پر نظر رکھنے والے
سنیئر تجزیہ نگارڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ فاٹا کو ایک سازش کے تحت
سیاسی اور معاشی طور پر ایک بلیک ہو ل بنا دیا گیا ہے اور دہشت گردی اور
شدت پسندی کو خوامخوافاٹا سے نتھی کیا جاتاہے۔انہوں نے کہ فاٹا عوام کو اس
وقت سب سے زیادہ ضرورت ترقیاتی سکیموں کی ہے ، وفاقی حکومت کو چاہیے کہ
فاٹا کے عوام کے لیے پانی بجلی پانی اور پکی سڑکوں کا جال بچھائے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت فاٹا اصلاحات کمیٹی اجلاس ہوا ، اجلاس میں بریفنگ
دیتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ ہم پہلے فیز میں فاٹا کمیٹی کی اصلاحات کو
مزید بہتر بنائیں گے اور اس پر عمل در آمد کے لیے آئینی و قانونی ماہرین سے
مشاورت بھی کرینگے۔ ا یسے اجلاس پہلے بھی کافی بار ہوچکے ہیں لیکن بد قسمتی
سے نشستن ، گفتن برخاستن سے ہٹ کر فاٹا کمیٹی اور اسکی اصلاحات پر کوئی عمل
نہیں ہوسکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قبائلیوں کے لیے 2011 فاٹا اصلاحات
میں جو ترامیم کی گئیں اور ان سے فاٹا کے عوام کو جو تھوڑی بہت خوشی نصیب
ہوئی ، اب اس سے بڑھ کر وزیر اعظم جناب نواز شریف انکی خوشحالی او ر چہروں
پر لالی کے لیے کام کریں۔چند تجاویز پر عمل کر کے ہمارے قبائلی بھائیوں کے
لیے کچھ آسانی کا سامان پیدا کیا جا سکتا ہے۔ (1) اعتماد سازی کی فضاء قائم
کرتے ہوئے قبائلیوں کو بھی اصلاحات کمیٹی میں جگہ دی جائے جس میں قبائلی
ممبران قومی اسمبلی، قبائلی عمائدین، سول سوسائٹی اور دانشور وغیرہ شامل
ہوں۔(2) فاٹا کے عوام کو بنیادی حقوق تعلیم، صحت، انصاف اور روزگار مہیا
کرنے کے لے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے ۔ (3) مثبت سرگرمیاں وقت کی اہم
ضرورت ہیں اس لیے نوجوانوں میں مثبت ، صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ ، امن
امان کے قیام اور ذہنی احساس کمتری سے نکالنے لیے یوتھ فیسٹول ،امن گالا،
ایگزبیشن گالا ،تعلیم گالا اور اس طرح کے مختلف ایونٹس منعقد کرائے جائیں۔
(4) کھیلوں کے مقابلے کرائے جائیں۔(5 ( فاٹا کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہوئے
قومی لائحہ عمل کے تحت قوم دھارے میں لایا جائے۔ (6) میٹر وبس پر 44 ارب
روپے لگائے گئے جسکا بلاشبہ راولپنڈی اسلام آباد کے عوام کو فائد ہ ہے ، اس
کا کم از کم آدھا بجٹ تو 2017 میں فاٹا کے عوام کے لیے ترقیاتی کاموں پر
خرچ کیا جائے ۔(7)قبائلی علاقہ جات کو جلد از جلد قانونی و انتظامی حیثیت
دیکر صوبہ خیبر پختون خواہ میں شامل کیا جائے، یا گلگت بلتستان کی طرح
ایگزیکٹو کونسل کا درجہ دیا جائے۔(8) وزیراعظم اپنے صوابدید ی اختیارات
استعمال کرتے ہوئے فاٹا میں ایک بڑا ہسپتال ، ایک یونیورسٹی، ایک آرٹ کونسل
اور ایک سپورٹس کمپلکس قائم کرائیں۔ |
|