ہمارا ملک اور امریکی رویہ

اس وقت ملک میں غیر ملکی عمل دخل اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب تو یہ گمان ہونے لگا ہے کہ ہم ایک نو آبادی ہیں ہمارے آقا ہمیں احکامات دیتے ہیں کہ یہ کرو وہ کرو فلانے کے خلاف کاروائی کرو فلانا خطرناک ہے فلانا ادارہ یہ کرے پھر مزید یہ کہ کس کو حکمران بننا اور اقتدار میں ہونا چاہیے کس حکمران کو غیر فعال کر کے بھیجنا چاہیے کس کی ضرورت کب تک ہے کس کو سیاسی میدان سے مکمل باہر کرنا چاہیے اور کب کتنی امداد دینی چاہئی اور کب روک دینی چاہیے۔ کس ادارے کو کیا کرنا چاہیے کتنی عسکری صلاحیت ہونی چاہیے۔ اب تو واقعی تمام محب وطن قوتوں کو اس بات پر تشویش ہے کہ اتنا زیادہ غیر ملکی عمل دخل ہماری سالمیت کے لیے بہت خطرناک اور نقصان دہ ہے اب اسے رک جانا چاہیے اور یہ زبردستی کی دوستی کا طوق گلے سے اتار کر دوستوں کو خدا حافظ کہہ دینا چاہیے۔

ویسے تو ہماری دوستی کو اتنے ہی سال ہو چکے جتنی کہ ہماری عمر ہے۔ نظامی صاحب کی کتاب کے مطابق۔ قائداعظم کی زندگی میں مغربیت کا رنگ غالب تھااس لیے امریکہ اور برطانیہ انکے لیئے نرم گوشہ رکھتے تھے اور انکی باتوں کو اہمیت دیتے تھے۔ قائداعظم نے پہلی بار ۲ جولائی ۴۷ء میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے جنوبی ایشیا کے سربراہ ریجنڈ ہیر اور امریکی سفارت خانے کے سیکنڈ سکریٹری تھامس ای ویل سے اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ ایک آزاد اور خود مختار پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہو گا اور مسلمان ممالک متحد ہو کر سویت یونین کی جارحیت کا مقابلہ کر سکیں گے۔ انہوں نے مشرقی وسطیٰ کو روسی خطرے کے ساتھ’’ ہندو سامراج‘‘ کے غلبے سے نجات دلانے کے لیے پاکستان کے قیام کو ضروری قرار دیا۔ قائداعظم جب چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو دھلی سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے تو انہیں الوداع کہنے ائیر پورٹ پر امریکی سفیر موجود تھا اوراس نے قائداعظم کو خراج تحسین پیش کیا اور قائداعظم نے امید ظاہر کی کہ’’ امریکہ پاکستان کے مختلف نوعیت کے مسائل حل کرنے میں ہاتھ بٹائے گا‘‘۔

امریکی وفد نے پاکستان کی آزادی کی تقریب میں بھی شرکت کی اسی تقریب میں قائداعظم نے انکشاف بھی کیا کہ روس دنیا کا واحد بڑا ملک ہے جس نے پاکستان کی آزادی کے موقع پر پیغام نہیں بھیجا۔

اسکے تیور کچھ ٹھیک نہیں تھے کیونکہ اسکا خیال تھا کہ تقسیم ہند سے برطانیہ کو بھارت اور پاکستان پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کا موقع ملا ہے۔ وہ ہندوستان کی مہا بھارت پالیسی کا حامی تھا وہ امریکہ یا برطانیہ کی اس خطے میں موجودگی کا شدید مخالف تھا۔ اسلئے جیسے ہی افغانستان کی طرف سے پختونستان کا مطالبہ ہوا روس نے اس مطالبے کی حمایت شروع کر دی۔

ایسے میں پاکستان کے لیڈروں کو یقین تھا کہ امریکہ ہی ایسا ملک ہے جو نوزائیدہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان حکومت کے مرکزی رہنما امریکی سفارت کاروں کی خوشنودی حاصل کرنے ان کو اپنے گھر دعوتوں پر بلاتے رات گئے تک انکی تواضح کرتے اور انکا موسیقی سے دل بہلانے کے لیے خود ڈرم بجاتے۔ قائداعظم اپنی سرکاری رہائش گاہ تک سفارت خانے کے لیے بیچنے کو تیار ہو گئے مگر امریکہ راضی نہ ہوا۔ آزادی کے دو ہفتے بعد ہی پاکستان کے وزیر خزانہ غلام محمد نے امریکہ کے سفارت کارچارس لوئس سے امداد کی درخواست کر دی جو امریکہ نے مسترد کر دی اور بعد میں۱۰ ملین ڈالر امداد دی امریکہ اچھے جذبات کا اظہار تو کرتا رہا۔ لیکن عملی طور پر ایسا طرز عمل اختیار کیا کہ ہندوستان کو کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جمانے کا موقع مل گیا لیکن جب بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کی تو امریکہ نے دونوں ممالک کی فوجی امداد کی ترسیل پر پابندی لگا دی جس سے بھارت کو کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ کرنے کو تقریت ملی۔ چونکہ انڈیا امریکہ کو پاکستان کی بقا کے بارے میں شکوک میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

