مردم شماری میں مسلسل تاخیر……حکومتوں کی غفلت یا نااہلی؟
(عابد محمود عزام, Lahore)
ملک میں وفاقی حکومت کی جانب سے مختلف
حیلوں بہانوں کے ذریعے مردم شماری میں تاخیر کے معاملے پر سپریم کورٹ نے
ایک بار پھر از خود نوٹس کے ذریعے مردم شماری کے معاملے کو اٹھادیا ہے۔
سپریم کورٹ نے ملک میں مردم شماری میں تاخیر پر حکومت سے وضاحت طلب کرتے
ہوئے اٹارنی جنرل اشتراوصاف کو ہدایت کی ہے کہ اعلیٰ حکام سے بات کر کے
عدالت کو آگاہ کریں کہ کب تک مردم شماری کا انعقاد ممکن ہوگا۔ اٹارنی جنرل
اشتراوصاف کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومت نے ملک میں مردم شماری
کروانی ہے یا جنگ لڑنی ہے؟ عدالت میں ہر معاملے کو حساس کہہ دیا جاتا ہے۔
اس سے قبل بلدیاتی انتخابات کو بھی حساس کہا گیا، سمجھ نہیں آ رہی کہ مردم
شماری کے بغیر حکومت کیسے چل رہی ہے؟ جب حکومت کو اپنے عوام کے بارے میں
اعداد و شمار معلوم نہیں تو فیصلے کیسے کر ے گی۔ سپریم کورٹ پوری قوم کی
تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے از خود نوٹس کے ذریعے مردم شماری کے معاملے کو
اٹھایا۔ یہ معاملہ اتنا پیچیدہ نہیں جتنا موجودہ حکومت نے ثابت کرنے کی
کوشش کی ہے۔ حکومت فوج کے بغیر مردم شماری کرانے کے لیے تیار ہی نہیں ہے،
حالانکہ اگرفوج مردم شماری کیلئے ناگزیر تھی تو دو سال پہلے تو اس مقصد
کیلئے دستیاب تھی، جب آپریشن شروع نہیں ہو ا تھا، اس وقت حکومت نے مردم
شماری کیوں نہیں کرائی۔اس کے علاوہ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ ملک کے 95 فیصد
علاقوں کے لیے فوج کی ضرورت نہیں ہے۔ بیشتر علاقوں میں فوج کے بغیر بھی
مردم شماری ہو سکتی ہے۔ صرف چند مخصوص علاقوں کی مخصوص صورتحال کے باعث فوج
کی ضرورت ہے، حکومت ان مخصوص علاقوں کے علاوہ دیگر اکثر علاقوں میں تو فوج
کے بغیر مردم شماری کراسکتی ہے، لیکن حکومت کا فوج کی مصروفیت کا بہانہ بنا
کر مردم شماری کو موخر کرنا سراسر حکومت کی سستی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ملک
بھر میں مردم شماری کیلئے فوج کی ہرگز ضرورت نہ تھی، مگر اسے جواز بنا کر
مردم شماری سے گریز کیا گیا اور ذمہ داری فوج پر ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ
مطلوبہ تعداد میں وہ دستیاب نہیں ہے۔ اس طرح حکومت نے اپنے آپ کو اس اہم
فریضے سے بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اگر فوج کو ہی ملک کے تمام
اداروں کا نظام سنبھالنا ہے تو حکومت اور اس کے تحت چلنے والے دیگر ادارے
کس مرض کی دوا ہیں، کیا فوج کے علاوہ دیگر تمام اداروں کو اپنی ذمہ داری
ادا نہیں کرنی؟ کیا ہر ادارہ اپنا کام کرنے کے لیے ہمیشہ فوج کا ہی تعاون
حاصل کرتا رہے گا؟ اگر یہ بات ہے تو حکومت کو چاہیے از خود ہی سارے کام فوج
کے سپرد کردے۔ پاکستان میں آخری مرتبہ مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی۔
پاکستان کے آئین کے تحت حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر دس سال بعد مردم
شماری کا انعقاد کرے، تاکہ آبادی کی صحیح تعداد اور ترکیب معلوم ہوسکے اور
انہیں مدنظر رکھ کر پالیسیاں تشکیل دی جاسکیں اور وسائل کی منصفانہ تقسیم
ہوسکے۔ سپریم کورٹ بھی آئندہ عام انتخابات سے متعلق ایک پٹیشن کی سماعت کے
دوران کہہ چکی ہے کہ مردم شماری کے بغیر 2017ء کے عام انتخابات کی کوئی
افادیت نہیں ہوگی۔حکومت کو یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ اگر اعلان کے
مطابق مارچ 2017 میں اس کا انعقاد ہوتا ہے تو اس کے مکمل ہونے کے بعد
انتخابی حلقہ بندیوں میں کتنا وقت لگے گا، دیگر امور کب تک سرانجام دیے جا
سکیں گے؟ اس پر بھی غور و فکر کی ضرورت ہے۔ 2018 میں عام انتخابات ہونے ہیں
کیا اس سے قبل انتخابات سے متعلقہ تمام امور مکمل کیے جا سکیں گے؟ مطلوبہ
انتظامات نہ ہونے کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ 1998 ہی کی مردم شماری کی بنیاد
