اشرف غنی نے جب افغانستان کی صدارت کا
قلمدان سنبھالا تو توقع تھی کہ وہ اپنے پیشرو کے برعکس پاکستان پر تنقید کے
نشتر چلانے کی بجائے دوستی اور باہمی تعاون کو فروغ دیں گے۔ اس تاثر کو ان
کے دورہ اسلام آباد سے بھی تقویت ملی۔ ان کا دورہ پاکستان خود پاکستانی
حکام اور سفارتکاروں کے لئے خوشگوار تھا لیکن جلد ہی یہ تاثر جھاگ کی طرح
ختم ہو گیا۔ صدر اشرف غنی کی حکومت انتظامی اور سیاسی توڑ پھوڑ کا شکار
ہوگئی۔ طالبان نے ان کی حکومت کو ٹف ٹائم دینا شروع کردیا اور غیرملکی
قوتوں خاص طور پر بھارت نے انہیں اپنے مقاصد پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا
شروع کردیا۔
افغانستان میں طالبان کے بعد اب آئی ایس کے قدم جمانے کی بھی خبریں ہیں۔
گزشتہ دنوں کابل میں نکالی گئی ہزارہ احتجاجی ریلی پر خود کش حملوں کی ذمہ
داری سے طالبان کی لا تعلقی اس بات کا ثبوت ہے کہ ISIS وہاں اپنے قدم جما
چکی ہے۔ افغان حکومت ، انٹیلیجنس اداروں اور فوج کی لا علمی اس بات کا منہ
بولتا ثبوت ہے کہ افغان فوج اپنے ملک کی حفاظت اور سالمیت کے لئے دوسرے
ممالک کی امداد کے محتاج ہے۔ صدر اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ حکومت پاکستان
کے ساتھ اپنے گزشتہ اچھے تعلقات کو پس پست ڈالتے ہوئے الزامات کی سیاست
شروع کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار بار بار
کیا ہے۔ نجی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں انہوں نے پاکستان پر طالبان، حقانی
نیٹ ورک کو اماجگاہیں فراہم کرنے اور کابل میں ہونے والے دھماکوں کی زمہ
داری کو قبول کرنے والوں کی پاکستان میں موجودگی کا پرچار کیا ہے۔ اسلام
آباد میں موجود افغانی سفیر نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے . افغان صدر کا
کہنا ہے کہ ان کا اعتماد کمانے کے لئے امن مخالف لوگوں کو پاکستان سے بے
دخل کرنا ہوگا اور دہشتگردوں کے خلاف بلا تفریق اقدامات کرنے ہوں گے۔اس
ساری گفتگو کے دوران وہ پاکستان میں ہونے والے بڑے بڑے آپریشن جن میں ضرب
عضب، خیبر1، خیبر2 شامل ہیں کو بڑی آسانی سے نظر انداز کر گئے۔
افغان صدر بھارت کو اپنا بہترین دوست قرار دیتے ہیں اور اس کا پرچار بڑے
جوش و خروش سے کر رہے ہیں لیکن اس بات سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ انڈیا
افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف بڑی مہارت سے استعمال کر رہا ہے۔را کی طرف
سے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر ملک کی سالمیت کو نقصان
پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ چار فریقی مذاکرات میں پاکستان نے افغان
امن حامی ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ افغان حکومت کی افتراپردازیوں پر
پاکستان کی طرف سے خاموشی کو قطعا کمزوری تصور نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ
خطہ میں امن کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کاوش ہے۔ پاکستان نے انتہاپسندوں
کا خاتمہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات
میں روزبروز اضافہ تشویش ناک ہے۔
اس ساری صورت حال میں افغان حکومت کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ
نہیں۔بھارت روز اول سے پاکستان کے عدم استحکام کے لئے کوشاں ہے اور ابھی
بھی وہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو گزند پہنچانیکے لئے اندرونی اور بیرونی
عوامل کو استعمال کر رہا ہے۔ کل بھوشن یادیوجیسے جاسوسوں کا بنیادی مقصد
بلوچ علیحدگی کی تحریک کو اکسانا تھا۔ انڈیا خطے میں اپنی برتری ثابت
کرنیاور اپنی طاقت کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔
کل بھوشن یادیو کی ویڈیو ریلیز پر انڈیا SHAMEFUL ACT کا شور تو مچا سکتا
ہے مگر کشمیر میں ہونے والے مظالم کی داستان کس سے چھپی ہے؟ ہزاروں کی
تعداد میں زخمیوں اور لاشوں پر رونے والی ماوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
انڈین آرمی کشمیر میں خواتین سے بدسلوکی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر
رہی ہے۔ اپنی نام نہاد برتری ثابت کرنے کے لئے انڈیا نے پورے 2 ماہ تک
نیپال کی نہ صرف پیٹرولیم مصنوعات کو روکے رکھا جس کی وجہ سے انہیں اقتصادی
نقصان اٹھانا پڑا بلکہ ادویات اور زلزلہ زدگان کی امدادی کارروائیوں کو بھی
روکے رکھا۔ اسی طرح پاکستان اور چین کے تعلقات کو خراب کرنیاورسی پیک جیسے
تاریخی منصوبے کو سبوتاڑ کرنے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں تا کہ پاکستان کو
اقتصادی طور پر نقصان پہنچایا جا سکے۔ اس کی حفاظت کے لئے پاکستان نے ایک
ڈویڑن کھڑا کیا ہے۔ جو پاک-چین تجارتی راستوں اور چینی انجینئرز کی حفاظت
کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
موجودہ صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک-افغان تعلقات کو بہتر اور
خوشگوار بنایا جائے۔ دونوں ممالک کو اپنے حصے کی زمہ داری کو اٹھانا ہو گا۔
ایک دوسرے سے تعصب کی پٹی اتار کر مشترکہ مفادات کی میز پر مل جل کر بیٹھنا
ہو گا۔ ہوش مندانہ اور عقلمند فیصلے کرنے ہوں گے۔ اپنے دشمنوں کو پہچاننا
ہو گا۔ چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اپنے ہمسایہ مسلمان ممالک کی سالمیت کو
خطرے میں ڈالنا قطعا ایک دانشمندانہ فیصلہ نہ ہو گا۔ |