بش اور بلیئر جنگی جرائم کے عالمی مجرم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کیا چلکاٹ انکوائری بیس لاکھ مسلمانوں کے قاتلوں کو سزا دلواسکے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کہتے ہیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، مگر دنیا نے دیکھا کہ جھوٹ پاؤں کے بغیر زقندیں بھرتا، منزلیں مارتا ہر سو اپنی طاقت غرور اور رعونت کا پھریرا لہراتا ہوا دوڑتا رہا اور سچ اپنی تمام تر سچائی کے باوجود بھی کٹی پتنگ کی مانند ہوا میں ڈولتا رہا، مگر آج جھوٹ کی پٹاری کھل رہی ہے، دنیا کی آنکھوں سے مکر، فریب، جھوٹ اور عیاری کی بندھی پٹیاں اتر رہی ہیں،افغانستان و عراق پر جنگ کے حوالے سے سابق امریکی و برطانوی سربراہوں کے منافقانہ عزائم و گٹھ جوڑ پر مبنی پردے ہولے ہولے سرک رہے ہیں اور طلوع ہونے والی سچائی ایک نئی تاریخ رقم کرنے جارہی ہے،ایک ایسی تاریخ جسے برطانیہ کو عراق کے خلاف جنگ کی تباہ کن آگ میں دھکیلنے والے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے برطانوی عوام سے فریب اور دھوکہ دہی کے دبیز پردے میں چھپانا چاہا مگر وہ عراق کی جنگ کے بارے میں چلکاٹ انکوائری میں برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کی سابقہ سربراہ لیڈی الیزا مننگھم بلر اور جنگ کے دوران اقوام متحدہ میں برطانوی وفد کے سیکریٹری کارنے راس کی شہادتوں سے روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے،واضح رہے کہ لیڈی الیزا میننگھم بلر 2002ءسے 2007ءتک ایم آئی فائیو کی سربراہ تھیں،اُنہی کے دور میں عراق کی جنگ شروع ہوئی تھی،چلکاٹ انکوائری کے سامنے اِن کی شہادت کے دو اہم نکات سامنے آئے ہیں،اوّل عراق کے خلاف جنگ کا جواز پیش کرنے کے لئے انٹیلی جنس کو نہایت بددیانتی سے استعمال کیا گیا،دوسرے یہ کہ اُن کے ادارے ایم آئی فائیو نے خبردار کیا تھا کہ عراق کے خلاف جنگ کے نتیجہ میں القاعدہ کا خطرہ بڑھے گا،اور ایسا ہی ہوا،ایم آئی فائیو کی سابقہ سربراہ نے ٹونی بلیئر کا یہ استدلال یکسر مسترد کر دیا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانہ پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود تھے اور اسے دہشت گردوں کے ہاتھ میں جانے سے روکنے کے لئے کاروائی ضروری تھی،چلکاٹ انکوائری کمیشن کے سامنے لیڈی میننگھم بلر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 2002ءمیں عراق میں وسیع پیمانہ پر تباہی کے اسلحہ کے بارے میں بلیئر حکومت نے جو دستاویز تیار کی تھی ایم آئی فائیو نے اُس میں شامل ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا،انہوں نے کمیشن کو یہ بھی بتایا کہ جنگ شروع ہونے سے چھ ماہ پہلے انہوں نے وزارت داخلہ کے سیکریٹری جان گیف کے نام ایک خط میں صاف صاف لکھا تھا کہ برطانیہ کو صدام حسین سے کسی کاروائی کا کوئی خطرہ نہیں۔

