کیا قرض ہم واپس کرسکیں گے؟

غیر ملکی قرض کی کمی کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔گزشتہ4دہائیوں میں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔میری کوشش ہوگی کہ اس آرٹیکل میں کم از کم اعدادوشمار کا استعمال کروں۔لیکن کچھ نہ کچھ اعدادوشمار توبتانے ہی پڑتے ہیں۔اس کے بغیر بات بنتی بھی نہیں۔غیر ملکی قرض کی صورت حال اب نازک مرحلے میں اس لئے آچکی ہے کہ سابقہ قرض کی اقساط اداکرنے کے لئے آئی۔ایم۔ایف سے نیا قرض لینا پڑتا ہے۔گزشتہ 8سالوں کے قرض ایسے ہی نظر آتے ہیں۔نئے ترقیاتی منصوبوں کے لئے مغربی اداروں سے قرض نہ ہونے کے برابر ہیں۔جب چند دن پہلے سٹیٹ بنک نے اپنی رپورٹ شائع کی تو پتہ چلا کہ اب قوم پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ72۔ارب اور90کروڑڈالر ہوچکا ہے۔2016ء کی پہلی سہ ماہی سے3۔ارب 40کروڑ زیادہ۔ذہن کو جھٹکا سا تو لگتا ہے۔کہ اتنی بڑی رقم پاکستان جیسا ملک جو شدید مسائل کا شکار ہے۔کیسے واپس کرے گا۔دہشت گردی کی وجہ سے نہ صرف نئے سرمایہ کار باہر سے نہیں آرہے بلکہ اپنے بھی سرمایہ باہر منتقل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔گزشتہ سال معمولی سی سرمایہ کاری باہر سے آئی۔باہر کے سرمایہ کار اب یہ بات کھلم کھلا کرنے لگے ہیں کہ جب پاکستانی اپنا سرمایہ ملک سے نکال رہے ہیں اور اپنے ملک سے مخلص نہیں ہیں توباہر والوں کو کیا پڑی ہے۔کہ وہ اپنے سرمایہ کو پاکستان میں لاکر خطرات میں ڈالیں۔جب ہم ماضی میں جھانکتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دسمبر1971ء میں پاکستان پر کل غیر ملکی قرض صرف اور صرف 3بلین ڈالر تھا۔یہ رقم آجکل کے73بلین ڈالر کے بالمقابل ہمیں مونگ پھلی ہی نظر آتی ہے۔1971ء تک 2سنہری دہائیاں گزر چکی تھیں اور60ء کی دہائی تو ایسی تھی کہ ایشیاء کے بہت سے ممالک ہماری معاشی ترقی کو دیکھنے آیاکرتے تھے۔وہ حیران تھے کہ ایک نوزائدہ ملک نے اتنی تیزی سے کیسے ترقی کرلی۔دوسرے پنجسالہ منصوبے کے اہداف طے شدہ سے بھی زیادہ حاصل کرلئے تھے۔صنعتیں بہت تیزی سے آگے بڑھی تھیں۔زرعی اشیاء برآمد کی جانے لگیں تھیں۔صرف اور صرف ان ابتدائی2۔دہائیوں میں چند سال ایسے تھے کہ ادائیگیوں کا توازن مثبت رہاتھا۔اور نوجوان قارئین تو یقین بھی نہیں کریں گے کہ ایک امریکی ڈالر پانچ روپے سے بھی کم میں خریدا جاسکتا تھا۔بھٹو کے آنے کے بعد مئی1972ء میں ایک ڈالر کی شرح تبادلہ11۔روپے مقرر ہوئی تھی۔کتنا سہانا لگتا ہے پاکستان کا ماضی۔ایک دوست نے دسمبر1969ء سے دسمبر2012ء تک غیر ملکی قرض بڑھنے کی شرح نکالی ہے۔یہ شرح2354فیصد ہے۔غیر ملکی قرض2.7۔ارب ڈالر سے بڑھ کر66.243۔ارب ڈالر ہوگیا تھا۔محسوس ایسا ہوتا ہے کہ قرض صرف اور صرف وصول کیا جاتا رہا۔واپسی کی طرف کسی کی بھی توجہ نہ تھی۔ ہر حکمران جو آتا ہے۔وہ جانے کے لئے آتا ہے۔اپنا دور قرض لیکر گزارتا رہتا ہے۔واپسی کی ذمہ داری آئندہ آنے والوں پر۔اس سے حکمرانوں کی خود غرضی صاف نظر آتی ہے۔حالیہ دور میں مشرف بھی یہی کام کرتا رہا۔اور پیپلز پارٹی نے تو کبھی مستقبل کے بارے سوچا ہی نہیں۔ویسے جناب اسحاق ڈار نے بھی کبھی تفصیلی پروگرام قوم کو نہیں بتایا۔کہ73۔ارب ڈالر کیسے واپس ہونگے؟۔تمام نہ سہی آدھے قرض تو واپس ہوجائیں۔اسحاق ڈار صاحب زرمبادلہ کے ذخائر کے بڑھنے کی ہی باتیں کرتے ہیں۔مجھے نہیں یاد کہ انہوں نے کبھی قرض کی واپسی کا شیڈول قوم کو بتایا ہو۔