آزادی کا عنوان ختم نہ ہوگا
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے بھارت
کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی سطح پر اجاگر
کرنے کے لیے 22 ممبر پارلیمان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے۔ان 22 اراکین
پارلیمان کو خصوصی نمائندوں کے طور پر نامزد کیا گیا ہے جو دنیا کے اہم
ممالک میں بھارت زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر
کریں گے۔وزیراعظم نے ان اراکین پر زور دیا کہ وہ دنیا بھر میں کشمیر کے نصب
العین کو اجاگر کرنے کی کوششیں یقینی بنائیں تاکہ وہ اس سال ستمبر میں
اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران عالمی برادری کے اجتماعی ضمیر کو
جھنجوڑ سکیں۔ دوسری طرف بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میںڈیڑھ ماہ سے
جاری عوامی تحریک سے خائف بھارت کا کشمیریوں کے لیے پیغام یہ ہے کہ پاکستان
زندہ باد کے نعرے اور سبز ہلالی پرچم چھوڑ کر اپنی آزادی کی بات کرو تو اس
نعرے کا احترام کیا جائے گا۔اطلاعات ہیں کہ سری نگر میں بھارتی فوج کی
پندہویں کور کے بڑے افسران اپنے اپنے زرائع سے یہی تجویز دھرارہے ہیں مگر
اس دفعہ بھارت کے خلاف نفرت اتنی زیادہ ہے کہ نوجوان بھارت سے آنے والے کسی
پیغام کو قبول تو درکنار سننے کے لیے بھی تیار نہیں ۔ بھارتی فورسز کی پیلٹ
گن کے چھروں سے چھلنی نوجوان کوئی بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔سید علی
گیلانی میرواعظ ڈاکٹرعمر فاروق اور یاسین ملک کے ہاتھ میں اب کچھ نہیں رہا۔
عوامی تحریک کی رہنمائی اور مرکزیت کے لیے اگر وہ چاہیں بھی توکچھ نہیں
کرسکتے۔ عوامی تحریک نوجوانوںنے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ کب ہڑتال کرنی ہے
اور کب مشعل بردار جلوس نکالنے ہیں اور یہ کہ احتجاجی تحریک کا نیاکیلنڈر
کیا ہوگا۔ اب یہ نوجوان طے کرتے ہیں جو علی گیلانی میر واعظ اور یاسین ملک
کے نام پر جاری ہوتا ہے ۔نوجوانوںنے آزادی پسند قیادت سے یہ بھی کہہ دیا ہے
کہ اب کی بار کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا،کوئی لچک نہیں دکھائی جائے گی
،قربانی بھی ہم دیں گے ۔کوئی لچک دکھائی گئی کسی کمزوری کامظاہرہ کیا گیاتو
حالات بدل جائیں گے اور تحریک کا رخ موڑ دیا جائے گااور ہوسکتا ہے کہ جامع
مسجد سرینگر میں بھارت کا ترنگہ بھی لہرا دیا جائے چنانچہ اس دھمکی کے
سامنے آزادی پسند قیادت مجبور ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ مہینے بھر سے کرفیوزدہ
لوگوں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آچکی ہے، بچوں کیلئے دودھ ختم ہوچکا ہے،
زخمیوں کیلئے علاج معالجے اور دوائیوں کی کمی ہے ایسے میں ہڑتال ختم کرنے
اور کاروبار زندگی معمول پر لانے کی کوئی بھی اپیل کریں گے تو کارگار ثابت
نہیں ہوگی۔ نوجوانوں نے عوام کے لیے مشکل اور تکلیف دہ اس صورتحال کا ادراک
کرتے ہوئے متبادل بھی تلاش کرلیئے ہیں مزدور ہویا ملازم دہاڑی دار ہویا
خاتون خانہ دن بھر کام کریں گے،ہفتے میں ایک دن ہسپتالوں کی اجتماعی صفائی
کریں گے۔ ہر روز سہہ پہر کو احتجاجی مظاہرے شروع ہوں گے جو رات گئے تک جاری
رہیں گے۔ چنانچہ برہان کے گائوں ترال سے لے کر سرینگر اور بارمولا تک ان
دنوں یہی معمول ہے ۔بھارتی پالیسی سازوں کو اندازہ ہوچکا ہے کہ اب بھارتی
فوج کیلئے جموں وکشمیر میں کوئی نرم گوشہ موجود نہیں بھارتی فوجی کو دیکھتے
ہیں ہزاروں لوگ گھروں سے باہر آجاتے ہیں چنانچہ اس نئی صورتحال میں فوج
پیچھے اور جموں وکشمیر پولیس کو آگے کردیا گیا ہے ۔ اس تبدیلی کا مقصد یہ
ہے کہ جموں وکشمیر کے لوگ ہی آپس میں لڑتے رہیں پولیس کے اہلکار بھی جموں و
کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں ۔دوسری طرف کشمیری نوجوانوں کو غصہ جموں وکشمیر
پولیس کے خلاف بڑھتا جارہا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ برہان وانی کی
شہادت میں پولیس مخبر کا کلیدی کردار بتایا جاتا ہے ۔6 جولائی کو بھارت کے
زیر انتظام جموں وکشمیر کے عوام نے پاکستان کے ساتھ عید منائی تھی ۔ عید کے
دو دن بعد8 جولائی 2016 کو برہان مظفر وانی جنوبی مقبوضہ کشمیر کے کوکرناگ
