پاکستان ماہ اگست میں معرض وجود میں آیا۔
ہر پاکستانی کے لیے پاکستان اﷲ کی طرف سے ایک نعمت مترقبہ ہے مگر پاکستان
کے اندر ہی کچھ غدار وطن اس ماہ میں پاکستان کے خلاف اپنا زہر اُگل کر اپنی
اصلیت دکھانے کے ساتھ ساتھ اپنے آقاؤں کو خوش کرتے ہیں۔ ویسے تو بھارت نے
پاکستان کے حالات خراب کرنے کے لیے بہت سے را کے ایجنٹ چھوڑ رکھے ہیں لیکن
بہت سے’’ را‘‘ نما ’’رہنما‘‘ بھی ان کا ہی کام کر رہے ہیں لیکن جب اﷲ کی
نصرت ساتھ ہو تو کوئی دشمن پاکستان کا بال بیکانہیں کرسکتا ۔
بلوچستان میں دشمنان پاکستان نے بہت کوششیں کیں کہ پاکستان کے حالات نہ
سدھریں حتیٰ کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی کوشش کی مگر آج الحمداﷲ
پورے بلوچستان میں پاکستان زندہ باد کے نعرے بلندہورے ہیں ۔ پاکستان کے حق
میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ بھارت کے ایجنٹ پاکستان سے فرار ہورہے
ہیں۔بلوچستان کے غیور کھلم کھلا پاکستان کے حق میں بول رہے ہیں اور پاک
دشمنوں کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔
کسی بھی ملک میں سیاسی پارٹیاں اپنے ملک کی خیر خواہ ہوتی ہیں۔ان پارٹیوں
کا نعرہ پہلے ملکی و قومی مفادات ہوتے ہیں مگر ہمارے پاکستان میں سیاسی
پارٹیوں کے پہلے اپنے مفاد ہوتے ہیں بعد میں پاکستان۔اپنے مفادات کی خاطر
سیاسی لوگ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جاتے ہیں۔تمام سیاسی پارٹیاں
پاکستان زندہ با د کانعرہ بلند کرتی ہیں مگر کچھ پارٹیاں اس کے خلاف کام
کررہی ہوتی ہیں اور یہی سیاستدان اپنی کرسی کی خاطر ایسی پارٹیوں سے ملکر
حکومت کررہے ہوتے ہیں۔ اور اگر نہ بھی ہوں تو حکمرانوں اور اداروں کا فرض
ہوتا ہے کہ ایسے عناصر کا خاص خیال کیا جائے ۔
ایم کیوایم سندھ کی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی پارٹی ہے۔ اس کو باقاعدہ
الیکشن کمیشن نے سیاست میں آنے کا سرٹیفیکیٹ دے رکھا ہے۔ اس کے قائد کے
علاوہ تمام عہدے دار پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ اس پارٹی کا نعرہ بھی پاکستان
زندہ باد ہے مگر اس کے قائد الطاف حسین جو سیاست تو پاکستان میں کررہے ہیں
مگر اس ملک میں آنے سے ڈرتے ہیں۔ساتھ ہی اپنے لہو کو پاکستان کے لیے بہانے
کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ اپنے کارکنوں کی جانیں تو قربان کرادیتے ہیں پر
اپنی جان دینے سے ڈرتے ہیں۔ الطاف حسین نے کوئی ایک بار نہیں کئی بار
پاکستان کے خلاف بکواس کی ہے مگر نہ جانے ہر دورکے حکمران اس کے خلاف ایکشن
لینے سے کیوں ڈرتے رہے ہیں؟
پچھلے سال اسی ماہ اگست میں الطاف حسین نے امریکا کے شہر ڈیلاس میں ایم کیو
ایم کے سالانہ کنونشن سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت خود بزدل
اور ڈرپوک ملک ہے۔اگر ان میں ذرا سی بھی غیر ت ہوتی تو پاکستان کی سرزمین
پر مہاجروں کا خون نہیں ہونے دیتے۔ یہ بکواس ثابت کرتی ہے کہ وہ مہاجر نہیں
بلکہ انڈین ایجنٹ بن کر کام کر رہے ہیں۔ الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کو
ہدایت کہ امریکی اخباروں کو خط لکھیں اور پاکستان کی اصل صورتحال سے آگاہ
کریں۔
اس بار پھر اگست کے ماہ میں اس غدار نے پاکستان کے خلاف محاذ کھول
دیا۔پچھلے چند دنوں سے اس سیاسی جماعت نے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا رکھا
تھا۔ذرائع کے مطابق ہڑتالی کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیوایم کے قائدنے
