چھ ستمبر ہے قوم اپنے ان شہداٗ کو سلامیاں
دے رہی ہے جنہوں نے پاکستان کو جانیں دے کر بچا لیا۔سچ پوچھیں تو اس وقت
دنیا کو علم ہوا کہ کوئی ملک پاکستان بھی ہے مجھے پچھلے سال جانب اعتزاز
احسن اور جاوید ہاشمی کے بیانات یاد آ گئے اس سال بھی جنہیں فوج سے نفرت ہے
ہو پاکستان کے اس ادارے کے خلاف زبانیں چلا رہے ہیں جس نے نہ صرف جغرافیائی
بلکہ نظریاتی سرحدوں کا دفاع کی ذمہ داری لے رکھی ہے ضرب عضب سے پہلے والا
کراچی ذرا سوچئے کہ ایم کیو ایم کے بغیر آپ سانس بھی لے سکتے تھے جنوبی
وزیرستان فاٹا کہاں کہاں یہ بیٹے نہیں پہنچے اور ہمارے لئے رستے صاف
کئے۔جنرل عاصم باجوہ نے سچ کہا تھا کہ دنیا کی کسی فوج نے اتنی قربانیاں
نہیں دیں جتنی پاک فوج نے دی ہیں۔اگر ان کی بات مان بھی لی جائے تو انڈین
جرنیل جنرل چودھری کی لاہور جیمخانہ میں چائے کا اہتمام کیوں نہیں ہو سکا؟
جی ہاں اعتزاز احسن صاحب یہ جنگ ہم ہی نے چھیڑی تھی اور جناب جاوید ہاشمی
ہم ہی نے یہ پنگا لیا تھا لیکن میجر شفقت بلوچ نے ۱۱۰ جوانوں کے ساتھ بھارت
کے پورے بریگیڈ کو جو لاہور کی جانب بڑھ رہا تھا اسے جہنم واصل ادھر
پاکستانی علاقے میں کیسے کیا بی آر بی جو شہیدوں کی نہر کہالاتی ہے اس میں
عزیز بھٹی اپنے ساتھیوں سمیت سوئمینگ کرتے ہوئے دوسرے جہاں چلے
گئے۔پاکستانیوں نے بھار تی جرنیل راجندر پرشاد کی جیپ تحفے میں حاصل کی تھی
جس میں مغربی پاکستان میں قبضے کی دستاویز بھی پکڑی گئی تھیں آپ کہتے ہووہ
جنگ ہم ہار گئے اگر ہار گئے تھے تو آپ کا مربی و محسن بھارت اقوام متحدہ
کیوں گیا کیوں سیز فائر ہوا کیوں پاکستانی اس جنگ بندی کے خلاف سڑکوں پر آ
گئے۔جھوٹے ہو تم لوگ بلکل صاٖف جھوٹے۔اعتزاز صاحب آپ سے دوستی رہی عدلیہ
تحریک میں ساتھ رہا مگر آپ کی تازہ ہرزہ سرائی اور وہ بھی اس وقت جب مدت
بعد قوم فوج کے ساتھ مل کر جشن منانے جا رہی تھی آپ نے رنگ میں بھنگ ڈالنے
کی کوشش کی ہے۔ہم آپ کی اس جھوٹی بات کی مذمت کرتے ہیں ہم پاک فوج کے ساتھ
ہیں جنرل راحیل ہمارا ہیرو ہے ہم پاک فوج کے ہر ایک جوان کے ساتھ ہیں۔
اس جنگ میں جب جہاز چھتوں پرسے گزرتے تھے تو لاہوری بو کاٹا کا نعرہ لگاتے
تھے آپ کو یاد ہے دو دنوں میں ۳۵ جہاز مار گرائے گئے تھے ایم ایم عالم نے ۶
ایک ہی وقت میں بھون کے رکھ دیے تھے۔ پاکستان نے ۷۱۶۱ مربع میل عالقہ فتح
کیا۔ انڈین جرنیل نے فرسٹ انڈیاپاک وار نامی کتاب میں اعتراف کیا کہ ہم
پاکستان سے ہار گئے حالنکہ انڈیا کے پاس ۲۸ سکوارڈ ڈن تھے اور پاکستان کے
پاس ۱۱۔پاکستان نیوی نے سومناتھ کو ڈبو دیا۔سنئے جنرل سرفراز کیا فرماتے
ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک روز میں اپنی جیپ میں بارڈر کی جانب جارہاتھا تو میں
نے راستے میں ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو پانی کا چھڑکاؤ کر رہی تھی۔میں
حیران ہو گیا کہ اس حبس کے موسم میں یہ عورت اس سنسان راستے پر کیا کر رہی
ہے۔میں نے ڈرائیور سے کہا جیپ واپس کرو۔ہم اس تک پہنچے اور اماں سے سوال
کیا ماں جی آپ اس وقت اس سنسان راستے پر کیا کر رہی ہیں۔جنرل صاحب نے
بھرائی ہوئی آواز میں کہا عورت نے جواب دیا بیٹا میں مسکین اور غریب ہوں
میرا بیٹا کوئی نہیں میں گھروں کا کام کرتی ہوں کھیتوں میں مزدوری کر کے
پیٹ پالتی ہوں میرے پاس دفاعی فنڈ میں دینے کے لئے کچھ نہیں میں نے سوچا
