امریکی تھنک ٹینک کی اوباما انتظامیہ کو مسئلہ کشمیر بارے تجاویز

اس بات میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے امریکہ کی مسئلہ کشمیر میں دلچسپی اتنی ہی رہی کہ کہ اس مسئلے کہ وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میںاضافہ نہ ہواور اسی حوالے سے بھارتی مفاد میں امریکہ مسئلہ کشمیر کی صورتحال کو "جوں کا توں" رکھنے پر ہی متفق چلا آیا ہے۔تاہم اب افغانستان اور پاکستان میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف فوجی آپریشنز اور اس صورتحال سے تمام خطے کو درپیش خطرات اور چین و دیگر ممالک کی مسئلہ کشمیر میں بڑہتی دلچسپی امریکی اداروں کو مسئلہ کشمیر حل کراتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام کے سلسلے میں امریکی کردار کو مزید موثر بنانے کی طرف راغب کر رہی ہے۔امریکہ کے ایک تھنک ٹینک"کونسل آن فارن ریلیشنز"نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تمام جنوبی ایشیا کی سلامتی کے لئے ایک بڑا اور سنگین خطرہ ہے لہذا امریکی انتظامیہ کو مسئلہ کشمیر حل کراتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے در میان اچھے تعلقات کے قیام کے لئے اپنی کوششوں کو مزید موثر بنانا چاہئے کیونکہ مسئلہ کشمیر کاحل طلب رہنا امریکی مفادات کے لئے بڑے خطرات کا موجب ہے۔

امریکی صدر اوبامہ انتظا میہ کو پیش کی گئی ' کونسل آن فارن ریلیشنز" کی اس رپورٹ میںتھنک ٹینک کے سینئر فیلو برائے انڈیا،پاکستان و جنوبی ایشیاءڈینئیل مارکی، راجہ رتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹیڈیز و نانینگ ٹیکنالوجی یونیورسٹی سنگاپور کے پروفیسر راجہ من موہن ،پاکستان کے سیاسی و دفاعی امور کے تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی،ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ سٹڈی آف ڈپلومیسی جارج ٹاﺅن یونیورسٹی ہاورڈ بی سکیفر اور فاروق کاٹھواری چیئر مین کشمیر سٹڈی گروپ نے حصہ لیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر اوبامہ انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں موجود دہشت گردنیٹ ورکس امریکی قومی سلامتی کے حوالے سے بھی ایک بڑا خطرہ ہیں۔کئی تجزیہ نگاروں نے بھی کہا ہے کہ کشمیر کا علاقہ امریکی انتظامیہ کی دہشت گردی کے خلاف خطے میں جاری کوششوں کے لئے بڑے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔مسئلہ کشمیر کو دنیا کا سب سے خطرناک 'فلیش پوائنٹ' بھی کہا جاتا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947ءکے بعد دو جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔

ڈینئیل مارکی نے رپورٹ میں کہا کہ کشمیر کا علاقائی طور پر قابل قبول حل امریکہ کے لئے شاندار فوائد لا سکتا ہے۔بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی نہایت خطرناک ہے کیونکہ دونوں نیوکلیئر ممالک ہیں ۔ یہ صورتحال پاکستان کی دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کوششوں کو متاثر کرتی ہے اور پاکستان کو افغانستان میں بھارتی سرگرمیوں کو تشویش ہے۔چناچہ دیرینہ مسئلہ کشمیر وسیع علاقائی جہتوں پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے اور اس سے واشنگٹن کی جنوبی یشیا میں دہشت گرد گروپوں کے معاملے کو مخاطب کرنے اور افغانستان کو مستحکم کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔مسئلہ کشمیر کی مرکزی سٹریٹیجک اہمیت کے پیش نظر امریکہ نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے سلسلے میں اچھی پوزیشن نہیں لی ہے۔امریکہ کو بھارت اور پاکستان کی ڈپلومیسی کے درمیان خود کو نہیں لانا چاہیئے۔ماضی قریب میں بیک چینل ڈپلومیسی میں بھارت اور پاکستان نے تجویز کیا کہ اس مسئلے کا حل دونوں طرف جانا پہچانا ہے لہذا امریکہ کو اس میں ملوث ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔امریکی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ ممبئی کی طرح کے حملے سے بھارت پاکستان میں مختلف مقامات پر مخصوص حملے کر سکتا ہے جس سے خطے میں غیر یقینی صورتحال اور 'وائیلنس' درپیش ہو گا۔امریکہ کو پاکستان سے مزید کہنا چاہئے کہ لشکر طیبہ کا خلاف تحقیقات،گرفتاریاں اور فوجی ایکشن کیا جائے۔ایسا کئے بغیر مسئلہ کشمیر میں مجوزہ پیش رفت اور دہشت گردی کے خلاف جدوجہد بے فائدہ رہے گی۔