اسی تناظر میں امریکی صدر ٹرومین نے مئی ۱۹۴۹ء میں بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو امریکہ آنے کی دعوت دی جو پاکستانی لیڈروں کو بہت شاق گزری گو کہ بعد میں پاکستان کو بھی مدعو کیا گیا۔ کیونکہ پاکستان کو کاروبار مملکت چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی خزانہ بالکل خالی تھا تنخواہیں دینے تک کے پیسے نہ تھے اسے ہندوستان نے اسکے حصے کے پیسے بھی نہ دیے اور ہندوستان اس بارے میں پر یقین تھا کہ کچھ ہی دنوں میں پاکستان خود ہی ختم ہوکر ہندوستان میں ضم ہو جائے گا۔

مشکل حالات میں بھی امریکہ ہمارے ساتھ تعاون پر آمادہ نہیں ہوتا وہ صرف اپنی ضرورت کے لیے ہمارے ساتھ محدود وقت کے لئے محدود تعاون کرتا رہا ہے۔ ایک پوری تاریخ اسکے اور ہمارے تعاون کی آئینہ دار ہے ہم نے اسکے مفاد کے لیے اپنی سلامتی تک کو بھی داؤ پر لگا دیا۔

امریکی رویے کا تجزیہ کر لیں جو اس نے ہمارے ساتھ روا رکھا آپ کو اسکی زہنیت کی عکاسی ہوتی نظر آتی ہے ! ابتدا میں کشمیر کی جنگ میں ۶۵ ء کی پاک بھارت جنگ۷۱ ء کی پاک بھارت جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی ” سرد جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اور اب دھشت گردی کی جنگ میں اتحادی ہونے کے بعد ۔ مشکل حالات میں ہمارے تعلقات کیا رخ اختیار کرتے رہے اور ضرورت پوری ہونے کے بعد ہمیں کس سلوک سے نوازا گیا۔

ہمارا امریکیوں سے رویہ۔
کوریہ کی جنگ میں امریکہ کی حمایت' بڈھابیر میں امریکی فضائی اڈے اور عسکری آلات کی تنصیب کی اجازت' چین سے تعلقات کے قیام میں ہمارا کردار روس کے خلاف امریکیوں کو جہاد کے جذبے سے لبریز افرادی قوت فراہم کی جس نے امریکا کو فتح دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا' دھشت گردی کی جنگ میں ہمارا امریکیوں سے تعاون ۔

ہمیں اس دوستی سے جو نقصانات ہوئے۔
لیاقت علی خان کا قتل جو گولیاں نکالی گئیں وہ اس سازش کو عیاں کرتی ہے ’ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سازش جسے بھاشانی نے بھرے جلسوں میں عیاں کیا‘پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی دھمکیاں‘ برخواستگی اور پھانسی’ اوجڑی کیمپ کی تباہی‘ ضیاء الحق اور دیگر جنرلوں کے طیارے کی تباہی اور اموات‘ مصحف علی میر کے طیارے کی پراثرار تباہی اور موت‘ بینظیز کی موت‘ خودکش دھماکوں کی کھیپ جو پاکستان کو مسلسل جانی و مالی نقصانات سے دوچار رکھے ہوئے ہے‘ این آر ا و کی لعنت کا اجراء جس کے نتیجے میں لٹیروں کو اقتدار کی شمولیت ‘ مشرف کو غیر فعال کر کے اقتدار سے محروم کروانا‘ فاٹا میں شدید کشیدگی‘ بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحاریک ۔ اسکے علاوہ اور جانے کتنے نقصانات اٹھائے جو منظر عام پر نہیں ہیں۔

دوسری طرف ہندوستان کو کیا فیض پہنچائے گئے تاریخ آئینہ دار ہے۔ آج اتحادی تو ہم ہیں لیکن دوستی ہندوستان سے‘ سول ایٹمی معاہدہ ان سے ہے اور دھمکیاں ہمارا مقدرہے۔ کیوں نہ ہم تعلقات کے مضمرات کا جائیزہ لے کر اپنی راہ متعین کریں-
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75611 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More