یہ ایک انوکھی کہانی ہے ۔
کسی یورپی ملک کا قصہ نہیں بلکہ یہ مکروہ کھیل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
پوری دیدہ دلیری کے ساتھ کھیلا گیا اور کھیلا جارہا ہے ۔اس کہانی کا ہر لفظ
ہماری بے حسی سے تعبیر ہے اور اس کو سن کر ، دیکھ کر ، سمجھ کر سر پیٹنے کو
جی چاہتا ہے ۔ یہ دھرتی جو بے پناہ قربانیوں کے بعد اس لیے حاصل کی گئی تھی
کہ یہاں اسلام کا بول بالا ہوگا مگر کون جانتا تھا کہ یہاں سب سے زیادہ
مشکل میں ہی اسلام پسند طبقہ ہوگا ۔
12 فروری 2014 ء کو بعض قومی اخبارات میں ایک خبر نظر سے گزری یہ خبر پڑھ
کر میں ششدر رہ گیا ۔ اس ہولناک خبر کا خلاصہ یہ تھا پاکستان ریلوے کے
ساتویں یونٹ پراکس میں باپردہ خواتین کے پردے پر ایم ڈی آفتاب اکبر کو
اعتراض ہے مذکورہ ایم ڈٰ ی کے زبانی احکامات پر عمل در آمد نہ کرنے کی
پاداش میں تین خواتین کو سخت عتاب کا نشانہ بنایا گیا ۔
بہ طور اخبار نویس مجھے اس خبر پر سخت تشویس تھی اس کی ہولناکی کا اندازہ
تھا اگر چہ یہ خبر پاکستان کی انتہائی معتبر نیوز ایجنسی نے جاری کی تھی ۔
لیکن اس کے باوجود اس کی تحقیق اس لیے ضروری تھی کہ وزارت ریلوے کا قلمدان
خواجہ سعد رفیق کے پاس تھا جن کا تعلق اس خاندان سے تھا جس کی اس ملک میں
اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں میں دنگ تھا کہ
خواجہ رفیق شہید کے بیٹے کی ناک تلے یہ شرمناک کھیل کیسے ممکن ہے ۔
صحافت میں تحقیق ایک کھٹن مرحلہ ہے ہر لمحہ بدلتی صورتحال نے اخبار نویسوں
کو اس قدر مصروف کردیا ہے کہ بسا اوقات تو خبر کا فالو اپ بھی دکھائی نہیں
دیتا لیکن یہ اس قدر نازک مسئلہ تھا کہ میں نے انتہائی غیر جانبداری سے
تمام حقائق کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا اور تقریبا ًپورے دو سال ایک ادارے
کے معاملات پر نظر رکھے رہا ۔ دوران تحقیق ہولناک کرپشن سمیت کئی ایسے پہلو
میرے سامنے عیاں ہوئے کہ میرے چودہ طبق روشن ہوگئے ۔ پاکستان ریلوے کے اس
منافع بخش یونٹ کو ایک سازش کے ذریعے جس طرح تباہ کیا جارہا ہے ۔ اور
سینکڑوں ملازمین سے رزق چھین کر پراکس کے اثاثوں کو لپیٹ کر اسے تالے لگانے
کے جس منصوبے پر باقاعدہ حکمت عملی کے ساتھ کام ہورہا ہے اس پر آئندہ کسی
کالم میں پوری تفصیل سے لکھوں گا۔
میری تحقیق سے کچھ مزید ہولنا ک حقیقتیں بھی سامنے آئیں ۔ فروری 2014ء میں
آفتاب اکبر نامی شخص نے پراکس کے ایم ڈی کا چارج سنبھالتے ہی پردے کا مذاق
اُڑایا اور زبانی احکامات جاری کیے کہ ہیڈ آفس کی باپردہ خواتین مجھے
دکھائی نہ دیں ۔ان احکامات پر آفس کی تین باپردہ خواتین نے احتجاج کیا اور
اسی دفتر کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر لیگل شکیل نامی شخص نے بھی ایسے احکامات کو
غیر قانونی اور غیر شرعی قراردیا جس پر مذکورہ افسر نے حکمت عملی بدل دی
اور اب ان خواتین اور ان کی حمایت کرنے والے افسر کی شامت آگئی ۔ ایک خاتون
کو حیلے بہانے سے ملازمت سے ہی برطرف کردیا گیا ۔ باقی دونوں باپردہ خواتین
کی ٹرانسفر ایسے مقامات پر کردی گئی جہاں انہیں پبلک ڈیلنگ کرنی تھی ۔
آفتاب اکبر کی ٹرانفسر کے بعد یہ کھیل وقتی طور پر رک گیا اس دوران کئی ایم
ڈی آئے اور ٹرانسفر ہوئے ان میں بعض افسران انتہائی نیک نیت اور ایماندار
بھی تھے تاہم اسی دوران شکیل نامی ڈپٹی ڈائیریکٹر کوبھی ملازمت سے برخواست
کردیا ۔
اگست 2016ء میں آفتاب اکبر کو ایک بار پھر ایم ڈی پراکس تعینات کیا گیا اس
نے اپنا مکروہ کھیل دوبارہ شروع کردیا ہے ۔ ایک طرف تو اس منافع بخش یونٹ
کی تالہ بندی کی تمام تیاریاں آخری مراحل میں ہیں دوسری طرف راولپنڈی
ریلوئے سٹیشن انکوائری اور بکنگ پرتعینات خواتین کو یونیفارم کے نام پر بے
پردہ کردیا گیا ہے ۔ماضی میں صدائے احتجاج بلند کرنے والی باقی ماندہ
دوخواتین کو ملازمت سے برخواست کرنے کیلئے بے جاتنگ کرنا شروع کردیا گیا ہے
۔
میں اپنی اس ساری تحقیق کے بعد انتہائی حیران اور پریشان ہوں کہ اس دیس میں
مادر پدر آزاد خواتین کیلئے تو آئے روز قانون سازی ہوتی ہے ۔ہمارے حکمرانوں
ان کے حقوق کیلئے مرے جارہے ہیں لیکن اسلامی شعائر کے مطابق اپنی زندگی بسر
کرنے کی خواہش مند خواتین کیلئے تو ملازمت کے مواقع تک ختم کیے جارہے ہیں ۔
دیگر اداروں میں بھی یقینا باپردہ خواتین ایسے ہی مسائل کا شکار ہونگی مگر
انتہائی معذرت کے ساتھ خواجہ سعد رفیق سے گزارش ہے کہ آپ کے زیر سایہ
اداروں میں بھی اگر یہی سب کچھ ہونا ہے تو پھر ہم کسی اورسے کیا گلہ کریں ۔
آزادی ٹرین پر دادیں سمیٹنے والے وزیر موصوف کا ش یہ جان لیتے کہ یہ آزادی
اصل میں ہے کیا ؟ یہ آزادی مسلمانوں نے اس لیے حاصل کی تھی کہ وہ اسلامی
اقدار کے مطابق آزادی سے اپنی زندگی بسر کرسکیں گے ۔وزیر موصوف کو اپنے نام
کے حصے خواجہ اور رفیق کا بھر م ضرور رکھنا چاہیے ۔
میں نے گزشتہ روز ایوان بالا اور زیریں میں بیٹھے علماء اور وفاق ہائے
مدارس کے احباب سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ اس سنگین معاملے کا نوٹس لیں اور
دیگر علمائے کرام سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کریں ۔ |