اخلاقی فتح
(Dr B.A Khurram, Karachi)
طویل الیکشن مہم ،سنسنی خیزاور کانٹے دار
مقابلے کے بعد 1175 ووٹوں کی لیڈ سے پی پی 232وہاڑی سے حکمران جماعت کے
امیدوار کی جیت کے پیچھے بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ ان کی خوش قسمتی بھی
شامل ہے ریٹرننگ آفیسر پی پی 232کوتمام 157 پولنگ اسٹیشن کا جوغیر حتمی
نتیجہ موصول ہوا اس کے مطابق حکمران جماعت کے چوہدری یوسف کسیلیہ جیت گئے
جبکہ سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمدجٹ کی صاحبزادی پی ٹی آئی کی امیدوار
عائشہ نذیر جٹ شکست کھا گئیں حکمران جماعت کے چوہدری یوسف کسیلیہ 51556ووٹ
لے کر ’’مقدر کا سکندر‘‘ کہلانے میں کامیاب رہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف
کی امیدوارمحترمہ عائشہ نذیر جٹ50381 ووٹ لے کر شکست سے دو چار ہوئیں یہ ان
کی دوسری شکست ہے اس سے قبل محترمہ قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ چکی ہیں
چوہدری یوسف کسیلیہ کو عائشہ نذیر جٹ سے1175 برتری رہی نتائج موصول ہوتے ہی
حکمران جماعت کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور جشن کا ساما ں پیدا
ہوگیا مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں جیتنے والے امیدوار کو مبارک باد دینے
والوں کا تانتا بندھ گیاکامیابی کے بعد جشن ،بھنگڑے،ہوائی فائرنگ،مٹھائیوں
کا تقسیم ہونا اور پھر مبارک بادیں دینا اور لینا ۔۔۔ حسب روٹین یہ سب کچھ
ہوتا ہے ضلعی انتظامیہ،پولیس اور سیکورٹی فورسزکی جانب سے سیکورٹی کے فول
پروف انتظامات کی وجہ سے کسی بھی جگہ سے کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں
آیا پیر غلام محی الدین چشتی نے یوسف کسیلیہ کی کامیابی کے خلاف الیکشن
ٹربیونل ملتان میں انتخابی عذر داری دائر کی جس میں انہوں نے موقف اختیار
کیا کہ یوسف کسیلیہ نے انتخابی مہم میں دس لاکھ روپے سے زائد خرچ کئے اور
وہ بنک نادہندہ بھی ہیں جس پر الیکشن ٹربیونل ملتان نے پیر غلام محی الدین
چشتی کی انتخابی عذرداری کو منظور کرتے ہوئے یوسف کسیلیہ کی کامیابی کو
کالعدم قرار دیتے ہوئے 90روز میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا تھا
بعدازاں سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونل ملتان کے فیصلے کو برقراررکھتے ہوئے
دوبارہ الیکشن کا حکم دے دیا ۔
الیکشن مہم کی شروعات میں تو حکمران جماعت کے امیدوار ضمنی الیکشن کو بڑا
ایزی لے رہے تھے کیونکہ انہیں سابق ضلعی ناظم سینئر مسلم لیگی رہنما سید
شاہد مہدی نسیم شاہ کی بھر پور سیاسی حمایت حاصل رہی اور حکمران جماعت کا
ٹکٹ دلانا بھی انہی کا مرہون منت ہے سینئر مسلم لیگی رہنما سید شاہد مہدی
نسیم شاہ کو ضلع وہاڑی کی سیاست میں ہمیشہ سے بالا دستی رہی ہے یہی وجہ ہے
کہ ہم نے ہمیشہ انہیں ’’ کنگ میکر‘‘ کے خطاب سے نوازاہے ان سے لاکھ
اختلافات سہی لیکن ان کی مسلمہ سیاسی حیثیت ،عمدہ حکمت عملی کا اعتراف نہ
کرنا ان سے زیادتی کے زمرہ میں شامل ہوگا’ کنگ میکر‘‘ شطرنج کی ہاری ہوئی