پروفیسر راجہ من موہن نے رپورٹ میں کہا کہ امریکہ کو کشمیر کا معاملہ' پاک افغان' سٹرٹیجی کے مطابق دیکھنا چاہئے۔مسئلہ کشمیر میں امریکہ کی ساٹھ سال مداخلت نہ صرف ناکام رہی بلکہ اس سے امریکہ اور بھارت کے تعلقات بھی متاثر ہوئے۔نئی دہلی مسئلہ کشمیر میں واشنگٹن کی دلچسپی کو پاکستان کے حق میں تصور کرتی ہے۔بش انتظامیہ نے سرد جنگ کے دور میں مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات کی بنیاد ڈالی2003ءسے2007ءکے درمیان بھارت اور پاکستان نے تقسیم ہندوستان کے بعد پہلی مرتبہ کشمیر میںاعتماد کی بحالی کے اقدامات اٹھائے تاہم یہ مزاکرات پاکستان میں عدم استحکام اور ممبئی حملے کی وجہ سے رک گئے۔بھارت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں بش انتظامیہ مسئلہ کشمیر سے پیچھے ہٹ گئی۔ امریکہ کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے سویلین لیڈرز کی مدد کرے تاکہ پاکستان کی نیشنل سیکورٹی پالیسی پر فوج کے بجائے سیاستدانوں کا کنٹرول قائم ہو سکے۔اگر امریکہ دونوں امور میں ایسا کرتا ہے تو وزیر اعظم من موہن سنگھ پہلے ہی مزاکرات میں مسئلہ کشمیر پر بات کرنے پر رضامندی ظاہر کر چکے ہیں۔

حسن عسکری رضوی نے رپورٹ میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام اور مسئلہ کشمیر کے حل سے افغا نستان اور پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے اور خطے کے استحکام کے حوالے سے امریکی کوششوں میں پاکستان کا کردار مضبوط ہو گا۔پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی یہ متفقہ رائے ہے کہ طالبان گروپ اور ان کے اتحادی پاکستان اور خطے کے استحکام کے لئے خطرہ ہیں۔سوات میں فوجی آپریشن کے بعد وہاں سول اور ملٹری انتظامیہ کام کر رہی ہے۔جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور مستقبل میں دیگر قبائلی علاقوں میں بھی فوجی آپریشن متوقع ہے۔بھارت سے ملنے والی مشرقی سرحد پر کشیدگی سے پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف کوششیں متاثر ہوتی ہیں۔یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب نومبر2008ءمیں ممبئی حملے کے بعد بھارتی لیڈروں نے پاکستان کے خلاف سخت بیانات دیتے ہوئے پاکستانی سرحد پر بھاری تعداد میں فوجی دستے متعین کر دیئے اور اس تجویز پر بات کرنے لگے کہ پاکستان کے مخصوص مقامات پر فضائی حملے کئے جائیں۔عسکریت پسند پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی سے فائدہ اٹھاتے ہیںخصوصا مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے سے۔اس کشیدگی کی وجہ سے پاکستان کے لئے بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کرے۔ اوبامہ انتظامیہ سب سے موثر ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے اور ان کے باہمی خوشگوار تعلقات کے سلسلے میں مزاکرات شروع کرانے کے لئے بھارت کی حوصلہ افزائی کرے۔پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لئے ثالثی کا کردار اد اکرے لیکن بھارت کے رضامند نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کم پیچیدہ تنازعات سیاچن گلیشئر،سرکریک باﺅنڈری اور پانی کا معاملہ حل کر لیا جائے تو یہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ممود و معاون ہو گا۔