میرے فوجی بچے اس راستے سے گزرتے ہیں ۔یہ گرد ان کی آنکھوں میں پڑتی ہے
سوچا پانی کاچھڑکاؤ کر دوں کم از کم ان کی آنکھوں میں دھول نہیں پڑے گی اور
وہ دشمن کا مقابلہ بہتر طور پر کر پائیں گے۔یہ تھے وہ جذبے جن کی بنیاد پر
جنگ ستمبر لڑی گئی۔
مجھے اس دن دلی دکھ ہوا جب جاوید ہاشمی نے ۱۹۶۵ کی جنگ کے بارے میں
پاکستانی قوم کے سامنے جھوٹ بولا کہ وہ جنگ انڈیا نے نہیں ہم نے شروع کی
تھی۔گرچہ جب سے وہ سترے بہترے ہوئے ہیں اس قسم کی گفتگوکرتے رہتے ہیں میں
ان کی بات مان لیتا مگر دوسرے ہی لمحے جب انہوں نے کہا کہ میرا تعلق اسلامی
جمعیت طلبہ سے نہیں ہے تو میں نے اپنی سوچ کا رجوع کر لیا کر لیا کہ بھائی
صاحب کو فوج سے دلی دشمنی ہے ۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم قومی جھوٹ کی بیماری میں مبتلا ہیں ۔ہمیں اس بے
و قوف اور جاہل قوم کا درجہ دینے میں ہمارے اس قسم کے لوگوں کا بڑا ہاتھ
ہے۔اس قسم کی سوچ کوخود احتسابی کا شدید بخار کہا جا سکتا ہے۔میں ایک روز
محترمہ شیرین مزاری کی ایک تنظیم کے جلسے میں گیا وہاں ایک ریٹارڈ جرنیل جن
کا نام بھی لکھے دیتا ہوں جنرل طلعت مسعود اور ایک سابق سفیر شائد ان کا
نام سرور ہے وہ ڈاکٹر قدیر خان اور ان کی ایٹمی صلاحیتوں پر انتہائی منفی
تبصرہ کر رہے تھے،وہ انہیں ایک غلط انسان کے روپ میں پیش کرنے کی جسارت کر
رہے تھے میں نے اس سیمینار میں ان کی کلاس لے لی مگر لگتا تھا کہ میں ایک
اور کلاس کا باشندہ ہوں اجلاس کے اختتام پر چائے کی میز پر مجھے ایک بھی
پاکستانی نہیں ملا جس نے اس بات کی تائد کی ہو کہ ڈاکٹر قدیر ہمارے ہیرو
ہیں۔البتہ شیرین مزاری نے جرنیل کی خوب دھلائی کی،دیکھئے یہ کلاس اس طبقے
کی نمائندگی کرتی ہے جس نے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ پاکستانیوں کو پاکستان سے
محروم کر دینا ہے اس کے مستقبل سے مایوس کر کے چھوڑنا ہے۔اردو بولنے والے
اس ملک سے جڑے ہوئے ہیں اس قسم کے لوگ آپ کو زیادہ تر انگلش میڈیم سے پڑھے
ہوئے ملیں گے جہاں پاکستان پڑھایا ہی نہیں جاتا۔اسی طرح مسلمان ہونے کا
تفاخر بھی اسی کلاس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔جاوید ہاشمی کوئی ایک اکیلے شخص
نہیں جنہیں فوج کے ہاتھوں رگڑا لگا ہو۔میں مانتا ہوں کہ ان کی جمہوریت کے
لئے قربانیاں عظیم ہیں انہیں مشرف دورمیں پابند سلاسل کیا گیا ۔اس ظلم و
ستم سے اور بھی لوگ گزرے ہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ فوج کی قربانیوں اور
اس کے قابل فخر کردار سے منہ موڑ لیا جائے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ نجی چینیل ۱۹۶۵ میں ہوتے تو ساری صورت حال بدل کے رکھ
دیتے۔جاوید ہاشمی کی طرح قوم کو کنفیوز کر کے سڑکوں پر ننگا دوڑا دیتے۔ایک
چینیل تو خاص طور پر جنرل چودھری کا جیم خانہ کی بجائے انار کلی میں
انٹرویو بھی چلا دیتا ۔ جو قصاب کو پاکستانی قرار دینے میں بازی لے گیا تھا
اس سے یہ کیا بعید تھا۔رات گئے پروگرام کرنے والا ہکلاتا ہوا صحافی لاہور
کو بھارت کے قبضے میں چلے جانے کی خبر بھی سنا دیتا۔
دوستو! ۱۹۶۵ ہمارا تفاخر ہے۔جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی
چونڈہ میں لڑی گئی اور اسی جنگ میں ہمارے سپوت سینوں پر بم باندھ کے ٹینکوں