بازی کو پلٹنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں انہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ
تاش کے پتے کب ،کہاں اور کس وقت شو کرنے ہیں اب دیکھیں ناں کہ شہر کی چیئر
مین شپ کے حکمران جماعت کے نامزد امیدوار کے مد مقابل اپنا امیداوار لا
کرجہاں حکمران امیدوار کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں وہاں اپنی سیاسی دانش
مندی کا لوہا بھی منوالیا ہے اور اس بات کے قوی امکان پیدا ہوچکے ہیں کہ ’’
کنگ میکر ‘‘ کی جس امیدوار کو ’’حمایت ‘‘حاصل ہوگی وہی ’’ امیر شہر‘‘ منتخب
ہوگاحکومتی امیدوار کوممبر قومی اسمبلی بورے والا چوہدری نذیر احمد آرائیں
،ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری ارشاد احمد آرائیں ،سابق صوبائی وزیر پیر غلام
محی الدین چشتی سمیت ضلع وہاڑی کی مسلم لیگی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ پارٹی کی
ہائی کمان کی بھی سیاسی حمایت حاصل رہی یہی وجہ تھی ’’خادم اعلی‘‘ کے ’’
ولی عہد‘‘ حمزہ شہباز بھی ان کی الیکشن مہم کے سلسلہ میں یہاں تشریف لائے
اور شہر کی 16یونین کونسلوں کے چیئرمین ، وائس چیئرمین اور فعال پارٹی
کارکنان سے ملاقاتیں کیں او پی پی 232کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے تبادلہ
خیال کیا۔
دوسری جانب ’’جٹ گروپ ‘‘ کی امیدوار محترمہ عائشہ نذیر جٹ نے حکمران
امیدوار کا مقابلہ خوب کیا ’’ سیاسی پنڈتوں ‘‘ کا کہنا ہے کہ جٹ گروپ نے
50381ووٹ لے کر اپنی سیاسی حیثیت کو منوا لیا ہے ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی
ہے معمولی مارجن سے ہونے والی شکست درحقیقت ان کی ’’اخلاقی فتح‘‘ ہے
کیونکہ’’جٹ گروپ ‘‘ کے مد مقابل حکومتی امیدوار کے ساتھ مسلم لیگ کے تمام
دھڑے متحد ہوگئے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کا مختلف چکوک میں ڈیرے
ڈالنا،سرکاری مشینری کے بے دریغ و آزادانہ استعمال کے باوجودحکومتی امیدوار
کو ٹف ٹائم دینا ضلع وہاڑی کی سیاست میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جو سیاسی
دھڑے ایک بڑے مارجن سے محترمہ عائشہ نذیر جٹ کو شکست دینا چاہتے تھے ان کے
لئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے ضمنی الیکشن کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ
آنے والے انتخابات میں’’جٹ گروپ‘‘ کو سیاسی اہمیت حاصل رہے گی دوران الیکشن
مہم ’’ آواز خلق ‘‘ یہ بھی تھی کہ اگر ’’جٹ گروپ ‘‘ کے پاس سیاسی جماعت کا
ٹکٹ نہ ہوتا اور یہ گروپ ایک آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیتا تو نتائج
یقینا ان کے حق میں بہتر ہونا تھے کیونکہ دیہی علاقوں میں سیاست ہمیشہ سے
دھڑے بندیوں میں بٹی دکھائی دیتی ہے کئی سیاسی دھڑے محض اس بات سے ہی ان کا
ساتھ چھوڑ گئے تھے کہ اس گروپ کے پاس سیاسی جماعت کاٹکٹ تھا ’’پنجاب حکومت
‘‘ سے ہارنے کے باوجود’’جٹ گروپ‘‘ نے ضمنی الیکشن میں ان تھک محنت کرتے
ہوئے مقامی سیاست میں ہلچل مچا دی اور ضمنی الیکشن کی محنت کا ثمر انہیں
آنے والے عام انتخابات میں یقینا ملے گا کیونکہ پھران کا مقابلہ حکومت سے
نہیں بلکہ مقامی سیاست دانوں سے گا ۔ |
|