ہاورڈ بی سکیفر نے رپورٹ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا امریکی مفادات کے لئے ایک بڑا خطہ ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی تنازعہ پر جنگ ایٹمی لڑائی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔پاکستانی فوج کی بڑی اور روائیتی توجہ بھارتی خطرے سے نمٹنے پر مبذول ہے۔پاکستانی ایجنسیاںاسلامی عسکریت پسندوںکے کشمیر میں داخلے کو مزید مشکل بنا رہی ہیں۔پاکستان سیاسی اور فوجی لحاظ سے افغان طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکہ کی مدد کر رہا ہے۔یہ عوامل داخلی انتہا پسندی کے حوالے سے پاکستان کے اپنے مسائل کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔کشمیر میں اندرونی مسلح بغاوت میں پاکستان کی مدد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میںاضافہ ہوتا ہے اور بھارت کے اس خدشے میں اضافہ ہوتا ہے کہ پاکستان بھارت میں بھی 'وائیلنس' کرا سکتا ہے۔یوں مسئلہ کشمیر حل ہونے تک دونوں ملکوں کے درمیان شعلے بڑھکنے کے خطرات ہیں۔اگر امریکہ اس معاملے میں اپنا موثر کردار ادا کرے تو کنٹرول لائین کو مستقل سرحد بناتے ہوئے کشمیر کے دونوں حصوںمیں اٹانومی اور تمام کشمیر میں مشترکہ ادارے بنائے جاسکتے ہیں ۔واشنگٹن کو یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ یہ آسان نہیں ہے، مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں اپنے کردار کو مزید موثر بنانے کے امکانات کا جائزہ لینا چاہئے۔ یہ مواقع اس وقت سامنے آئیں گے جب بھارت اور پاکستان میں مضبوط و مستحکم حکومتیں قائم ہوں گی جو اس کی خواہش رکھتی ہوں اور اس قابل ہوں کہ مسئلے کے حل کے لئے مشکل فیصلے کر سکیں۔ اس مسئلے میں امریکہ کے مزید ملوث ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان تعلقات کو بہتر بنائیں،یہ ان کے اپنے مفاد میں ہے۔اعلی سطح کے ایلچی کا تقرر امریکی کوششوں کے لئے مہلک ہو گا۔بھارت اور پاکستان کے درمیان مزاکرات معطل ہونے تک دونوں ملکوں کے درمیان کنٹرول لائین کو مستقل سرحد بنانے،کشمیر کے دونوں حصوں میں اٹانومی کے قیام اورتما م کشمیر کی مشترکہ باڈی پر بات چیت ہوئی ہے۔اس بات چیت میں دونوں ملکوں نے اتفاق کیا ہے کہ وہ جامع اور مربوط مزاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے ہیں۔لیکن پھر بھارت نے کہا کہ ممبئی حملوں کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی ہونے تک پاکستان کے ساتھ مزاکرات بحال نہیں کئے جائیں گے۔واثنگٹن نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ایسا کرے تاہم ابھی تک کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے خصوصا اس نکتے پر۔امریکہ کو دونوں ممالک سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ اہمیت کی حامل بات چیت شروع کی جائے۔

فاروق کاٹھواری نے رپورٹ میں کہا کہ جنوبی ایشیا میں تنازعہ امریکی مفادات کے لئے شدید اقتصادی اور سیکورٹی خطرات کی دھمکی ہے۔افغانستان میں جاری جنگ اور پاکستان میں لڑائی سنجیدہ اور خطرناک حقائق ہیں۔خطے میں استحکام،علاقائی تعاون اور اعتماد لازما قائم ہونا چاہئے خصوصا بھارت اور پاکستان کے درمیان۔تنازعہ کشمیر کے حل سے جنوبی ایشیا میں امن لانے میں بڑی اور نمایاں مدد ملے گی۔بھارت اور پاکستان میں وسیع طور پر اس کا احساس کیا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کرنا خود ان کے اپنے اور تمام خطے کے مفاد میں ہے۔ریاست جموں و کشمیرکا تنازعہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ ہے اور اسی کشیدگی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں جس سے خطے کوجانی واقتصادی نقصان،دفاعی اخراجات و انتہا پسندی میں اضافے کی صورت مہلک قیمت ادا کرنا پڑی۔کشمیر کا تنازعہ بڑا المیہ ہے اور ہر لحاظ سے تباہ کن ہے۔کشمیر میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں،انسانی حقوق کی پامالی،بھاری تعداد میں فوجی اجتماع ،لوگوں کا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہونا،اقتصادی،ماحولیاتی اور نفسیاتی مسائل کی خطرناک صورتحال جاری ہے۔اچھی خبر یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوںمیں'بیک ڈور ڈپلومیسی'کے ذریعے دونوں ملکوں اورکشمیر کے علاقے کے لوگوں کے درمیان بات چیت سے قابل عمل حل کے قریب ہوئے ہیں اور یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے چلے آرہا فریقین کا موقف حقیقی نہیں ہے اور اس پر 'کمپرومائیز ' کیا جا سکتا ہے۔امریکہ کے لئے یہ بہترین وقت ہے کہ وہ متعلقہ فریقین کے ساتھ اس کے حل پر بات چیت کرے۔صدر اوبامہ اور اعلی سطحی سفارتی ڈپلومیسی سے امن عمل کو آگے بڑہایا جاسکتا ہے۔

یہ رپورٹ مسئلہ کشمیر کے علاوہ پاکستان،بھارت اور امریکہ کے حوالے سے کئی خفیہ باتیں بھی آشکار کرتی ہے اوریہ رپورٹ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کے حامی عنا صر کو بھی دعوت فکر دیتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اورکشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کے لئے اپنی پالیسی اور حکمت عملی میں میں بہتری لاتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو آنے والے وقت پر ٹالتے رہنے کے انداز پر نظر ثانی کریں۔مسئلہ کشمیر کا جو بھی حل ہو ،یہ حقیقت عیاں ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی اکثریتی مسلمان آبادی نظرئیہ پاکستان پر بھر پور یقین رکھتی ہے اور وہ پاکستان میں رہنے والے عوام سے بڑھ کر پاکستانی ہیں۔
Abdul Bais Syed
About the Author: Abdul Bais Syed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.