گھن چکروں کی دلدل

سیاستدانوں کی باہمی چپقلش اور اقتدار کی رسہ کشی کیساتھ مقتدر طبقات کی منافقت،مفاد پرستی اور کرپشن ہر شعبہ میں تباہی کا باعث بن چکی ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان کا ہر شعبہ اپنی افادیت سے محروم ہوچکا ہے اور کوئی بھی ادارہ اپنے فرائض دیانتداری و فرض شناسی سے انجام نہیں دے رہا ہے جس کی وجہ سے عوام نا انصافی،استحصال،بیروزگاری ،غربت اور نامساعد حالات و ناکافی سہولیات کے ساتھ بیماری اور ناتوانی کا بھی شکار ہیں اور سپریم کورٹ کے معزز وفاضل جج صاحبان کی اس بات میں کوئی مبالغہ یا ابہام نہیں ہے کہ حکومتی نااہلی و مقتدر قوتوں کی سرپرستی کے باعث آلودہ پانی، ناقص دودھ اور غیر معیاری گوشت کیساتھ ہر چیز میں مضر اشیاء کی ملاوٹ کے ذریعے عوام میں موت بانٹنے کا کاروبار بڑی دیدہ و دلیری سے جاری اور کوئی اسے روکنے یا اس کیخلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والابھی کوئی نہیں ہے جس کی وجہ سے ٹی بی و کینسر کے امراض عام ہوچکے ہیں اور ان موذئ امراض سمیت عام امراض کی ادویات تک کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے ذریعے عوام کو علاج کی سہولت تک سے محروم کرنے کی سازش کی جارہی ہے جسے روکنے میں تقریبا تمام ادارے ناکام دکھائی دے رہی ہے اور تو اور ہمارے حکمرانوں نے اپوزیشن سمیت پوری قوم کو اس طرح گھما رکھا ہے کہ ابھی تک پانامالیکس کے حوالہ سے آف شور کمپنیوں پر جو ٹی او آرز بننے تھے وہ نہ بن سکے حالانکہ اگر اس حوالہ سے کسی بھی عام آدمی سے پوچھ لیا جاتا تو اس نے سب ٹی او آرز 10منٹ میں تیار کرلینے تھے جو ہمارے پڑھے لکھے وزیروں اور اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے سبق حکمرانوں سے نہ بن سکے اور یہ بننے بھی نہیں ہیں کیونکہ کرپشن کے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں وہ تو صرف ایک دوسرے کو وقت دیکر تحفظ فراہم کررہے ہیں اور ایک بہانے کے بعد دوسرا بہانہ بنا لیا جاتا ہے اسی دوران حکومت اپنی مدت بھی پوری کرلے گی ہمارے سیاستدان ایک تاجر ہیں اور تاجر کبھی بھی اپنے کام میں نقصان نہیں اٹھاتا اگر اسے اپنے کسی کام میں نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اسے بھی کسی نہ کسی طریقہ سے فروخت کردیتا ہے خواہ مذہبی رنگ میں یا مذمتی رنگ میں جس طرح ایک تاجر نے سستی نیل پالش منگوا لی جو تھوڑی دیر کے بعد اتر جاتی تھی وہ مارکیٹ میں نہ چل سکی اسکا بہت زیادہ نقصان ہوا وہ ایک دن پریشانی کے عالم میں فیس بک پر مصروف تھا کہ ایک پوسٹ اسکی نظروں کے سامنے آئی کہ اگر جاہلوں پر حکمرانی کرنی ہے تو ہر باطل چیز پر مذہبی غلاف چڑھا دو اس ایک جملے نے اس کے اندر خوشیوں کی بہار پیدا کردی اور پھر وہی ہوا جسکی اسے امید تھی اس نے اسی نیل پالش کے متعلق ایک اشتہار تیار کروایا جو دوکاندار اپنے پاس رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے وہی نیل پالش ہاتھوں ہاتھ بک گئی اس اشتہار میں اتنا اضافہ کیا کہ اس پر مذہبی رنگ چڑھ جائے کہ اﷲ کے فضل سے اب حلال نیل پالش مارکیٹ میں دستیاب ہے جسے وضو کرتے وقت باآسانی اتارا جاسکتا ہے بس پھر کیا تھا خواتین اس پر ٹوٹ پڑی اور اس تاجر کا کاروبار چمک اٹھا اور اسی نیل پالش کی کمائی سے ایک خوبصورت گھر تعمیر کرکے اس کے اوپر لکھوا دیا ھذا من فضل ربی ۔

لوٹ مار کی اسی سیاسی تجارت نے ہمارے ملک کی عوام کو صاف پانی تک سے محروم کردیا ہے ہمارے چولستان جہاں لوگ جوہڑ کا پانی پی کر بھی زندہ رہ رہے تھے آج وہاں موت رقص کررہی ہے ہمارے بڑے بڑے شہروں میں شہری گندا پانی پینے پر مجبور ہیں ہسپتالوں میں ادویات ہیں نہ ڈاکٹر میسر ہیں کسی تہوار پر لاری اڈوں میں بیٹھے ہوئے ٹرانسپورٹر ڈاکو بن جاتے ہیں ایک مزدور انسان جو اپنے گھر سے دور محنت مزدوری کرنے آتا ہے اپنی بھوک برداشت کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے جب عید یا کسی تہوار پر واپس گھر جانے لگتا ہے تو ہر بااثر اسے لوٹ لیتا ہے ہمارے دیہاتوں میں زمیندار ہاریوں کا حق مار رہا ہے تو ہاری بھی کسی سے کم نہیں وہ بھی رات کے وقت اپنی ضرورتیں پوری کرنے میں لگ جاتاہے سیاستدان بڑے بڑے ہاتھ ماررہے ہیں تو ہم لوگ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو بغیر محنت کے زیادہ سے زیادہ آمدن کا حصول چاہتے ہیں شارٹ کٹ کے چکر میں ہر فرد اپنے اپنے دھندے میں مصروف ہے آج کسی بھی بڑے سے بڑے بزنس ڈان کا کھاتہ کھول لیا جائے تو حساب کتاب میں پورے ہونگے مگر اندر کھاتے جو جو ڈیلیں کی گئی اصل پیسہ انہی ڈیلوں کی بدولت ہی اکٹھا کیا گیا مگر وقت اب تبدیل ہورہا جنہوں نے کمانے تھے کما لیے وہ اب انہیں سنبھالنے میں مصروف ہیں اور جو نہیں کما سکے وہ اب زیادہ سے زیادہ جمع کرنا چاہتے ہیں تاکہ کل کو جو حالات بننے جارہے ہیں وہ ان سے نمٹ سکیں گذرنے والے 70سالوں ہم نے کرپشن ،لوٹ مار اور کمیشن کی سیاست کی اور آج بھی ہماری سیاست اسی کے گرد گھوم رہی ہے یہاں پر بیٹھا ہوا ہر فرد اپنی نیل پالش فروخت کرنے کے چکر میں ہمیں جذباتی بلیک میل کرنے میں مصروف ہے اور ہم ہیں کہ ان چکروں کے بعد مزید گھن چکروں کی دلدل میں دھنستے ہی جارہے ہیں ۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 510297 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.