ایم آئی فائیو کی سابقہ سربراہ لیڈی میننگھم بلر کا کہنا تھا کہ انہوں نے بلیئر حکومت کو خبردار کیا تھا کہ عراق کے خلاف جنگ کے نہایت خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اور یہی ہوا،اُن کا کہنا تھا کہ صدام حسین کا تختہ الٹے جانے کے نتیجہ میں پہلی بار القاعدہ کو عراق میں قدم جمانے کا موقع ملا اور در حقیقت خود ہم نے اسامہ بن لادن کو اُن کا عراقی جہاد پیش کردیا،لیڈی میننگھم بلر نے چلکاٹ انکوائری کو بتایا کہ 2002ء کے اوائل میں اُن کے ادارے نے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ صدام حسین کے خلاف فوجی کاروائی کی صورت میں برطانیہ میں صدام حسین کے ایجنٹوں سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا البتہ اِس کے دور رس سیاسی مضمرات ہوں گے،دوسرے نکتے کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ 2003ءمیں عراق کے خلاف جنگ کے بعد سے برطانیہ میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا کیونکہ برطانیہ میں مسلمانوں کی نئی نسل کے ایک حصہ میں شدت پسندی میں زبردست اضافہ ہوا جو عراق اور افغانستان کے خلاف جنگ کو اسلام کے خلاف جنگ تصور کرتے ہیں،لیڈی میننگھم بلر کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان اور عراق کی جنگوں کے نتیجہ میں برطانیہ میں سیکوریٹی سروسز پر زبردست دباؤ بڑھا ہے اور اِس کی وجہ سے ایم آئی فائیو کا بجٹ دوگنا کرنا پڑا،افغانستان اور عراق کی جنگ کے دوران اقوام متحدہ میں برطانوی وفد کے سیکریٹری کارنے راس نے انکوائری کے سامنے اپنے بیان میں کہا کہ عراق سے خطرے کے سلسلہ میں مبالغہ سے کام لیا گیا،اُن کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ میں برطانیہ اور امریکہ کے نمائندوں کا یہ تجزیہ تھا کہ عراق کے وسیع پیمانہ پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروںسے کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں تھا،کارنے راس نے چلکاٹ کمیشن پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اِس انکوائری کا مقصد محض سابقہ اقدامات کے نتائج سے سبق سیکھنا نہیں ہونا چاہئے بلکہ احتساب کا عمل بھی اِس کا اہم حصہ ہونا چاہئے اور جنگ کا فیصلہ کرنے والی سیاسی قیادت کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے ۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس ٹونی بلئیر کو سزا دینے کے عوامی مطالبے پر سابق وزیراعظم گورڈن براون نے ایک سابق سول سرونٹ Jone Chilcot کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی تحقیقاتی انکوائری ٹیم تشکیل دی تھی، جسے Chilkot Inquiryکا نام دیا گیا،اِس کمیشن کے اراکین نے15 جون2009 ءکو باقاعدہ سرکاری سطح پر عراق جنگ کے بارے میں برطانوی کردار کی تفتیش اور یہ انکوائری شروع کی کہ کیا عراق جنگ میں برطانوی فوج کی شمولیت کا حکومتی فیصلہ غلط تھا یا درست۔؟ اس ٹیم کا کام جولائی2001ء سے جولائی 2009ء کے درمیانی عرصے میں برطانوی حکومت کے فیصلوں کا تجزیہ کرنا اور 2003ءمیں عراق میں برطانوی مداخلت کی وجوہات جاننا ہے اور عراق جنگ کے وقت برطانوی وزیر دفاع جیف ہون سمیت کئی دیگر اعلیٰ سیاست دان تفتیشی کمیشن کے لئے گواہوں کی حیثیت رکھتے ہیں،جان چلکاٹ کے مطابق ان کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم عراق میں برطانوی کردار کی اصل وجوہات کا پتہ لگائے گی،جان چلکاٹ کئی مرتبہ اِس بات کی یقین دہانی کرواچکے ہیں کہ تفتیشی عمل مکمل طور پر ”غیرجانبدار،شفاف اور صاف ہوگا۔“ چلکاٹ کے بقول انہیں اِس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ برطانوی عوام اِس تفتیش سے کیا توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں۔