پر 2018 کے انتخابات کرانے پڑیں گے۔لہٰذا حکومت کو مردم شماری کے معاملے
میں تاخیری حربے استعمال کرنے کی بجائے فوری طور پر اس کا انعقاد کرنا
چاہیے۔گزشتہ روز اقوام متحدہ کی نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق کمیٹی نے
پاکستان میں ایک مرتبہ پھر قومی مردم شماری میں تاخیر پر تشویش کا اظہار
کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے ملک کی آبادی کی نسل کی بنیاد پر تازہ
ترین تفصیل حاصل نہیں ہوسکی ہے، لہٰذا پاکستان میں جلد از جلد انتہائی اہم
مردم شماری کا بندوبست کیا جائے۔ کمیٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی
آبادی کی نسلی ترکیب اور ان کی معاشی و معاشرتی صورتحال کا ڈیٹا مہیا کرے
تاکہ کمیٹی ان نسلی گروپس کی صورتحال اور انھیں دی جانے والا تحفظ کے بارے
میں معلومات حاصل کرسکے۔
واضح رہے کہ ملک میں آخری بار مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی، اس کے بعد
18سال سے ملک میں مردم شماری نہیں ہوسکی ہے۔ 2010ء میں سابق وزیراعظم سید
یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں مشترکہ مفادات کونسل نے ملک میں مردم شماری
کروانے کی منظوری دی تھی، جس کے تحت ملک میں خانہ شماری اکتوبر 2010ء میں،
جبکہ چھٹی مردم شماری مارچ 2011ء میں ہونی تھی، لیکن نہیں ہو سکی۔ اس سے
پہلے 2008ء میں بھی مردم شماری ہونی تھی، لیکن اس کو بھی بعض وجوہ کی بنا
پر ایک سال کے لیے موخر کر دیا گیا، جبکہ 2009ء میں فاٹا، بلوچستان اور
خیبر پختونخوا کی حکومتوں کے کہنے پر مردم شماری اور خانہ شماری ایک بار
پھر موخر کر دی گئی۔ ملک میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی۔ اس سے
پہلے ملک میں ہر دس سال بعد یعنی 1951ء، 1961ء، 1972ء اور 1981ء میں مردم
شماری ہوئی تھی۔ 1991ء کی مردم شماری تین بار ملتوی ہونے کے بعد یکم مارچ
سے 13مارچ 1998ء کو ہوئی تھی۔ ابتدائی مرحلے میں خانہ شماری کا کام مکمل کر
لیا گیا تھا، لیکن اندرون سندھ آبادی میں اضافے کی ناقابلِ یقین رپورٹوں کے
پیش نظریہ عمل روک دیاگیا۔ اس وقت کی خانہ شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی
81 ملین سے بڑھ کر 133ملین ہو گئی تھی۔ اس طرح اب 18سال گزرچکے ہیں، لیکن
چھٹی مردم شماری نہیں ہو رہی۔ رواں سال کے شروع میں وفاقی حکومت نے ملک میں
مردم شماری کی منظوری دی تھی، جو تین سال سے التواء میں تھی، لیکن بعض
صوبوں کے تحفظات کے باعث اس بار بھی مردم شماری التواء کا شکار ہوگئی۔
1998ء میں ہونے والی مردم شماری کو 17سال گزر چکے ہیں، مگر ابھی تک حکومت
کی جانب سے اس اہم نوعیت کے کام کے لیے تیاریاں ہی شروع نہیں کی گئیں، بلکہ
عدالت کے نوٹس لینے کے باوجود امن وامان کو بہانہ بنا کر لیت و لعل سے کام
لیا جا رہا ہے۔ عدالت کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ ’’حکومت کی کیا اپنی
کوئی ساکھ نہیں کہ اسے فوج کی مدد کی ضرورت ہے‘ حکومت حساسیت کے نام پر اہم
قومی اور آئینی ذمے داریاں ٹال دیتی ہے، اس نے مردم شماری کرانی ہے جنگ
نہیں لڑنی کہ فوج کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی ملک کے اکثریتی علاقوں میں فوج
تعینات کرنے کی ضرورت نہیں، حکومت کا صرف فوج کی نگرانی میں مردم شماری
کرانے کا فیصلہ ملک بھر میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے تشکیل دیے گئے
سول سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر عدم اعتماد کے اظہار پر دلالت کرتا ہے۔
لاہور‘ اسلام آباد اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں سیکورٹی کی صورت حال بہت
بہتر ہے، چند علاقوں میں امن و امان کے مسائل کو بہانہ بنا کر مردم شماری
کو ٹالنا درست عمل نہیں۔ انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے مردم شماری کرانا
ناگزیر ہے، کیونکہ مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیوں کو عدالت میں چیلنج کرنے
