رینجرز کا تازہ چھاپہ
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
کراچی میں گزشتہ رات گئے حالات نے انگڑائی
لی۔ رینجر نے فاروق ستار کو زیر حراست لیا، اور بعد میں بہت سے اور رہنماؤں
کو بھی۔ نصف شب کے وقت ایم کیوایم کے صدر مقام ’نائن زیرو‘ پر چھاپہ مارا۔
کچھ رہنماؤں کو رہا بھی کردیا گیا۔ اس چھاپہ ماری پروگرام کی نوبت اس وقت
آئی جب متحدہ کی قائد کی تقریر نے ہلچل مچا دی، پاکستان کے خلاف زہریلی
تقریر کی، اور کارکنوں کو مخصوص میڈیا ہاؤسز پر حملہ کرنے پر اکسایا۔ تعمیلِ
ارشاد میں کارکنوں نے اپنی کارروائی کی۔ ایک اور بڑی تبدیلی یہ آئی کہ اپنے
ہی قائد کی زہر میں چبھی تقریر اور رینجر کے رد عمل کے بعد پارٹی کے کچھ
رہنماؤں نے بھی سوچنا شروع کردیا کہ آیا وہ درست مقام پر کھڑے ہیں، یا ان
کا ماضی غلطیوں سے پُر ہے۔ ایم کیوایم کے مستقبل کے بارے میں مختلف رائے
زنی ہورہی ہے، کوئی اسے مستقل ختم کر رہا ہے اور کوئی اس کو مستقل پارٹی
قرار دے رہا ہے۔ ایم کیوایم کے ساتھ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور ایسی ہی
آرا سے اس کو سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔
ایم کیوایم کے بارے میں ایک رائے یہ پائی جاتی ہے کہ بے شمار لوگ ان کے
عسکری اندازِ سیاست کی وجہ سے خوف کے زیر اثر ان کا ساتھ دیتے ہیں، کسی کو
جرات نہیں کہ وہ ان کی مخالفت میں ووٹ کاسٹ کرسکے۔اسی قسم کے خیالات بھتہ
کے بارے میں بھی سامنے آتے ہیں، کہ پارٹی کا بندوبست اسی پر چلتا ہے، اس
کاروبار کو بہت عروج حاصل ہوا، ایسا کہ یہ ابھی تک جاری ہے۔ اس کے بعد
چھینا جھپٹی بھی ساتھ ہی جاری رہی، خواتین کے پرس، لوگوں کے موبائل سے لے
کر قربانی کی کھالوں بھری گاڑیوں تک چھیننے کا رواج تھا۔ اس کے بعد سب سے
خطرناک عمل ’ٹارگٹ کلنگ‘ تھا، جس سے کراچی کو عشروں سے واسطہ پڑا ہوا ہے،
ایسے افراد کی فہرست بہت طویل ہے جو ٹارگٹ کلنگ کی بھینٹ چڑھے۔ بدقسمتی
ملاحظہ ہو کہ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ایم کیوایم کے تمام مخالفین نے ان
تمام تر مسائل کی ذمہ داری ایم کیوایم پر ہی ڈالی۔ ماضی میں ہونے والے
مختلف آپریشنزمیں بھی یہی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مسائل کی ذمہ دار
ایم کیوایم ہے، جبکہ ایم کیوایم نے مسلسل انکار ہی کیا۔ اب کچھ عرصہ سے ،
جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بہت اضافہ ہوگیا تھا تو کراچی میں رینجرز کا
آپریشن شروع ہوا، جسے فوج، پولیس اور عوام کی بھی حمایت حاصل ہے۔
اب نئی صورت حال میں پارٹی کے بہت سے رہنماؤں نے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع
کردیا ہے، اس سے قبل مصطفےٰ کمال کی صورت میں ایم کیوایم میں ایک دراڑ پیدا
ہو چکی ہے، اب اگر مزید بہت سے لوگ پارٹی سے نکلتے ہیں تو ان میں سے بیشتر
پاک سر زمین پارٹی میں ہی جائیں گے، کیونکہ اُس گھر میں انہیں اجنبیت کا
احساس نہیں ہوگا، وہاں اپنے ہی بھائی بندوں سے ملاقات ہو جائے گی۔ یہ
اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ وہاں کن لوگوں کے دروازے کھلے ہیں، کن کو وہ
خوش آمدید کہیں گے، اور کن کو جواب دے دیں گے۔ مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ
آخر ان لوگوں کو اتنے سال ایک پارٹی میں رہنے کے بعد اس کی حقیقی خرابیوں
کا علم کیوں نہ ہو سکا، اگر عوام ایک پارٹی کے بارے میں اعلانیہ باتیں کرتے
ہیں ، پارٹی پر ہر مذکورہ بالا الزام لگاتے ہیں، تو یہ باتیں خود پارٹی
رہنماؤں سے کیسے پوشیدہ رہ سکتی ہیں؟ ایسا ہی کچھ مصطفےٰ کمال نے نئی پارٹی
کا اعلان کرتے وقت کہا تھا۔ یا ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے قائدین انقلابی فیصلہ
کررہے ہیں، یا وہ جانتے ہیں کہ پارٹی پر ’’قائد تحریک‘‘ الطاف بھائی کی
گرفت کمزور پڑ چکی ہے۔ یا وہ کہتے ہیں کہ ہماری قیادت غلطی پر تھی، ہم
مروتاً ان کے ساتھ چلے آرہے تھے۔ ممکن ہے کچھ ایسے لوگ بھی سامنے آ جائیں
جو کہیں گے کہ ہم تو شروع سے ہی پارٹی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے تھے، ہم
قائدین کو اس بارے میں بتاتے رہتے تھے۔جو کچھ بھی ہو، کراچی کو امن کی
ضرورت ہے، رینجرز کے مسلسل چھاپوں سے امن میں اضافہ ہوا ہے، پائیداری آئی
ہے، نسبتاً استحکام نصیب ہوا ہے، اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ چونکہ کراچی ایک
عرصہ سے ایم کیوایم کے ہی زیر اثر ہے، اس لئے یہاں کی خرابیوں کی ذمہ داری
بھی اسی پارٹی پر ہی ڈالی جائے گی۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ
میڈیا ایک آئینہ ہے، یہ چہرے دوسروں کو دکھاتا ہے، چہرہ اچھا نہ دکھائی دے
تو آئینہ توڑنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا․․․۔ |
|