ٍ
قارئین محترم آپ کو یاد ہوگا کہ 2003ءمیں امریکہ ،برطانیہ اور اُس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کردیا تھا،جس کا مقصد سابق صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے کے علاوہ وہاں مبینہ طور پر موجود ”وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں“ کا سراغ لگانا بھی بتایا گیا تھا،اِس کاروائی میں عراقی صدر صدام کا تختہ الٹ دیا گیا،بعد میں انہیں گرفتار کرکے پھانسی دے دی گئی، عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی،لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا لیکن وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا،سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے اپنے ملک کے پینتالیس ہزار سے زائد فوجی عراق روانہ کئے اور ایک اندازے کے مطابق عراق جنگ پر ساڑھے آٹھ ارب پاؤنڈ کی خطیر رقم پھونک ڈالی،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ جنگ غیر مقبول ہوتی گئی اور امریکہ کی طرح اِس کے سب سے بڑے اتحادی ملک برطانیہ میں بھی عوام کی اکثریت اِس جنگ کی مخالفت کرتی رہی،یہاں تک کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے بعض حامی بھی عراق جنگ کی مخالفت کرتے نظر آئے اور عراق پر حملے کے بعد سابق وزیراعظم ٹونی بلیر کو امریکہ کے سابق صدر بش کے ساتھ ملکر بغدا و کابل پر قبضہ کرنے اور پھر برطانوی فوجیوں کی پے درپے ہلاکتوں پر عوامی غیض و غضب کا سامنا بھی کرنا پڑا،گو کہ ابتدا میں یورپی باشندوں کا احتجاج کمزورتھا کیونکہ صہیونیت کے سرمائے کی چھاوں تلے صف بستہ مغربی میڈیا نے زہریلے پروپگنڈے کا سہارا لیکر القاعدہ اور طالبان کے خلاف جھوٹی استعجاب خیز کہانیوں کی بھر مار سے مغربی لوگوں کے دلوں پر خوف کے سائے مسلط کررکھے تھے،لیکن جوں جوں عراق و افغان جنگ کے حقائق منکشف ہونے لگے،برطانوی عوام نے جنگ اور بلیر کے خلاف احتجاجوں اور ریلیوں کے ریکارڈ قائم کرڈالے اور برطانوی عوام کا غم و غصہ ٹونی بلیر کی 10 ڈاوئنگ سٹریٹ سے بیدخلی کا سبب بنا،اِس وقت برطانیہ میں ہزاروں باضمیر انسان ٹونی بلیر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور لاکھوں لوگوں کو ہلاک کرنے کے جرم میں سنگین سزائیں دلوانے کے لئے صف آراء ہوچکے ہیں،لندن کے سماجی و سیاسی رہنما جارج مون نے ٹونی بلیر کو جنگی ملزم قرار دلوانے کیلئے انٹرنیٹ پر عطیات جمع کرنے کی مہم شروع کررکھی ہے،اُن کا کہنا ہے کہ معصوم عراقیوں کے قتل انبوہ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا،اُنہوں نے اقوام عالم اور برطانوی حکومت سے اپیل کی کہ ٹونی بلیئر کے دوروں پر پابندی عائد کی جائے اور ٹونی بلیئر کو جنگی ملزم نامزد کرکے عالمی عدالت انصاف کے حوالے کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے کے پورے ہوں اور اِس جنگ میں ٹونی بلیر کے علاوہ جتنے لوگ بھی ملوث ہیں انہیں سزا ملنی چاہیے اور ملزموں کے گلے میں نیور مبرگ ٹریبونل کی طرز پر مقدمے کا شکنجہ کسا جانا چاہیے۔

