الطاف کی ہرزہ سرائی اور ہماری حماقتیں

گزشتہ کچھ دن انتہائی کرب اور اذیت میں گزرے۔ ہم یہی سوچتے رہے کہ اس زمیں کے خطے پر بحیثیت قوم ہماری فکر اور رویے کیا ہیں؟ ساتھ یہ بھی خیال آرہا تھاکہ ہمیں بیوقوف بنانااور لفظوں کا ہیر پھیر کرکے ہمارے جذبات سے کھیلنا کس قدر آسان ہے!!!! پچھلے دنوں ہندوستان کے وزیر دفاع منوہر پریکرنے پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہوئے کہا کہ ’’جہنم میں جانا اور پاکستان میں جانا ایک جیسا ہی ہے‘‘۔ اس کے رد عمل میں ہندوستانی اداکارہ Divya Spandana (جن کا فلمی نام Ramya ہے)نے پاکستان کے حق میں صرف اتنا بیان دیا کہ ’ ’ میں وزیر دفاع کے بیان سے اختلاف کرتی ہوں۔ پاکستان جہنم نہیں بلکہ وہاں کے رہنے والے لوگ بھی ہماری طرح کے ہی انسان ہیں‘‘۔ان الفاظ کی ادائیگی پر اداکارہ سے معافی کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس نے معافی مانگنے سے انکار کردیا اور اپنے موقف پر ابھی تک ڈٹی ہوئی ہے۔ کرناٹکا کے کورٹ میں اس ’’جرم ‘‘کی پاداش میں اس اداکارہ کے خلاف بغاوت کے مقدمے کی درخواست دائر کردی گئی ہے۔مااسی طرح بنگلہ دیش میں’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کو سزائے موت دی جارہی ہیں اور دوسری طرف پاکستان کی پاک دھرتی پر پاکستان مردہ باد ‘‘کے نعرے لگانے والی جماعت پریس کانفرنس کررہی ہے۔ حکومتی اہل کاروں سے خفیہ ملاقاتیں کرکے مستقبل کے رستے ہموار کر رہی ہے۔ اگلے ہی دن کراچی کی میئرشپ اور دیگر عہدوں کا قلمدان ان کے حوالے کیا جارہا ہے۔ الطاف حسین نے وطن عزیز پاکستان کے متعلق جو ہرزہ سرائی کی اور زہر اگلا، وہ تو قابل مذمت ہے ہی۔ کسی صورت اس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا ۔اس جرم اور مجرم کونہ ہی پاکستانی قوم کبھی بھول سکتی ہے اور نہ ہی معاف کر سکتی ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ہمیں افسوس ارباب اختیار کے رویے اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی غیر پیشہ ورانہ حماقتوں پر ہوا۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد ایم کیو ایم کے قائدین نے قوم کی آنکھوں میں دھول جھولنے کیلئے پریس کانفرنس کی۔ یہ دن پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر ہمیشہ یاد رہے گا۔ گونگلوؤں پرسے مٹی جھاڑنے کی طرز پر ڈاکٹرفاروق ستار اور اس کے ساتھی دبے لفظوں میں الطاف کی حمائت کر رہے تھے۔ وقتی طور پر قوم کا غم و غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے لفظوں کے گھورکھ دھندے میں اس واقعہ کو لپیٹنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی اپنا رہے تھے۔ ان کی باڈی لانگوئج صاف بتا رہی تھی کہ ان کے دلوں میں ابھی بھی ’’بھائی ‘‘ کی محبت اور عقیدت جوش مارہی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ابھی ’’بھائی ‘‘ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوتے اس وقت تک ہم کراچی والے ہی معاملات چلائیں گے اور فیصلے کریں گے۔ عین اسی وقت جب وہ یہ ملمہ سازی کر رہے تھے، ہمارے ٹی وی چینلز پر طرح طرح کی الجھنوں بھری بریکنگ نیوز چل رہی تھیں۔ مثلا ’’متحدہ نے الطاف حسین کے خلاف بغاوت کردی‘‘ ’’الطاف حسین تنہا رہ گیا‘‘ ’’اب فیصلے صرف ایم کیو ایم کراچی کیا کرے گی‘‘ ’’ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے قائد بن گئے‘‘ ’’ ایم کیو ایم کراچی نے الطاف حسین کو طلاق دے دی‘‘ وٖغیرہ وغیرہ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن ان تمام بیانات کا حقیقت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ کچھ گھنٹوں کے بعد واسع جلیل نے جیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں واضع کردیا کہ کچھ بھی تبدیل ہونے نہیں جارہا۔ رابطہ کمیٹی اسی طرح