قصبے کے ایک گاوں بم ڈورہ میں بھارتی فوج سے مقابلے میں شہید ہو گیا۔ جب
شہید وانی کی لاش اس کے آبائی گاں ترال ضلع پلواما میں تدفین لے جائی گئی
تو ساری وادی میں گویا آگ لگ گئی۔ کہتے ہیں تین لاکھ کے قریب لوگ جنازے میں
شامل ہوئے۔8 جولائی کے سانحے نے نوجوانوں بالخصوص انجنیر برہان مظفر وانی
کے ساتھیوں کو ایک نیا جذبہ اور مقصد دیاہے۔ برہان کے جنازے میں ریاست کے
بچے بوڑھے جوان اور عورتیں سبھی شامل تھے تاہم نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی
یہ نوجوان 8جولائی کے بعد واپس اپنے گھروں میں نہیں گئے۔ احتجاج میں شامل
ہیں گائوں گائوں گھوم پھر کر کھانہ اکٹھاکر تے ہیں اور سرینگر پہنچاتے ہیں
تاکہ زخمیوں اور ان کے تیمارداروں تک پہنچایا جائے اور ان گھروں میں
پہنچایا جائے جہاں کرفیو کے باعث فاقوں کی نوبت آچکی ہے ۔ادھر پاکستان میں
یوم آزادی کی تیاریوں کے سلسلے میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہرائے گئے
اطلاعات ہیں کہ اسلام آباد میں کئی جگہوں پر حکومت کی طرف سے پاکستان کے
پرچم تقسیم کئے گئے تاکہ عوام میں یوم آزادی کا جوش و لولہ پیدا ہو۔حکومت
کے خیال میں یہ جوش اور ولولہ اپوزیشن کی تحریک پر پانی ڈالنے کاکام بھی
کرسکتا ہے۔ پاکستان میں قومی پرچموں کی تقسیم کے سیاسی مقاصد تو ہوسکتے ہیں
مگر سرینگر پلوامہ اسلام آباد بارمولامیں پاکستانی پرچم کسی سیاست کیلئے
تیار نہیں ہورہے بتایا گیا ہے کہ وادی میں کپڑے کی دکانوں سے سبز رنگ کا
کپڑا ختم ہوگیا ہے کوئی دوکاندار مزید کپڑا منگواتا ہے تو ہاتھوں ہاتھ منہ
بولے داموں بک رہا ہے وجہ یہ ہے کہ نوجوان یہ کپڑا خرید کر سبز ہلالی پرچم
بناتے ہیں جو بھارت کے خلاف احتجاج کے دوران لہرائے جاتے ہیں ۔ سبز ہلالی
پرچم لہرانے کا مقصد پاکستان سے محبت ہو یا نہ ہو بھارت سے نفرت کے اظہار
کا زریعہ ضرور ہے ۔ کشمیر کی عوامی تحریک میں شامل نوجوانوں کو پیلٹ گن کے
چھروں کی فکر ہے اور نہ اپنے گھر بار کی چنانچہ ان آزادی پسندوں کے جسموں
پر چھروں کے نشان نے تاریخ کا عنوان لکھ دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم آزادی
چاہتے ہیں۔ نوجوان سینہ تان کر چھروں کاسامنا کرتے ہیں اپنا جسم چھلنی ہوتا
دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں جب تک ہمارے جسم پر چھروں کے نشان رہیں گے آزادی
کا عنوان ختم ہوگااور نہ ہمارا مطالبہ۔۔یہ برہان وانی کون ہے جس نے کشمیر
کی عوامی تحریک میں اس دفعہ نئی جان ڈال دی تھی؟
انجنیرنگ کے طالب علم برہان مظفر وانی کی وقت شہادت عمر 22 سال تھی۔ بھارتی
فوج کے ہاتھوں اپنے بھائی کی شہادت کے بعد برھان حزب المجاہدین نامی عسکری
تنظیم میں شامل ہو گیا تھا ۔ وانی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو
سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دی اور دیکھتے ہی دیکھتے
نوجوان اس تحریک میں شامل ہو گئے۔برہان وانی کے والد ایک سکول ٹیچر تھے جن
کا نام مظفر احمد وانی ہے۔ وہ ایک ہائر سیکنڈری سکول کے پرنسپل رہ چکے ہیں۔
ان کا بڑا بیٹا اور برہان وانی کا بڑا بھائی خالد مظفر وانی بھی گزشتہ برس
بھارتی فورسزکے ہاتھوں شہید ہو گیا تھا۔ شہادت سے قبل برہان مظفر وانی نے
سوشل میڈیا کا زبردست استعمال کرتے ہوئے ایسی ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کیں اور
کشمیری نوجوانوں کو تحریکِ آزادی میں شمولیت کی ایسی ایسی ترغیبات دیں کہ
ریاستی حکومت اس نئی سوشل میڈیا تحریک کے سامنے بے بس نظر آنے لگی۔جناب
وزیراعظم نوازشریف نے اگست کے اوائل میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے
اجلاس کی تیاری کے سلسلے میں ایک اجلاس میں فرمایا تھا کہ پاکستان کشمیریوں
کو ان کی اپنی کشتی کا ملاح بنانے کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔ وزیر
اعظم ہاوس اسلام آباد سے جاری ہونے والے اس اعلامیہ کی تشریح کا ایک زاویہ
کشمیری ریاست کی اپنی شناخت اور حق حکمرانی بھی ہو سکتا ہے اللہ کرے نواز
شریف کی خواہش کے مطابق کشمیری اپنی کشتی کے آپ ملاح بنیں تاکہ منجھدار میں
پھنسی کشمیریوں کی کشتی کسی منزل پر لگے۔ |
|