بھارت اور امریکہ کے درمیان نئے دفاعی
معاہدے کے بعد دونوں ممالک ایک دوسرے کے بحری، بری اور فضائی اڈے استعمال
کر سکیں گے۔امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر اور بھارتی وزیر دفاع منوہر
پاریکر نے معاہدے پر دستخط کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
دونوں ممالک کے درمیان گہرے سیکیورٹی تعلقات کی بنیاد مشترکہ مفادات، اقدار
اور علاقائی سلامتی سے وابستہ ہے۔نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ
چھٹا موقع ہے کہ جب دونوں ممالک کے دفاع کی اعلی قیادت نے ملاقات کر کے
باہمی مفادات کے امور پر تبادلہ خیال کیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ اور
بھارت کے بیشتر دفاعی اور علاقائی مفادات ایک جیسے ہیں۔دونوں ممالک کے
رہنماؤں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکہ اور بھارت اسٹریٹیجک اور دفاعی
میدانوں میں تعاون جاری رکھیں گے اور فوجی شراکت داری کے لئے کام کرتے رہیں
گے۔اس موقع پرامریکہ کی طرف سے بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن
بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا جبکہ پانچ نئے گروپوں کی تشکیل کی بھی بات
کی گئی جن میں نیول سسٹم، ہوائی سسٹم، انٹیلی جنس، نگہداشت اور دشمن کی
حرکات سکنات پر نظر رکھنے والے گرو پ، کیمیائی و حیاتیاتی گروپ اور دیگر
سسٹم شامل ہیں۔پریس کانفرنس میں مزید بتایا گیا کہ دونوں ممالک نے طیارہ
بردار مشترکہ ورکنگ گروپ کے فریم ورک کے حوالے سے معلومات کے تبادلے کے
اینکس پر بھی دستخط کئے ہیں۔ دونوں وزراء دفاع نے دفاعی میدان میں ’’میک ان
انڈیا ‘‘ کے حوالے سے بھی پیشترفت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ مجموعی
طور پر تمام دنیا میں بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بڑی تبدیلیاں رو
پزیر ہو رہی ہیں اور مشرق وسطی سمیت دنیا کے بیشتر ممالک اپنی اپنی خارجہ
پالیسی پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ امریکہ انڈین پیسفک
اوشن میں اپنے 60فیصد بحری جہاز تعینات کرے گا جس کی مدد سے خطے میں داعش
اور ان کی ہم خیال گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے میں امریکی فوج کارروائیاں
کر سکے گی جبکہ یہ بھی خبریں ہیں کہ امریکہ ساؤتھ چائینہ سی میں بھارت کو
چین کے خلاف بھر پورلاجسٹک سپورٹ فراہم کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی صور
ت حال میں پاکستان کو کیا کرناچاہیے؟ پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے جاری
ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان ہونے والے
دفاعی معاہدے سے پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ بات کس حد تک درست ہے
اس کا اندازہ تو ہر سیاسی اور بین امور کا شعور کھنے والا کر سکتا ہے۔
یقینا پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور دوسرا راستہ بھی نہیں کہ اگر
پڑوسی ملک کسی سپر پاور کے ساتھ ایک دوسرے کے فوجی اڈے استعمال کرنے کے
حوالے سے کسی معاہدے پر دستخط کر رہا ہو تو بظاہر پاکستان کو دباؤ میں آنے
کے بجائے اسی قسم کو تاثر دینا چاہیے کہ ہم پر اس قسم کے معاہدوں سے کوئی
اثر نہیں پڑتا لیکن عملاً مستقبل کے حالات سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی ضرور
تیار کر لینی چاہیے۔ یہ حقیقت تو خیر بڑی واضح ہے کہ انڈین کو تو امریکہ
میں جا کر اس کے فوجی اڈے استعمال کرنے کی ضرورت کبھی نہیں پڑے گی لیکن
امریکہ کو انڈیا کے فوجی اڈے استعمال کرنے کی ضرورت بار بار پڑ سکتی ہے۔اس
وقت دنیا میں 50سے زائد ممالک میں امریکہ کے فوجی اڈے موجود ہیں کہ جن کا
انتظامی کنڑول بھی امریکہ کے ہاتھ میں ہے جبکہ دوسری طرف بھارت بھی دنیا
میں اپنی طاقت بڑھا رہا ہے اور اس وقت اس کے دنیاکے چھ ممالک میں اڈے موجود
ہیں تاہم ان کا انتظامی کنٹرول باہمی مشاورت سے چلایا جا رہاہے۔یہ پہلا
موقع ہے کہ انڈیا نے کسی ملک کو اپنے نیول، فضائی اور فوجی اڈے استعمال
کرنے کی اجازت دی ہے تاہم اس سے قبل سوویت یونین کے ساتھ بھارت کے اس طرح
کے معاہدے موجود ہیں جس میں اس نے ایک محدود حد تک یو ایس ایس آر کو اپنے
اڈوں تک رسائی دے رکھی تھی۔مذکورہ معاہدے کی ایک شق یہ بھی ہے کہ امریکہ
بھارت کو انڈین پیسفک سی میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کرے گا ۔ یہ یقینا چین کے
خلاف بھارت کو امریکی حمایت اور سپورٹ فراہم کرنے کا ایک عندیہ ہے۔ایسی
صورت میں مستقبل میں بین الاقوامی میں بدلتے ہوئے حالات بھارت اور چین کے
درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا اشارہ دیتے ہیں جبکہ یہ بھی اشارے مل رہے ہیں
کہ آئندہ امریکہ چین کو سمندروں ، فضاؤں اور بری راستوں میں کاؤنٹر کرنے کے
لئے ہر ممکن ذرائع استعمال کرے گا۔ امریکہ بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے
دوطرفہ تعلقات چین ، پاکستان اور ایران کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں
جبکہ خطے کے دیگر ممالک بھی اس سے بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت
میں پاکستان کو چین کے ساتھ ملکر ایران کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرنی
چاہیے جبکہ مڈل ایسٹ میں موجود ایران کے ہم خیال ملکوں سے بھی رابطے بڑھانے
چاہئیں۔لیکن امریکہ اور بھارت کے معاہدے کو کاؤنٹر کرنے کے لئے سب سے زیادہ
اور پہلی ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کو چین کے ساتھ بھی اسی طرح کا ایک معاہدے
کرنے چاہیے کہ جس کی رو سے ضرورت پڑنے پر چین پاکستان کے فوجی اڈے استعمال
کر سکے اور پاکستان چین کے فوجی اڈے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اسے انڈین
پیسفک میں ہر قسم کی سپورٹ اور حمایت فراہم کر سکے ۔ پاکستان کو کوشش کرنی
چاہیے کہ اس معاہدے میں وہ ایران کو بھی شامل کروا سکے یا ایران اور چین سے
پاکستان ا س قسم کے الگ الگ معاہدے کر سکے۔ موجودہ بین الاقوامی صورت حال
میں اس قسم کے جوابی معاہدے ہی پاکستان ، ایران اور چین کی پوزیشن کو مضبوط
اور مستحکم کر سکتا ہے۔ |