کام کرتی رہے گی۔ انہوں نے الطاف حسین کے بیان پر مذمت یا شرمندگی کا بھی اظہار نہیں کیا۔ضابطے کی کاروائی کے طور پر الطاف حسین کی حسب معمول ایک معذرت شائع ہوئی۔ اس معذرت کے کچھ ہی دیر بعد ایم کیو ایم امریکہ کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر پاکستان کے بارے میں بد زبانی کی اور خبث باطن کا اظہار کیا۔ ہندوستان کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم تم سے معافی مانگتے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد نے یہ وطن بنانے کی غلطی کی۔اس تمام صورت حال میں پاکستانی قوم پریشان حال اور سراسیمگی کا شکار ہے۔اعلی تعلیم یافتہ پاکستانیوں سے لیکر ایک رکشہ ڈرائیور اور دہاڑی دار مزدور تک الطاف حسین کے پاکستان اور پاکستانی قوم کیلئے ہتک آمیز الفاظ پر دل گرفتہ ہے۔ بد قسمتی سے ہماری سیاسی قیادت اور ارباب اختیار صرف اقتدار کے مزے لوٹنے میں دل چسبی رکھتے ہیں۔ جب اقتدار سے باہر ہوں تو ان کی سکونت بھی اس دھرتی کی بجائے دوبئی، لندن یا واشنگٹن میں ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کو اس صورت حال میں وطن عزیز کی عزت و آبرو کی بجائے اپنے اقتدار کو بچانے کی فکر ہے۔ وہ یہ تدبیریں کر رہے ہیں کہ اگر ایم کیو ایم کے خلاف کوئی کاروائی کی تو وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں گے۔ پہلے ہی ماڈل ٹاؤن میں ظالمانہ قتل و غارت اور بے گناہ لوگوں کا خون بہانے کی وجہ سے حکومت زیر عتاب ہے۔ ملک بھر میں حصول انصاف اور قصاص کیلئے احتجاجی مظاہرے عروج پر ہیں۔ پانامہ لیکس کا اژدہا بھی منہ کھولے انہیں ڈرا رہا ہے۔ ان حالات میں ایم کیو ایم کے خلاف ایکشن لینے کی صورت میں اقتدار خطرے میں لگ رہا ہے۔ چند عام افراد کی پکڑ دھکڑ کرکے عوام کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے ان بڑوں پر ہاتھ ڈالا جائے جو اس سب صورت حال کے اصل ذمہ دار ہیں۔ کراچی کے محب وطن شہری مبارک کے مستحق ہیں جنہوں نے ان منہوس چہروں کی تصویروں کو بیچ چوراہے کے چیر پھاڑ دیا ہے جو وطن عزیز کی حرمت کو پامال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اے عزیز ہم وطنو! یاد رکھو۔ وطن کی مٹی کی حرمت ہمارے لئے ماں کی حرمت کی حیثیت رکھتی ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں متحد اور یک زبان ہونے کی ضرورت ہے۔ اس وطن کی عزت وناموس پر قدغن لگانے والوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج ظلم و ستم کی انتہا کر رہی ہے۔ کئی دنوں کا کرفیو بھی کشمیریوں کے حصول آزادی کے جذبات کوٹھنڈا نہیں کرپایا۔ ہندوستان اس صورت حال میں سخت مشکل کا شکار ہے۔ ان حالات میں وہ اپنے ایجنٹوں کو استعمال کرکے مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں ان ایجنٹوں کی زبانوں سے ایسی لغویات کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلمانان برصغیر نے ہندوستانی قومیت کے پر فریب نعرے کو مسترد کرتے ہوئے ’’دوقومی نظریہ‘‘ کی بنیاد پر اس وطن کو حاصل کیا تھا۔ یہی وہ نظریہ ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن اور شناخت کو سمجھنے اور لاگو کرنے کے لئے جذبہ عمل فراہم کرتا ہے۔ اسی نظریہ کی بنیاد پر اس وطن کے حصول کیلئے لاکھوں انسانوں نے قربانیاں دیں۔ آج ایک سازش کے تحت الطاف حسین جیسے را کے ایجنٹ اور پاکستان مخالف قوتوں کے پٹھو اس وطن عزیز کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کیلئے کھلے عام بیہودہ باتیں اور ہرزہ سرائی کررہے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم ان سازشوں کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ کریم وطن عزیز کو استحکام عطا کرے۔ اسے اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ فرمائے۔ اسے امن و سلامتی کا گہوارہ اور اسلام کا ایک ناقابل تسخیر قلعہ بنائے ۔ آمین ثم آمین
پاکستان زندہ باد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان پائندہ باد
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218616 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More