اور اب حساب کتاب کے ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہر شخص پر قرض ایک لاکھ روپے سے بھی زیادہ کا ہوگیا ہے۔ویسے یہ جو حساب لگایا جاتا ہے وہ بھی اندازہ ہی ہے۔کہ یہاں تو ملک کی آبادی کی تعداد کا ہی کسی کو پتہ نہیں۔2۔سال سے برآمدات کی مقدار کم ہورہی ہے۔وصولیاں بھی گھٹتی جارہی ہیں۔جب برآمدات 25۔ارب تک پہنچی تھیں تو درآمدات وبرآمدات میں خسارہ کم ہونا شروع ہوگیاتھا۔لیکن اب صورت حال برعکس ہے۔ٹیکسٹائل کے بہت سے کارخانے بند ہوچکے ہیں۔کچھ ہونے جارہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ اس سب سے بڑی صنعت کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔زرمبادلہ کا دوسرا ذریعہ ترسیلات زر تھیں۔اب اس کابھی کھٹکا سا لگا رہتا ہے۔بہت سے پاکستانی جو مشرق وسطیٰ میں تھے۔انکے روز گار ختم ہورہے ہیں۔جب مشرف آئے تھے تو 2000ء میں غیر ملکی قرض35.6۔ارب ڈالر تھا۔جب مشرف گئے تو40۔ارب ڈالر کا بوجھ قوم پر لادا جاچکا تھا۔گزشتہ8سالوں میں 33۔ارب ڈالر کا اضافہ۔ہماری فی کس آمدنی دنیا کے غریب ترین ملکوں جیسی ہے۔صرف1152۔ڈالر سالانہ۔حکومت کہتی ہے کہ معیشت4.2۔فیصد کے لحاظ سے بڑھ رہی ہے۔ IPRجیسے تحقیقی اداروں کا اندازہ3.5۔فیصد تک کا ہے۔یہ بات درست ہے کہ بجٹ خسارہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد کم ہوا ہے۔افراط زر میں کمی صارفین کے لئے خوشگوار ۔لیکن اس سے معیشت میں گرما گرمی ظاہر نہیں ہوتی۔مجموعی قرض اور جی۔ڈی۔پی کی نسبت اب کہا جارہا ہے۔کہ 60۔فیصد سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔یہ الارمنگ صورت حال ہے۔ہمیں غیر ملکی قرض صرف ترقیاتی منصوبوں کے لئے لینے چاہیں۔کئی سالوں سے صرف آئی۔ایم۔ایف سے ملاقاتوں کا سنتے آرہے ہیں۔جو اپنے سابقہ قرضوں کی واپسی یقینی بنانے کے لئے کچھ نہ کچھ اور پھینک دیتا ہے۔اتنی بڑی رقم کی واپسی کے لئے ہمیں ایک Tightپروگرام بنانا چاہیے۔معیشت کی پیداواری صلاحیت بڑھانا ضروری ہے۔صنعت اور زراعت میں اضافہ۔اس سے برآمدات میں اضافہ۔لیکن صنعت اور زراعت میں اضافہ توتب ہی ہوگا۔جب دونوں شعبوں کو سستی اور تسلسل سے بجلی دستیاب ہوگی۔موجودہ حکومت کے تمام وعدے جو الیکشن میں کئے گئے تھے وہ تمام کے تمام گزر چکے ہیں۔اب باتیں2018ء کی کی جارہی ہیں۔اور یہ کہاجارہا ہے کہ10۔ہزار میگا واٹ کا اضافہ لازمی ہوجائے گا۔لیکن2018ء بھی کوئی دور نہیں رہ گیا۔جب سستی بجلی دستیاب ہوگی۔زراعت اور صنعت کو تسلسل سے ملے گی اسی وقت پیداواری صلاحیت بڑھے گی۔ہم اپنی اشیاء باہر کی منڈیوں میں زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔غیر ملکی قرضوں کی واپسی بھی تیزی سے اسی وقت شروع ہوسکے گی۔دہشت گردی تو کافی کم ہوگئی ہے۔لیکن بجلی کا مسٔلہ ابھی تک جوں کا توں ہے۔2018ء بھی بس وعدہ ہی ہے۔گراؤنڈ پر شروع ہونے والے منصوبوں کی تکمیل میں بڑے مسائل ہوتے ہیں۔مسلم لیگ کو چاہیے تھا کہ کوئلہ کے پروجیکٹس آتے ہی شروع کردیتی۔کہا یہی جارہا تھا کہ ہم نے تو تمامHome workپہلے ہی مکمل کرلیا ہوا تھا۔لیکن بجلی کے پروجیکٹس شروع ہوتے ہوتے بھی1-1/2سے2سال گزر چکے تھے۔تکمیل اور پیداوار کا شروع ہونا ایک متعین عرصہ مانگتا ہے۔اسحاق ڈار صاحب ہمیں کسی پروگرام میں یہ بھی بتائیں کہ73۔ارب ڈالر کس طرح سے واپس ہونا شروع ہونگے۔ ظاہراً یہ لگتا ہے کہ ہم قرض واپس نہیں کرسکیں گے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55139 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.