گو کہ سابق وزیر اعظم بلیئر اور گورڈن براؤن کے حکومتی وزرا اور مشیر کہتے رہے ہیں کہ عراق جنگ قانونی تھی لیکن برطانوی میڈیا میں یہ سوال آج بھی گردش کررہا ہے کہ عراق جنگ قانونی تھی یا نہیں۔؟ اِس سوال کا جواب تلاش کر نے کے لئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس لارڈ سٹین کی سربراہی میں ڈچ انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جنگ کو بین الاقوامی قوانین کی رو سے جواز حاصل نہیں تھا اور عراق کے متعلق پاس کی جانیوالیUNOکی قرارداد غیرقانونی تھی،واضح رہے کہ نیویارک ٹائمز نے دو سال پہلے یہ خبر شائع کی تھی کہ برطانوی حکومت خود اِس نقطے سے آگاہ تھی کہ عراق جنگ جائز نہیں،مارچ 2003ءمیں برطانوی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں بھی کہا گیا تھا کہ عراق میں ابھی تک کوئی جواز نہیں مل سکا جس کی بنیادوں پر اُسے نشانہ بنایا جائے،یہ بھی درست ہے کہ وزارت خارجہ کی لیگل ایڈوائزرایلی زبیتھ لم شرسٹ نے محض اِس وجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر وزیراعظم کو باور کرواتی رہیں کہ عراق پر حملہ جارحیت و وحشت ہوگا جب تک UNO دوسری نئی قرارداد پاس نہ کرے،اِسی طرح جب اسلام دشمن بش اور ٹونی بلیئر نے اقوام متحدہ سے منظوری لئے بغیر ہی 19 مارچ 2003ءکو عراق پر حملہ کیا تو کلیئر شارٹ جو برطانیہ کے وزیر برائے عالمی ترقی تھے،نے بطور احتجاج بلیئر کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا،انہوں نے ایک پبلک انکوائری میں بتایا تھا کہ ”ٹونی بلیئر کا یہ دعویٰ کہ صدام حسین کا عالمی دہشت گردی سے کوئی تعلق تھا،یکسر جھوٹ تھا۔“ کلیئر شارٹ نے ٹونی بلیئر کے اِس دعوے کو بھی احمقانہ قرار دیا تھا کہ ”11 ستمبر کے حملوں کے نتیجے میں صدام حسین کے خلاف کاروائی کی ضرورت شدید تر ہو گئی تھی۔“اُن کا کہنا تھا کہ بلیئر نے برطانیہ کو گمراہ،عراق کو زیادہ خطرناک،غیر مستحکم اور شرق اوسط میں القاعدہ کی موجودگی کو فروغ دیا۔“ کلیئر شارٹ نے برطانوی حکومت کے قبل از جنگ اُن دعوؤں کی بھی شدید مذمت کی کہ صدام حسین وسیع تباہی کے ہتھیار تیار کر رہا تھا،اُن کے بقول اُس کے پاس ایٹم بم بنانے کے وسائل نہیں تھے،اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”برطانوی حکومت کے چیف لیگل ایڈوائزر اٹارنی جنرل پیٹر گولڈ سمتھ نے حکومت کو یہ عندیہ دے کر گمراہ کیا تھا کہ عراق پر حملہ عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں،انہوں نے کہا کہ حملے کی منصوبہ بندی میں بعد از حملہ منصوبہ بندی شامل ہی نہیں تھی اور یوں عراق کو ابتری سے دوچار ریاست بنا کر چھوڑا گیا۔“

آج عراق جنگ کے حوالے سے اِس قسم کے متعدد اعترافات بھی سامنے آچکے ہیں کہ عراق پر امریکی اور برطانوی لشکر کشی ناجائز تھی،خود اِس خونی جنگ کے سرخیل سابق امریکی صدر جارج بش یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ عراق پر حملہ غلط انٹیلجنس معلومات کی بنیاد پر کیا گیا،اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان بھی عراق پر امریکی حملے کو غلط اور غیر قانونی قرار دے چکے ہیں،بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے سابق سربراہ محمد البرادعی اقوام متحدہ میں اپنی آخری تقریر میں کہہ چکے ہیں کہ ”عراق پر امریکی لشکر کشی غلط اور بے بنیاد اطلاعات اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی اجازت کے بغیر کی گئی، انھوں نے کہا کہ عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی وجود نہیں