افغان قیادت اور بارڈر مینجمنٹ

چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کرم اجنسی کے علاقے ٹل کے دورے کے موقع پر کہا کہ پاک افغان سرحد پر نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے بلاامتیاز سخت اقدامات کیے جائیں اور اس سلسلے میں افغان نیشنل سکیورٹی فورسز اور ریزولوٹ سپورٹ مشن کے ساتھ کوآرڈی نیشن کی جائے۔ انہوں نے بارڈر مینجمنٹ کو بہتر بنانے کے لئے فوجیوں کی نئی تعینانی اور ڈھانچے کا بھی جائزہ لیا۔ جنرل راحیل شریف نے ہدایت کی کہ ملک بھر سے دہشت گردوں کے سلیپر سیلز اور ان کے سہولت کاروں کے نیٹ ورک کا صفایا کیا جائے گا۔ آرمی چیف نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ آپریشنز بغیر کسی امتیاز کے جاری رہیں گے اور دہشت گردوں کو پاکستان کی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آرمی چیف نے کومبنگ آپریشنز میں مصروف فوجی جوانوں سے بھی ملاقات کی اور ان کی بہادری کو سراہا۔ اس موقع پر آرمی چیف کو کرم ایجنسی کی سکیورٹی صورتحال، کومبنگ آپریشنز کی پیشرفت اور انٹیلی جنس بنیادوں پر کیے جانے والے آپریشنز پر بریفنگ بھی دی گئی۔ کومبنگ آپریشنز کی پیشرفت اور سکیورٹی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا۔

کوئٹہ میں ہونے والے خوفناک دھماکے کے بعد حکومت اور افواج پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کومبنگ آپریشنز شروع کر رکھا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں پاک فوج، مقامی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اور ایجنسیاں اس حوالے سے کافی سرگرم ہیں اور انہوں نے مختلف کارروائیوں کے دوران چھپے دہشت گردوں کو قابو کرکے ان سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کرلیا ہے۔ تاہم پاک افغان سرحد پر افغانستان کی جانب سے سرحدی کنٹرول نہ ہونا ایک مسئلہ رہا ہے۔جس کے باعث ایک طرف دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ 2014ء میں افواج پاکستان نے جب آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا تو بہت سے دہشت گرد وں نے افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا لیے۔ یقینا آپریشن سے قبل بھی ان کا افغانستان میں موجود اپنے ہمدردوں سے رابطہ تھا اور وہ انہی کی آشیر باد سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دے رہے تھے۔ وہاں انہیں غیرملکی ایجنسیوں خاص طور پر’’ را‘‘ کی پشت پناہی حاصل تھی جو کافی عرصے سے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ان دہشت گرد عناصر کو استعمال کررہی ہے۔ پاکستان نے متعدد مرتبہ افغان حکام کی توجہ اس جانب دلائی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ ان کی جانب سے اس مسئلے پر دھیان دینا تو درکنار لٹا پاکستان پر الزام تراشی شروع کردی گئی۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی جنہیں بعض حلقے پاکستان کا ہمدرد تصور کررہے تھے اپنے پیشرو حامد کرزئی کی زبان بولنے لگے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ان کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی نہ کی گئی ہو۔ افغان فوج کی جانب سے بھی کچھ ایسا ہی رویہ دیکھا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں طورخم سرحد پر پاک افغان افواج کی جھڑپ جس میں پاک فوج کے ایک میجر شہید ہوگئے تھے اور کئی روز نیٹوسپلائی لائن اور سرحد کے دونوں جانب آمدرورفت متاثر ہوئی تھی، بھی افغان ہٹ دھرمی کا نتیجہ تھی۔

پاکستان چاہتا ہے کہ چونکہ پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کی آمدورفت کے خدشات موجود ہیں، اس لیے اسے باقاعدہ اور موثر بنا کر غیرقانونی آمدرورفت کو روک دیا جائے۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے خدشات ختم ہو جائیں گے اور باہمی اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ تاہم افغانستان کی جانب سے پاکستان کے اس اقدام کو سراہنے کی بجائے تنازعہ کی شکل دینے کی کوشش کی گئی اور افغان فورسز نے مسلسل فائرنگ اور گولہ بارود سے "باب دوستی" کی تعمیر میں رخنہ ڈالا تاہم تمام ہتھکنڈوں پر کان دھرے بغیر اپنے جائز اقدام کو جاری رکھا اور "باب دوستی" کی تکمیل کو یقینی بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ گیارہ سو کلومیٹر خندق بھی کھودی گئی ہے جو 11 فٹ گہری اور 14 فٹ چوڑی ہے۔ اس کی کھدائی سے سرحدی حدود بھی واضح ہو گئی ہیں۔ یقینا افغانستان کے ساتھ 2600 کلو میٹر پیچیدہ سرحد کا نظم و نسق ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسلام آباد کو اس بات کا ادراک ہے کہ اسے باقاعدہ بنا کر ہی پاکستان اور افغانستان میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ افغان حکومت کو بھی اس بات کا شعور ہونا چاہئے کہ آزادانہ نقل و حمل کسی کے مفاد میں نہیں البتہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو سہولت پہنچانے کا ایک ذریعہ ضرور ہے۔ اس طرح یہ سرحدی کنٹرول دراصل دونوں ممالک میں پائیدار امن اور استحکام کی جانب پاکستان کا ایک بروقت اور موثر قدم ہے جسے افغانستان کے تعاون اور اعتماد کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان افغانستان کو ایک حقیقت اور آزاد مملکت تصور کرتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے استحکام اور امن کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اشرف غنی بھی اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اس سلسلے میں معاندانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں تو یقینا وہ ان غیرملکی قوتوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو اپنے مفادات کی چکی میں پیسنے کی خواہش مند ہیں۔ گزشتہ ہفتے طورخم بارڈر پر پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کا افسوس ناک واقعہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

بہرحال افغانستان کے اس روکھے رویے کے باوجود پاکستان اپنے حصے کا کام مکمل کرتا رہے گا۔ اسی پس منظر میں جنرل راحیل شریف نے درست فرمایا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی جاری رکھے گا اور اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی طرح انہوں نے بارڈر کے انتظام کے سلسلے میں افغان فورسز سے تعاون کی ہدایت کرکے بھی پاکستان کی کوششوں اور نیک نیتی کی عکاسی کی ہے۔ اب افغان قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے سرزمین اور عوام کے مفادات کا سودا کرنے کی بجائے غیرملکی قوتوں کے اثر میں آئے بغیر دہشت گردوں کے خلاف اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو تو اس بات کا ادراک ہے کہ افغان باقی، کوہسار باقی تاہم افغان قیادت کو بھی چاہئے کہ وہ غیرملکی قوتوں کی نفی کرے اور اپنے ملک و قوم کے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے حقیقی معنوں میں فرزند کوہسار کہلانے کا عملی ثبوت پیش کرے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 62914 views Columnist/Journalist.. View More