مسائل میں گھرا پاکستان……پاناما لیکس کا ہنگامہ ختم نہ ہوسکا
(عابد محمود عزام, Lahore)
ان دنوں پاکستان مختلف قسم کے اندرونی و
بیرونی مسائل کا شکار ہے۔ایک طرف امریکا، بھارت اور افغانستان کی جانب سے
مسلسل پاکستان کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا پاکستان کو ڈومور کا
روایتی حکم دیے جارہا ہے اور افغانستان کی جانب سے پاکستان پر مسلسل الزام
تراشی جاری ہے، جبکہ بھارت کی جانب سے کشمیر میں خون ریزی کا شروع کیا گیا
نیا سلسلہ تاحال جاری ہے، باون روز کے بعد کشمیر میں لگایا گیا کرفیو تھوڑی
دیر کے لیے اٹھایا گیا، لیکن پھر نافذ کردیا گیا۔ دوسری جانب ایک بار پھر
ملک میں دہشتگردوں نے سر اٹھا لیا ہے، جو کوئٹہ سانحہ کی صورت میں قوم کو
دکھ دے رہے ہیں۔ ملک کے سب سے اہم شہر کراچی کی حالت بھی بے یقینی کا شکار
ہے، جہاں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے پاکستان خلاف بیانات نے نہ صرف
ملک بھر کو غم و غصہ میں مبتلا کردیا ہے، بلکہ خود ان کی اپنی جماعت بھی
دھڑے بندی کا شکار ہوگئی اور بالآخر مائنس الطاف کے فارمولے پر عمل پیرا
ہونا پڑا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا ایشو کافی تشویش ناک ہے۔ ایسے حالات
میں گزشتہ کئی ماہ سے شروع ہونے والے ’’پاناما لیکس ڈرامے‘‘ نے پورے ملک کو
عجیب کشمکش میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ پاناما لیکس کے معاملے پر تا حال دھند
چھائی ہوئی ہے۔ کچھ نتیجہ نکلتا نظر نہیں آرہا۔لگتا یوں ہے کہ اپوزیشن اور
حکومت دونوں معاملے کو لٹکانا چاہتی ہیں۔ حکومت خود کو بچا کر پاناما لیکس
کے معاملے کو دفن کرنا چاہتی ہے، جبکہ اپوزیشن جماعتیں خم ٹھونک کر میدان
میں اتر چکی ہیں، جو پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، وہ ہر حال میں شریف
فیملی کا احتساب چاہتی ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا
’’دامن ‘‘اگر صاف ہے تو انھیں ’’بلا توقف‘‘ اپنے آپ کو کمیشن کے سامنے پیش
کر دینا چاہیے۔ جمہوری ممالک میں اگر کسی وزیراعظم پر الزام لگ جائے تو اس
کے پاس ’’عہدے‘‘ پر رہنے کا کوئی اخلاقی ’’جواز‘‘ باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا
اگر حکومت پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے واقعی’’سنجیدہ‘‘ ہے تو پھر انہیں
چاہیے کہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر اس کے ’’ ضابطہ اخلاق‘‘ طے کرے۔ دیگر کئی
ممالک کے وزرا اعظم نے پاناما لیکس کے سلسلے میں لگنے والے الزامات کی وجہ
سے استعفا دے دیا ہے، جبکہ پاکستانی وزیر اعظم عوام اور اپوزیشن کے بھرپور
مطالبے کے باوجود بھی استعفا تو ایک طرف، اپنے احتساب کے لیے بھی تیار نہیں
ہیں۔ برطانوی وزیراعظم پر الزام لگا تو انہوں نے پارلیمنٹ میں جا کر اپنی
تمام’’ ٹیکس ‘‘تفصیلات جاری کیں، وزیراعظم پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے
1990ء سے لے کر 2013ء تک کے ٹیکس ریٹرنزعوام کے سامنے رکھیں۔
پاناما لیکس کے حوالے سے حکومت کے احتساب کے مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے
لیے سب سے زیادہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔
پاناما لیکس کے مسئلے پر تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔
تحریک انصاف کی طرف سے درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاناما لیکس
کا معاملہ پوری قوم کے لیے باعث تشویش ہے۔ درخواست میں وزیراعظم محمد
نوازشریف اور فیملی ممبران کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست کے متن کے مطابق
پاناما لیکس کا معاملہ قومی اور عوامی مفاد کا ہے۔ درخواست میں استدعا کی
گئی ہے کہ پاناما لیکس معاملے کی تحقیقات کی جائیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے یہ
موقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ آف شورکمپنیوں کے معاملے پر وزیر اعظم اور
اہلخانہ کے بیانات میں تضاد ہے۔ چیئرمین نیب کو لوٹی رقم واپس لانے کا حکم