تھا،اسی طرح عراق پر حملے کی حمایت کے ہالینڈ حکومت کے فیصلے پر کی جانے والی ایک انکوائری میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق یہ حملہ جائز نہیں تھا،اِس رپورٹ میں وزرا پر من پسند انٹیلی جنس رپورٹوں کے استعمال کا الزام بھی لگایا گیا،عراق کے سابق امریکی حکمران پال بریمر جو عراق پر امریکی قبضے کے بعد 13 ماہ تک فوجی حکمران رہے کا کہنا تھا کہ 2003ءمیں امریکی سربراہی میں عراق پر انجام پانے والا فوجی حملہ غلط تھا کیونکہ وہ غلط بنیادوں اور مفروضوں پر استوار تھا،کینیڈا کے وزیراعظم اسٹیفن ہارپر کا کہنا ہے کہ عراق پر امریکی حملہ بہت بڑی غلطی تھی،انہوں نے کہا کہ عراق پر انسانی تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا الزام غلط ثابت ہو چکا ہے،اِن اعترافات کے بعد آج یہ حقیقت پوری طرح آشکارہ ہوچکی ہے کہ عراق پر حملے سے پہلے وہاں کوئی مہلک ہتھیار نہیں تھا،اسی وجہ سے اقوام متحدہ کے معائنہ کار ھینس بلکس نے اپنی کتاب” ڈس آرمنگ عراق“ میں اِس بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا،وہ لکھتے ہیں کہ صدر بش کا یہ کہنا کہ عراق پر حملہ انٹلیجنس کی غلطی سے ہوا ہرگز درست نہیں ہے،عراق کے خلاف امریکی جارحیت کے سراسر بے جواز ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ بش کو اقراری مجرم قرار دے کر اِس اعتراف کے منطقی تقاضوں کی تکمیل کے لیے پیش رفت عدل کا تقاضا ہے۔

اسی طرح سان فرانسسکو کرانیکل نے اپنے 14 دسمبر 2009ء کےاداریے میں عراق پر حملے کو انٹلیجنس کی غلطی قرار دینے کے بش کے بیان پر کڑی گرفت کرتے ہوئے لکھا کہ ”صدر کی جانب سے عذر لنگ کی بنیاد پر جنگ کی ذمہ داری سے خود کو الگ کرنے کی کوشش صاف طور پر اشتعال انگیز ہے،بش اور اُن کے نائب صدر ڈک چینی بہت سے لوگوں کی بھیڑ میں محض دو افراد نہیں تھے جنہیں صدام حسین کے مہلک ہتھیاروں سے پریشانی تھی،یہ وہ لوگ تھے جو عراق کے بارے میں جنون کی آگ کو اُس وقت ہوا دے رہے تھے جب اہم ترین حلیفوں میں سے کئی صدام حسین کے ہتھیاروں اور جنگی صلاحیت کے حوالے سے امریکی دعوؤں پر برملا شکوک و شبہات کا اظہار کررہے تھے،بش انتظامیہ اُس وقت خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی تھی جس کی ایک مثال کنڈولیزا رائس کا 2003ء کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم مکمل یقین حاصل کرنے کے لیے ہم دھواں اگلتی بندوق کے کھمبیوں کی فصل بن جانے کا انتظار نہیں کرسکتے،جبکہ اقوام متحدہ کے معائنہ کار عراق سے خالی ہاتھ لوٹ رہے تھے،اِن واقعاتی حقائق کی موجودگی میں صدر بش کا یہ کہنا کہ عراق کی جنگ غلط انٹلی جنس معلومات کا نتیجہ تھی جس پر انہیں افسوس ہے،دنیا کو مزید دھوکا دینے کی ایک ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں اوراُن کی یہ معذرت افغانستان اور عراق میں اُن کی جارحیت کے سبب بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے جرم کو ہلکا نہیں کرسکتی، مشہور یہودی دانشور نوم چومسکی عراق پر بش و بلیئر کے ظالمانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”2003ءمیں عراق پر امریکی قیادت میں حملہ کئی ایک باطل بہانوں اور جھوٹوں کی بنیاد پر کیا گیا جو ایک بڑا جرم تھا لیکن حملے کے کئی ناقدین بشمول اوباما نے اسے صرف غلطی یاا سٹرٹیجک بلنڈر ہی شمار کیا،یہ ا سٹرٹیجک بلنڈر نہیں واقعی ایک بڑا جرم تھا۔“

