پاکستان اور چین کے جوہری معاہدے
سے امریکا خوفزدہ کیوں....؟
میں اپنے اصل موضوع پر جانے سے قبل اپنے آج کے کالم کی ابتداء ایک ایسی خبر
سے کرنا چاہوں گا جس سے میرے قارئین کی حیرانگی اور پریشانی میں جہاں اضافہ
ہوگا تو وہیں وہ یہ بھی سوچنے اور سمجھنے پر بھی مجبور ہوجائیں گے کہ
امریکا جو پاکستان کا بڑا خیر خواہ بنا پھرتا ہے دراصل اِس کا اصل رخ یہ
نہیں ہے جو ہمیں آج نظر آرہا ہے بلکہ یہ ہمارا وہ بڑا دشمن ہے جو دوست بن
کر ہمیں ڈسا جارہا ہے یا اُس چوہے کے مانند ہے جو کاٹتا بھی ہے اور زخم پر
پھونک بھی مارتا جاتا ہے تاکہ شکار کو احساس نہ ہو کہ وہ اِس کے ساتھ کیا
کر رہا ہے......؟ اور جب وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے یہ اُس چوہے کی طرح کاٹ
کاٹ کر جسم کا اچھا خاصہ حصہ اپنے اِس طرح کاٹنے سے چھلنی کرچکا ہوتا ہے تو
پھر شکار کو احساس ہوتا ہے کہ چوہے نے اپنے مکر و فریب اور دھوکے سے اِس کا
ستیاناس کر دیا ہے یکدم ایسے ہی امریکا بھی آج ہمارے ساتھ کر رہا ہے۔
اِس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ جب سے پاکستان اور چین کے درمیان جوہری معاہدہ
عمل میں آیا تب سے ہی اِس( امریکا)کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں گویا کہ جیسے
اِس کے مخملی بستروں پر آج کانٹے اُگ آئے ہوں یعنی یہ کہ تب ہی سے یہ کم
بخت امریکا بس اِس ہی سازش اور جستجو میں لگا ہوا ہے کہ کسی بھی طرح سے پاک
چین جوہری معاہدہ ختم ہوجائے جس کے لئے یہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر تو کبھی
امدادوں کی مد میں کثیر ڈالروں کی لالچ دے کر مختلف حربے تو استعمال کر ہی
رہا ہے تو وہیں چین سے بھی دوستی بڑھا کر اور اِس پر اپنا اور اپنے حواریوں
کا دباؤ ڈال کر اسے پاکستان سے ایٹمی معاہدے کو روکوانا چاہتا ہے جب کہ ستم
ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ اِس نے دوسری طرف خود اسرائیل کے ساتھ جو
معاہدہ کیا ہے وہ اِسے اپنا اور اسرائیل کا بنیادی حق سمجھتے ہوئے جائز
قرار دے رہا ہے اور وہ خبر جس کا میں نے اُوپر ذکر کیا ہے وہ گزشتہ دِنوں
امریکا اور اسرائیل کے درمیان ڈنکے کی چوٹ پر ہونے والے اُس جوہری معاہدے
سے متعلق ہے جس کے تحت امریکا فلسطینیوں اور گردونواح کے مسلم ممالک اور
مسلم آبادیوں سمیت خصوصی طور پر ایران کی جانب سے مسلسل اسرائیل پر میزائل
حملوں کی صورت میں اِسے نیست ونابود کرنے والی دھمکیوں کے بعد اسرائیل کا
حوصلہ بڑھانے اور اِس کی ہمت باندھنے کے لئے اِس نے اپنے بعد مسلمانوں کے
دوسرے بڑے دشمن ملک( جو اِس کا اپنا بغل بچہ بھی ہے اور جِسے دنیا )اسرائیل
کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے اور اِس کے مکروفریب سے بھی اچھی طرح سے
واقف ہے اِس سے اِس کا ایرومیزائل شیلڈ بہتر اور جدید بنانے کے لئے زبردستی
خود ایک ایسا معاہدہ کیا ہے کہ جس پر اسرائیلی خود بھی حیران ہیں اور اِس
موقع پر امریکی حکام نے اپنی یہ خواہش ظاہر کی ہے اگرچہ اِس معاہدے سے اِس
منصوبے پر چار سال کا عرصہ لگ سکتا ہے مگر ہم مطمئین ہیں کہ امریکا اسرائیل
کے درمیان اِس معاہدے سے اسرائیل کا رعب اور دبدبا مسلم ممالک اور بالخصوص
ایران پر برقرار رہے گا۔اور اُدھر ہی خبر کے مطابق اِس معاہدے سے متعلق
اسرائیلی وزارتِ دفاع نے اپنا سینہ پھولا کر اور گردن تان کر کہا ہے کہ اِس
معاہدے کے تحت یقیناً اسرائیلی ایرو2بیلسٹک شیلڈ کو اِس قابل بنایا جائے گا
کہ وہ انتہائی بلندی یعنی اِس نئے نظام کے ذریعے بیلسٹک میزائل کو فضا ہی
میں نشانہ بنا کر اِسے تباہ کردے گا اور اِس حوالے سے اسرائیلی وزارتِ دفاع
نے اِس نظام پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اور اِس طرح ہم ایران کے