کے نیچے آ گئے۔دشمن کو عبرت ناک شکست دی گئی۔اگر بھارت پر پاکستان نے ہی
حملہ کیا تھا تو عزیز بھٹی کئی دن اور راتیں بی آر بی پر کیا کرتے
رہے،ظالمو اس قوم سے اس کا فخر تو نہ چھینو۔میں اس وقت دس سال کا تھا
مجھیاپنے فوجیوں کے وہ ٹرک یاد آتے ہیں جب وہ ہمارے شہر گجرانوالہ سے گزرتے
تھے تو لوگ ان پر صدقے واری جاتے تھے۔میں نے جنرل سرفراز کی زبانی ایک
واقعہ سنا ہے جس میں انہوں نے ایک بوڑھی عورت کی فوج سے محبت کا تذکرہ کیا
ہے۔یہ بات میں نے گجرانوالہ کے شیرانوالہ باغ میں سنی تھی جب وہ لاہور سے
الیکشن لڑ رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ ایک روز میں اپنی جیپ میں بارڈر کی جانب
جارہاتھا تو میں نے راستے میں ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو پانی کا چھڑکاؤ
کر رہی تھی۔میں حیران ہو گیا کہ اس حبس کے موسم میں یہ عورت اس سنسان راستے
پر کیا کر رہی ہے۔میں نے ڈرائیور سے کہا جیپ واپس کرو۔ہم اس تک پہنچے اور
اماں سے سوال کیا ماں جی آپ اس وقت اس سنسان راستے پر کیا کر رہی ہیں۔جنرل
صاحب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا عورت نے جواب دیا بیٹا میں مسکین اور
غریب ہوں میرا بیٹا کوئی نہیں میں گھروں کا کام کرتی ہوں کھیتوں میں مزدوری
کر کے پیٹ پالتی ہوں میرے پاس دفاعی فنڈ میں دینے کے لئے کچھ نہیں میں نے
سوچا میرے فوجی بچے اس راستے سے گزرتے ہیں ۔یہ گرد ان کی آنکھوں میں پڑتی
ہے سوچا پانی کا چھڑکاؤ کر دوں کم از کم ان کی آنکھوں میں دھول نہیں پڑے گی
اور وہ دشمن کا مقابلہ بہتر طور پر کر پائیں گے۔یہ تھے وہ جذبے جن کی بنیاد
پر جنگ ستمبر لڑی گئی۔جاوید ہاشمی اور دیگر لوگ ہم سے یہ جذبے نہ
چرائیں۔قوم کی آنکھوں میں دھول مٹی نہ جھونکیں۔
نئی نسل سچ مانگتی ہے ہم نے چودھری رحمت علی کو جھوٹ کی دھول میں چھپا دیا
قومی لیڈر کو گہنا دیا اسی طرح ہمارے دانشور اس جنگ کو بھی پاکستان کے
اعزاز کی بجائے اسے پاکستان کی جارحیت کا نام دینا چاہتے ہیں۔در اصل دشمنی
فوج سے ہے اس کا سامنا تو نہیں کرتے جنگ ستمبر کو غلط سلط بتا رہے ہیں۔لوگ
بڑے بزدل ہیں اسلام کی مخالفت کی جرئت نہیں کر پاتے مولوی کو تضحیک کا
نشانہ بناتے ہیں۔
نئی نسل کے لوگو!ان کی باتوں میں نہ آنا۔
اس جنگ میں ایم ایم عالم بھی ہیں جنہوں نے دشمن کے طیارے گرانے میں عالمی
ریکارڈ بنایا میجر عزیز بھٹی بھی ہیں جنہوں نے اکیلے دشمن کو روکے
رکھا۔بیدیاں نہر اس کی گواہ ہے۔
مت سننا جھوٹے لوگوں کی جھوٹی باتیں ۔۶ ستمبر اعزاز ہے فخر ہے۔پاکستان کے
بیٹوں نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔وہ جسے ڈکٹیٹر کہتے ہیں
ایوب خان نام ہے جس کا اس کی تقریر ضرور سننا جو انہوں نے ۶ ستمبر کی صبح
کو کی تھی۔لوگ تو ناشتے جیم خانے میں کرنا چاہتے تھے لیکن اﷲ نے انہیں شکست
دی۔پاک فوج تمہیں سلام۔میں اس فوج کے سپہ سالار سے یہ ضرور کہوں گا کہاس
موقع پر پاک فوج میں ایک اسلامی فوج کی روح پھونکیں اور اندرونی و بیرونی
دشمنوں کو پیغام دے دیں کی یہ قوم آج بھی اپنے سینوں پر بھارتی ٹینکوں کی
بربادی کے جذبے سجائے ہوئے ہے۔ یہ تھی چھ ستمبر اور یہ ہیں ہمارے گندے
سیاست دان جنہوں نے خود تو ہندوستان کو خالصتان تحریک کے سرگرم لوگوں کے
پتے دے دئیے اور لگے فلسفے جھاڑنے۔پاکستان زندہ باد پاک فوج پائیندہ باد |