ایسے جملے استعمال کیے کہ کارکن یک دم آپے سے باہر ہوگئے اور پورے شہر میں
ہنگامہ برپا کر دیا۔انہوں نے رینجرز، ٹی وی چینلز کے خلاف کارکنوں کو
اکسایا۔ متحدہ سربرا کا کہنا تھا:
’’ کارکنوں سن لو جیو، اے آر وائی اور باقی تمام ٹی وی ہمارے پیسے پر پلتے
ہیں اور ہمیں ہی دکھانے میں انہیں شرم آتی ہے۔ 12 گھنٹوں میں بڑا فیصلہ
لینا ہے، جو کارکن فیصلہ نہیں لے سکتا وہ ایم کیو ایم چھوڑ دے‘‘
قائد کی گفتگو کے جواب میں کارکنوں نے جواب دیا کہ ’’ نہیں بھائی! ہم 12
گھنٹوں میں سب کچھ کر کے دکھائیں گے۔‘‘ انہوں نے پاکستان کے خلاف نعرے بھی
لگوائے جس کی سوشل میڈیا پر ویڈیوکلپ بھی آچکی ہے۔
جیسے ہی خطاب ختم ہوامتحدہ کے کارکنوں نے کراچی پریس کلب اور نجی چینلز کے
دفاتر پر حملہ کردیا۔ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو نذرآتش کردیا۔ کراچی کا
امن چند منٹ میں تباہ کرکے رکھ دیا۔
الطاف حسین کی تقریر کی طرح ایک بار کسی اور نے بھی ٹینکوں پر بیٹھ کر
پاکستان آنے کا خواب دیکھا تھامگر اس کی یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ ہم
پاکستانی عوام آپس میں جتنا مرضی لڑ مڑلیں مگر غدار وطن اور بھارت کے لیے
ہم سب ایک بند مٹھی کی طرح ہیں۔ ہمارے سیاستدان آپس میں جتنی مرضی ایک
دوسرے کی ٹانگیں کھینچ لیں مگر جو سیاستدان ہمارے ازلی دشمن کی جھولی میں
بیٹھ کر ہمیں دھمکیاں دے گاوہ پھر پاکستان تو کیا پاکستان کی سرحد پر اپنی
میت بھی نہیں لا سکتا۔
پچھلے اگست کی طرح آج بھی ہمارے حکمرانوں سمیت تمام سیاستدان الطاف حسین کی
اس تقریر پر تنقید کررہے ہیں۔ کوئی غدار بول رہا ہے تو کوئی کہہ رہا ہے کہ
یہ انڈیا کی زبان بول رہاہے۔ہمیں معلوم ہے کہ ہر بار کی طرح چند سیاستدان
میڈیا پر آکر الطاف پر تنقید کرکے پھر سو جائیں گے۔ ہمارے سیاستدانوں میں
ملی یگانگت نہیں۔سوال یہ ہے کہ ایک شخص ہمارے معززترین ادارے کو برا بھلا
کہتا ہے ، کبھی انڈیا کو مداخلت کرنے کا پیغام دیتا ہے تو کبھی نیٹو کو
بلاتا ہے۔ کیا ایسے شخص کو ہم پاکستانی شہری کا درجہ دے سکتے ہیں؟کیا اس کو
پاکستان میں سیاست کرنے کا حق دیا جاسکتا ہے؟ کیا وہ ہمارے ملک میں حکمرانی
کرسکتا ہے؟
آج پاکستانی عوام حکومت سے نہیں بلکہ آرمی چیف سے مطالبہ کررہی ہے کہ ایم
کیو ایم کے قائد کو پاکستان کے معاملات سے الگ کریں اور اس کے خلاف
انٹرنیشنل سطح پر کاروائی کرائی جائے۔ کل کے حالات جن لوگوں نے خراب کیے یا
خراب کرائے ان پر دہشت گردی کا مقدمہ چلا یا جائے۔ اگر یہ پارٹی ملک دشمن
میں عناصر میں شامل ہے تو فی الفور اس کی الیکشن کمیشن سے رجسٹریشن ختم کی
جائے۔
سیاستدانوں کے خالی بیان بازی سے کام نہیں چلے اب سوچنا ہوگاکہ ایسی پارٹی
جس کا قائد ملک کے خلاف باتیں کرتا ہواس کو قومی دھارے میں شامل کرنا چاہیے
کہ نہیں؟ ہمارے سیاستدان پچھلے دوسالوں سے کرسی کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ کبھی
عمران خان تو کبھی طاہرالقادری سڑکوں پر نکل رہے ہیں مگر ملک دشمن عناصر کے
خلاف کوئی سیاستدان میدان میں نہیں آرہا ۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد جتنی حب
الوطنی بلوچستان میں دیکھنے کو ملی اتنی کہیں بھی نہیں۔ آخر ہم کب تک اپنے
مفاد پر اس ملک کو قربان کرتے رہیں گے؟کیا ہمارے حکمران بھی ترکی کے رجب
طیب اردگان کو سامنے رکھ کر اپنے ملک کے لیے اچھا سوچیں گے؟
ہمیں معلوم ہے کہ اب پھر ہر بار کی طرح الطاف حسین نے معافی مانگ لینی ہے
مگر اس بار معافی نہیں بلکہ انصاف کرناہوگا حکمرانوں کو بھی اور آرمی چیف
کو بھی۔ |