قارئین محترم آج عراق پر حملے یعنی بڑے جرم کو سات سال ہو چکے ہیں،دنیا کو پر امن بنانے اور دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر شروع کی گئی کروسیڈی جنگ جس کی ابتداء2001ءمیں افغانستان کی پرامن طالبان حکومت پر حملہ کے ساتھ کی گئی،2003ء میں اگلا قدم اٹھاتے ہوئے عراق پر مسلط کی گئی،اِن جنگوں نے صرف دو ملکوں افغانستان و عراق ہی کو نہیں دنیا بھر کو جن حالات سے دوچار کر دیا ہے،شاید اُس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا گیا تھا،حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بہت سے ممالک اِن دونوں جنگوں میں امریکی حملے کو غلط اور اِس سلسلے میں اُس کی جاری کردہ پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانے کے باوجود ابھی بھی تعاون و شراکت جاری رکھے ہوئے ہیں،جبکہ اِن جنگوں نے دونوں ممالک میں لوہے اور بارود کی وہ آگ بھڑکائی ہے جس نے لاکھوں زندگیاں جلا کر بھسم کر دی ہیں،شہروں کے شہر تباہ و برباد کردیئے ہیں، ہنستے کھیلتے علاقے ویران و سنسان اور ہر جگہ خوف و وحشت کے ڈیرے آباد ہو گئے،حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے یارانے کے نتیجے میں دو اسلامی ممالک پر جو تباہی و بربادی نازل کی گئی وہ واشنگٹن اور لندن کے یہود ی نواز صلیبیوں کا وہ مکروہ گٹھ جوڑ تھا،جس نے صدام حسین کے عراق میں تباہ کن ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری اور القاعدہ سے تعلقات کے ایسے ایسے جھوٹے افسانے تراشے کہ ابلیس بھی شرما گیا اور نائن الیون کا وہ واقعہ جو اسکی بنیاد بنانے ایک ایسی صورتحال کو جنم دیا جس کا بنیادی مقصد پرانے جغرافیوں اور ملکوں کی سرحدوں کو تبدیل اوردنیا کو دھوکہ دے کر سینٹرل ایشیاء کے معدنی وسائل پر قبضہ اور کنٹرول کرنا تھا،دراصل یہی وہ عوامل تھے جس کے حصول کے لئے افغانستان اور عراق پر جنگ مسلط کی گئی اور اسامہ بن لادن کا نام افغانستان پر جبکہ اعراقی تیل پر قبضے کےلئے ایٹمی ہتھیاروں کا شور جنگ مسلط کرنے کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا،حالانکہ جیسے افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کا جواز جھوٹ تھا ویسے ہی عراق پر جنگ کرنے کا جواز بھی جھوٹ اور فریب پر مبنی تھا،لیکن چونکہ امریکہ اور برطانیہ اِس جھوٹ پر متفق تھے اس لئے باقی دنیا کے بچے جمورے اِن کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور یہی وہ تلخ ترین سچائی اور حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ عراق پر حملے کے وقت سابق امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے علاوہ جن دوسرے یورپی صلیبی لیڈروں نے اندھا دھند بش کی حمایت کی اُن میں ڈنمارک کے سابق وزیراعظم آندرس فوغ راس موسن (جو اچھی طرح جانتا تھا کہ امریکی جواز بہت بودا اور فریب کارانہ ہے) اور اٹلی کے وزیراعظم برلسکونی اور اسپین کے وزیراعظم آزنر (جنہوں نے اپنے عوام کی رائے کے خلاف جنگ باز بش کی حمایت کو ترجیح دی) بھی شامل تھے،یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے بش اور ٹونی بلیئر کے ساتھ مل کر افغانستان اور عراق کو تباہی و بربادی سے ہمکنار کیا اور لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے اپنی صلیبی ہوس کی پیاس بجھائی،آج اِن جنگوں کے دوران برطانوی فوجیوں پر عراقی مزاحمت کاروں کو حراستی مراکز اور تفتیشی کیمپوں میں شدید جسمانی اذیتیں پہنچانے کے سنگین الزامات عائد کئے جارہے ہیں،دوسری طرف عراق جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں کے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ اپوزیشن سیاست دان کافی عرصے سے اِس جنگ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے تھے،اِن میں سے بیشتر کا یہ کہنا تھا کہ انٹیلی جینس معلومات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور عراق میں برطانوی مداخلت کےلئے غلط طریقے سے راہ ہموار کی گئی،بعض سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عراق جنگ کی ”انکوائری کا حتمی نتیجہ برطانوی حکومت کے لئے شرمندگی کا باعث ہوسکتا ہے۔“خیال رہے کہ عراق جنگ کے حوالے سے اِس سے پہلے بھی دو سرکاری انکوائریز کرائی جاچکی ہیں،جان چلکاٹ انکوائری کمیشن تیسری تفتیشی ٹیم ہے،جو عراق میں برطانوی مداخلت کے اسباب و وجوہات کا جائزہ لے کراُن ذمہ داران کا تعین کرنے جارہی ہے جو دنیا کے دو اسلامی ممالک کی تباہی و بربادی اور بیس لاکھ مظلوم مسلمانوں کے قاتل ہیں۔

کیا چلکاٹ انکوائری کمیشن بش اور ٹونی بلیئر کوجنگی جرائم کا مرتکب قراردے کر سزا دلوا سکے گا۔؟اِس سوال کا صحیح جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا لیکن چلکاٹ انکوائری کے دوران سامنے آنے والی شہادتوں اور مندرجہ بالا ناقابل تردید حقائق کے بعد اب اِس بات میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں رہا کہ ٹونی بلیئر نے نہ صرف دروغ گوئی کرتے ہوئے جارح بش کا ساتھ دے کر دنیا کو تباہ کن جنگ کی آگ میں دھکیلا بلکہ اُس نے برطانوی عوام جو عراق کے خلاف جنگ کے کھلم کھلا مخالف تھے سے فراڈ اور دھوکہ دہی بھی کی ہے،اِسی وجہ سے برطانوی عوام عراق جنگ میں ڈیڑھ سو برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کے ساتھ لاکھوں افغانی اور عراقی شہریوں کے خون کا بھی اُسے ذمہ دار قرار دے رہے ہیں،آج برطانیہ کے بعض حلقوں میں یہ مطالبہ بھی زور پکڑتا جارہا ہے کہ ٹونی بلیئر کے خلاف جنگی جرائم کے الزام میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ چلایا جائے،اِس مقصد کیلئے وکلا کی تنظیم لیگل ایکشن اگینسٹ وار پہلے ہی ہیگ میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے سامنے یہ درخواست پیش کر چکی ہے کہ ٹونی بلیئر سابق وزیر خارجہ جیک اسٹرا اور سابق وزیر دفاع ہون کے خلاف جنگی جرائم کے الزام میں مقدمات چلائے جائیں، اِس تناظر میں اب برطانیہ میں بھی ٹونی بلیئر کے سر پر جنگی جرائم کے مقدمہ کی تلوار لٹک رہی ہے اور یہ پیش منظر واضح کررہا ہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب دنیا جنگی جرائم کے عالمی مجرموں اور انسانیت کے قاتل بش اور بلیئر سمیت اُن تمام قصابوں کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں کھڑا دیکھے گی جن کے ہاتھ بیس لاکھ بے گناہوں انسانوں کے خون سے رنگین ہیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358004 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More