کسی بھی ممکنہ میزائل حملے کی صورت میں اِس کا منہ توڑ جواب دیں گے۔
مگر میرا اِس موقع پر خیال یہ ہے کہ اِس خبر کی امریکا اور اسرائیل کے
نزدیک کوئی اہمیت نہ ہو مگر مجھے اتنا یقین ضرور ہے کہ پاک چین جوہری
معاہدے کو دنیا کے لئے خطر ہ قرار دینے اور پاک چین معاہدے سے خوفزدہ رہنے
والے امریکا کو اسرائیل کے ساتھ اِس کے میزائل شیلڈ کو بہتر بنانے والے
اپنی نوعیت کے اپنے انوکھے معاہدے کوبھی دنیا کے لئے ناسور اور خطرناک ضرور
قرار دینا چاہئے ..... کیونکہ جب پاک چین جوہری معاہدہ اِس کی اور اِس کے
چیلوں بھارت، اسرائیل اور افغانستان کی نظر میں خطرہ ہے تو پھر امریکا
اسرائیل کے ساتھ زبردستی کئے گئے اپنے اِس معاہدے کو دنیا کے لئے خطرناک
قرار کیوں نہیں دے سکتا....؟اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا....؟ تو پھر اِسے
کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے پُرامن
ایٹمی معاہدے پر اپنے طرح طرح کے منفی اور غلط مفروضے قائم کر کے دنیا کو
گمراہ کرنے کی اپنی سازش کے سلسلے کو بند کرے اور اپنی زبان کو لگام
دے.....تو اچھا ہے ورنہ اِس امریکی کینہ پروری اور بغض نما اِس دوستی پر
پاکستانی حکمرانوں کو اپنے تحفظ سے اِسے ضرور آگاہ کر دینا چاہئے پاکستان
سے جس دوستی کا دم بھر کر آج امریکا اپنے اور بھارتی مفادات کو لے کر چل
رہا ہے۔
اور پھر پاک چین جوہری معاہدے سے متعلق کوئی امریکی ایسے ریمارکس مت دے
جیسے ایک خبر کے مطابق گزشتہ دنوں امریکی نائب وزیر خارجہ وان ایچ وان نے
ایک انٹرویو کے دوران دیئے ہیں اُس نے کہا کہ پاک چین خفیہ جوہری تعاون سے
دوسروں کے لئے غلط مثال قائم ہوگی اِس کینہ پرور اور پاکستان سے شدید نفرت
کرنے والے امریکی نائب وزیر خارجہ کا یہ کہنا ”کہ پاکستان کو دو جوہری ری
ایکٹرز کی فراہمی نیو کلیئر سپلائرز گروپ کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہے اور
اِس کے ساتھ ہی اِس کا اپنا سینہ ٹھونک کر یہ بھی کہنا تھا کہ ہم آئندہ
اجلاس میں پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے اِس معاہدے کی بھر پور
مخالفت کریں گے یہاں دنیا کو اندازہ لگا لینا چاہئے کہ پاک چین کھلے عام
ہونے والے جوہری معاہدے کو خفیہ کہنے والے امریکی غصے اور برہمی کا یہ عالم
ہے کہ امریکا اِس معاہدے سے اِس لئے بھی خوفزدہ ہے کہ اَب اِسے یہ یقین
ہوگیا ہے کہ اِس معاہدے کے بعد خطے میں طاقت سے اپنی کی برتری برقرار رکھنے
والا پاکستان جو ایٹمی ہتھیاروں کی خریداری کے حوالے سے اِ س کا ایک بڑا
خریدار تھا اَب اِس معاہدے کے بعد سے یہ اِس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور یوں
اِس معاہدے کے بعد اِسے اپنے ایٹمی ہتھیار کی پاکستان میں مارکیٹ ٹھپ ہوتی
ہوئی محسوس ہورہی ہے اِس وجہ سے بھی امریکا یہ نہیں چاہتا کہ پاک چین ایٹمی
معاہدہ کامیاب ہو۔اِس ہی لئے تو امریکا دنیا بھر میں پاک چین جوہری معاہدے
کو ایک منفی رخ میں پیش کرکے اپنی خفت مٹا رہا ہے اور یہ کہتا پھر رہا ہے
کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت خفیہ نیٹ ورک کے ذریعے حاصل کی اور ساتھ ہی
امریکا یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اگرچہ پاکستان نے 1998میں اپنا پہلا ایٹمی
دھماکہ کیا تاہم پاکستان ایٹمی صلاحیت بہت پہلے ہی حاصل کرچکا تھا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاک چین جوہری معاہدے سے آخر امریکا بھارت سے
کہیں زیادہ خوفزدہ کیوں ہے....؟کہیں اِس کی وجہ یہ تو نہیں کہ امریکا کے
اِس حالتِ خوف کی ایک بڑی وجہ وہ بھارتی دباؤ بھی ہو جو بھارت خطے میں اپنی
بدمعاشی اور چودھراہٹ کے ٹمٹماٹے چراغ سے پریشان ہوکر اپنا سارا ٹینشن
امریکا پر ڈال کر خود کو اِس معاملے سے بچانا چاہتا ہے۔ |