کا امکان اپنی جگہ موجود ہے۔
پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں کی جانب سے مختلف ادوار میں ملک بھر میں مردم
شماری جلد از جلد کرانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے
کہا گیا تھا کہ مردم شماری سندھ کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، جبکہ
خیبرپختونخوا حکومت نے بھی وفاق سے مردم شماری کرانے کا مطالبہ کرایا تھا،
لیکن وفاقی حکومت تاحال صوبوں کے مطالبے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی
ہے۔ گزشتہ اور موجودہ وفاقی حکومتوں نے ملک میں صحیح مردم شماری کرانے کی
طرف کوئی توجہ نہیں دی اور ہمیشہ اس اہم مسئلے کوطول دے کروسائل کی تقسیم ،چھوٹی
قومیتوں اور صوبوں کے حقوق کے حصول کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ قوم کی بدقسمتی
ہے کہ ملکی ترقی کے لیے ناگزیر اہمیت و افادیت کے حامل اور قومی ترقی کے
لیے بنیاد کی حیثیت رکھنے والے اس اہم ترین معاملے کو پس پشت ڈالنے کی کوشش
کی جا رہی ہے۔یہ ہماری بدقسمتی اور ذمہ دار لوگوں کی نااہلی ہے کہ ان کو یہ
معلوم نہیں ہوسکا کہ 18سال کے عرصے میں پاکستان کی آبادی کتنی بڑھ چکی ہے۔
زندگی کے کن کن شعبوں میں عوام کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے کیا
ضرورتیں ہیں؟ کون سے شعبے میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے؟ ملک کے کس حصے
میں عوام کے علاج معالجے کے لیے کس تعداد میں ہسپتالوں کی ضرورت ہے؟ اور
عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے کتنے اسکولوں، کالجوں اور
یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے؟ عوام کو حاصل بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا
دارومدار آبادی کے درست اعداد و شمار پر ہوتا ہے۔ مردم شماری صرف آبادی کو
معلوم کرلینے کا نام نہیں بلکہ مردم شماری کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ
ملک کی ضروریات کیا ہیں، ملک کو کن کن مسائل کا سامنا ہے، ملک کی آبادی میں
کمی یا اضافہ کتنا ہوا ہے، ملک کی اکثریتی آبادی کا تعلق کس نسل یا زبان سے
ہے۔ملک کے ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل، قومی، صوبائی اور مقامی سطح پر عوامی
مسائل کے حل کے لیے مردم شماری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مردم
شماری سے اصل صورت حال سامنے آتی ہے کہ عوام کی تعداد کے مطابق حکومت نے
قومی منصوبے کب، کہاں اور کس نوعیت کے تشکیل دینے ہیں۔ جدید طریقوں سے مردم
شماری کا عمل بڑی حد تک آسان ہوسکتا ہے، لیکن سب سے پہلے اس کے لیے سیاسی
عزم کی ضرورت ہے۔ نادرا کے پاس شہریوں کا بڑا ڈیٹابیس موجود ہے۔ نادرا جیسے
ادارے کے ہوتے ہوئے روایتی انداز میں مردم شماری کرانے کی چنداں ضرورت باقی
نہیں رہتی۔ بیشتر ممالک میں 19ویں صدی کے دستی انداز کو یکسر ترک کر دیا
گیا ہے۔ مردم شماری کے عمل میں آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد کس طرح
حاصل کی جا سکتی ہے۔ جن ممالک نے جدید خطوط پر مردم شماری کا عمل شروع کر
رکھا ہے، وہاں بھی نادرا جیسے قومی ادارے سے کام لیا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت
مردم شماری پر 16ارب روپے خرچ کر رہی ہے، حالانکہ اس رقم کا ایک چوتھائی
نادرا کو دے کر بااعتماد اور باوثوق انداز میں 100فیصد کمپیوٹرائزڈ شناختی
کارڈ اور ب فارم جاری کیے جا سکتے ہیں۔ نادرا ملک کے 95 حصے تک رسائی رکھتا
ہے، جبکہ دیگر حصے تک آسانی سے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ نادرا بھی وہی
کوائف مانگتا ہے جو مردم شماری کے دوران اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ دنیا کے
70ممالک کے پاس مردم شماری کرانے کا مخصوص ادارہ نہیں ہے۔ملک میں مردم
شماری کرانا انتہائی ضروری ہے، 18سال سے حکومتیں اس عمل کو ملتوی کرتی آئی
ہیں، اب اس میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ |
|