دیا جائے۔ درخواست میں سیکرٹری داخلہ، قانون، نیب اور وزارت قانون کو فریق
بنایا گیا ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف پاناما
کے معاملے کو لمبا کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ طاقتور کا
احتساب نہیں ہوسکتا تو اس کی یہ غلط فہمی دور کرنے کیلئے 3 ستمبر کو لاہور
میں عوام کا سمندر نکال کر دکھائیں گے، جس میں اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دیں
گے اور ہماری کوشش ہے کہ تمام پارٹیاں اپنے اپنے کنٹینرز لے کر آئیں۔ جبکہ
دوسری جانب خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ ہمیں پاکستان کے مسائل مل بیٹھ کر حل
کرنا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اعلان کیا ہے کہ ستمبر میں سڑکوں پر
ہوں گے، جلسے جلوس کریں گے۔ حکومت کی ناکامیوں کا سب کو بتائیں گے۔ان کے
علاوہ بھی ڈاکٹر طاہر القادری سمیت دیگر سیاسی رہنما بھی حکومت کے خلاف
کامیاب تحریک چلانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ حکومت مخالف تحریک سے اگرچہ حکومت
کافی حد تک خائف ہے، لیکن تاحال پاناما لیکس کے معاملے کو حل کرتی دکھائی
نہیں دے رہی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خورشید شاہ حکومت کے خاموش
معاون کا کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن ان کا یہ کردار اس لیے زیادہ کامیاب
ہوتا نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کا کوئی
بھی ساتھ نہیں دیتا تو وہ اکیلے ہی حکومت کے خلاف میدان میں اتریں گے، جس
سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہونے والا نہیں ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی چپلقش سے سراسر نقصان ملک کا
ہورہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف
صف آرا ہیں، سیاسی کھلاڑیوں کو اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ ان کے مفادات
کی جنگ میں نقصان صرف اور صرف پاکستان کا ہوگا۔پاکستان ان اندرونی کے ساتھ
کئی بیرونی مسائل کا بھی شکار ہے، جو پاکستان کے لیے کافی پریشان کن حالات
ہیں۔ امریکا نے تو پاکستان کو مستقل طور پر پریشان کیا ہی ہوا ہے، لیکن اس
کے ساتھ بھارت بھی اپنی گھٹیا حرکتوں کے ساتھ پاکستان کے لیے درد سر بنا
ہوا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں کے علاوہ
کشمیر کے معاملے میں بھی بھارت انتہائی ہٹ دھرمی کا ثبوت دے رہا ہے۔کئی روز
سے کشمیر میں بھارتی سفاکیت کی رقم ہونے والی تاریخ اس کی تازہ مثال ہے۔ اس
کے علاوہ پاکستان کی جانب سے جب بھی کشمیر کے معاملے کو عالمی سطح پر
اٹھانے کی بات کی جاتی ہے تو بھارت چلا اٹھتا ہے۔ گزشتہ روز بھی بھارتی
میڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے دنیا کے اہم ممالک میں 22 پارلیمنٹیرینز کو
خصوصی نمائندہ نامزد کرنے کے وزیراعظم نواز شریف کے جرات مندانہ اور تاریخی
اقدام پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے اشتعال انگیز اور ملکی معاملات
میں مداخلت قرار دے دیا۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی شہ سرخی کے
ساتھ خبر دی کہ ’’پاکستان نے کشمیر پر بھارت کو پریشان کیا‘‘۔ بھارتی میڈیا
میں وزیر اعظم نوازشریف کے فیصلے پر صف ماتم سی بچھ گئی ہے۔حسب سابق بھارتی
میڈیا نے ’رونا‘ اور’چیخناچلانا‘شروع کردیا ہے۔کشمیر پر قابض بھارت کا
اخبار’انڈین ایکسپریس ‘لکھتا ہے کہ نواز شریف کا یہ اقدام بھارت کے ذاتی
معاملات میں مداخلت ہے۔جبکہ اس کے علاوہ بھارتی کی گھٹیا سوچ کی حکومت
پاکستان کے خلاف اوچھے ہتھکنڈوں پر اترنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔گزشتہ روز
بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے کہا ہے کہ مودی سرکار اپنی ناکامیاں
چھپانے کیلئے کشمیر میں تشدد کو پروان چڑھا رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر سے توجہ
ہٹانے کیلئے پاکستان کے ساتھ جنگ بھی چھیڑ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ افغانستان
کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ افغانستان میں پاکستان مخالف سوچ کو
پروان چڑھانے کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس کے تحت گزشتہ دنوں افغانستان میں
پاکستانی پرچم کو نذر آتش کیا گیا تھا، جس پر وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ
امورسرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان پاک افغان سرحدپربند باب دوستی کھولنے
پر تیار تھا، تاہم اس کے لیے کچھ اصولی شرائط تھیں کہ کابل حکومت پاکستانی
پرچم کو جلائے جانے پر معافی مانگے پھر ہم باب دوستی کھولیں گے۔اس کے ساتھ
افغانستان کی جانب سے افغانستان کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی کا
سلسلہ جاری ہے۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ
امریکی یونیورسٹی پر حملے سے متعلق معلومات فراہم کرے۔ افغانستان کا الزام
ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی۔امریکا، بھارت اور
افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف روا رکھا جانے والا یہ رویہ سراسر
پاکستان کی سالمیت کے خلاف اور پاکستان کے لیے انتہائی پریشان کن ہے، ایسے
حالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان خطے میں تنہا ہوتا جارہا ہے۔
ایسے حالات میں ملک کے اندر حکومت اور اپوزیشن کا ایک دوسرے کے خلاف صف آرا
ہوجانا یقینا قوم کے لیے مزید پریشان کن اور ملک کے لیے زیادہ نقصان دہ
ثابت ہوسکتا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کی چپقلش کی وجہ سے پاکستان جن حالات میں گھرا ہوا ہے،
اس کا شاید انہیں اندازہ ہی نہیں ہے۔ دیگر بہت سے نتائج کے ساتھ یہ بھی
ہوسکتا ہے کہ غیرجمہوری قوتوں کے ہاتھ عوام کو غیرذمہ دار سیاست دانوں سے
بچانے کا جواز ضرور آ جائے گا۔اگر جمہوری عمل ایک مرتبہ پھر انتشار کا شکار
ہوا تو اس کی ذمہ داری ملک کی سیاسی اشرافیہ پر عائد ہو گی اور اب کے اسے
ماضی کی نسبت کہیں زیادہ قصوروار گردانا جائے گا۔ اگر حکومت کو یہ صورتحال
ناگوار معلوم ہوتی ہے تو اسے علم ہونا چاہیے کہ اس صورتحال کی ذمہ دار وہ
خود ہے۔اگر حکومت اس معاملے کو ختم کرنا چاہے تو ایک دن میں کرسکتی ہے،
لیکن حکومت خود کو بچانا چاہتی ہے، اس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ
پاکستان کو کتنا نقصان ہوتا ہے، جبکہ اپوزیشن بھی اس معاملے میں سنجیدہ
دکھائی نہیں دیتی، اسے صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔پانامالیکس نے پاکستان کی
کمزور جمہوریت کو جو نقصان پہنچایا ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان اس معاملے پر
اس کے بعد سے جاری بحث نے پہنچایا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی ایک دوسرے کے
خلاف دشنام طرازی میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کا کہنا ہے کہ دوسرا فریق
اس سے زیادہ بدعنوان ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی سنجیدہ سیاست دان خود کو
چھوٹی برائی قرار دے کر عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔مزید براں
اس صورتحال میں ریاست اور عوام کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کی جانب کوئی
خاص توجہ نہیں دی گئی کہ تمام انتظامیہ کئی ہفتوں سے مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
ایسے میں جبکہ حکومتی رہنما اور ان کے مخالفین ایک دوسرے کے خلاف دشنام
طرازی کی جنگ میں صف آرا ہیں، عوام کی تکالیف میں دن بدن اضافہ ہو رہا
ہے۔سیاست دان عوام کے جمہوری حقوق کے محافظ ہوتے ہیں مگر ہماری سیاسی
اشرافیہ خود کو اس ذمہ داری کا اہل ثابت نہیں کر سکی۔حکومت اور اپوزیشن
دونوں کو چاہیے کہ اپنے مفادات کو سامنے رکھنے کی بجائے ملک کے مفادات کے
لیے کام کریں۔ ملک کئی مسائل میں گھرا ہوا ہے، دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ملک
کو ان مسائل اور حالات سے نجات دلائے، اگر دونوں ایک دوسرے کے خلاف ہی صف
آرا ہوجائیں گیں تو اس سے ملک کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔
|
|