چینی زبان پاکستانیوں کی اولین ضرورت

چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے ۔ دونوں اطراف سے دوستی کے بلند و بانگ وعوے بھی کئے جاتے ہیں لیکن نہ تو چین میں اور نہ ہی پاکستان میں ایک دوسرے کی زبانیں سیکھنے اور سکھانے کا بہت زیادہ رجحان پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے لوگ انگریزی کو رابطہ کی زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن اس میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ یہ حائل ہوتی ہے کہ چینی عوام زیادہ تر اپنی ہی زبان بولتے ہیں اور انگریزی یا کسی بھی دوسری زبان سے کم ہی واقف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے عام لوگوں کو ایک دوسرے سے رابطے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں دونوں ممالک کی حکومتوں کو اس حوالے سے اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں جمعہ کو سندھ حکومت اور چین کے قونصل خانے کی طرف سے ایک سنجیدہ کوشش کو گئی ہے تاہم اس کوشش کا دائر ہ بہت محدود ہے۔ پہلے میں چینی زبان سکھانے کے حوالے سے پیشرفت کی تفصیلات پر بات کر لوں اس کے بعد میں اس معاہد ے کی محدودیت پر بات کر وں گا۔ ایک طویل عرصے بعد محکمہ تعلیم سندھ اور چین کی یونیورسٹیز کے درمیان صوبے کے طلبہ کو چینی زبان سیکھا نے کے معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں صوبے کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 61 طلبہ و طالبات کو چین بھیجا جائے گا۔ جمعہ کو محکمہ تعلیم سندھ اور چین کی جامعات کے درمیان معاہدے کی تقریب سندھ اسمبلی کمیٹی روم میں ہوئی جس میں سندھ کے وزیر تعلیم جام مہتاب ڈہر اور چین کے وائس قونصل جنرل یانگ پینگ سمیت دیگر حکام نے شرکت کی۔ معاہدے کے تحت چین کی حکومت چینی زبان سیکھنے والے طلباء کو اسکالر شپ فراہم کرے گی۔ پہلے مرحلے میں کراچی، لاڑکانہ، سکھر ، حیدرآباد ، ٹھٹھہ اور دادوکے طلبہ کے کوائف فراہم کئے گئے۔ اس موقع پر وزیر تعلیم سندھ جام مہتاب ڈہر نے میڈیا کو بتایا کہ چین کی حکومت کے ساتھ یہ پانچ سالہ معاہدہ ہے جس کے تحت سندھ بھر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو چینی زبان سیکھنے کے لئے چین بھیجا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ چین سے بہتر تعلقات کے لئے چینی زبان سکھائی جا رہی ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ طلبہ چینی زبان سیکھ کرترقی کے بہتر مواقع حاصل کر سکتے ہیں۔جام مہتاب ڈہر نے یہ بھی بتایا کہ چینی زبان سیکھنے کے لئے اسکالر شپ پر بھیجے گئے تمام طلبہ سرکاری اسکولوں اور کالجوں سے لئے گئے ہیں۔یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا پانچ سال میں اسکالر شپ پر بھیج بھیج کر چار پانچ سو طلبہ کو چینی زبان سکھا کر دونوں ممالک کے عوام کو قریب لایا جا سکتا ہے یا اسکالر شپ پر بھیجنے کا سندھ حکومت کا یہ منصوبہ اپنے اپنوں کو نوازنے کا ایک اور طریقہ ثابت ہو گا؟ کیا سندھ حکومت کے اس منصوبے سے عوام چینی زبان سیکھ پائیں گے یا پھر یہ معاملہ سندھ حکومت میں بیٹھے افراد کے عزیز ، رشتہ داروں اور قرابتداروں تک ہی محدود رہے گا؟ جس طرح کا ہمارا معاشرہ ہے اس میں تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ چینی زبان سیکھنے کے لئے جانے والے اکثر طلبہ وہ ہوں گے جن کی حکمرانوں سے براہ راست یا بلواسطہ رشتہ داریاں یا قرابتداریاں ہوں گی ۔ چلئے تھوڑی دیر کے لئے یہ بھی مان لیا جائے کہ چینی زبان سکھانے کا یہ سلسلہ ہر قسم کی سفارش اور پرچی سسٹم سے پاک ہو گا تو بھی عام لوگوں تک سندھ حکومت اور چینی جامعات کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کا فیض نہیں پہنچ پائے گا۔ پاکستان یا سندھ میں چینی زبان عام کرنے کے لئے دونوں ممالک کی لیڈر شپ کو ذرا مختلف انداز سے سوچنا پڑے گا۔ اگر سندھ حکومت واقعی سندھ کے عوام میں چینی زبان کو عام کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے اسے سرکاری سطح پر چینی زبان سکھانے کے لئے ہر شہر اور دیہات میں درجنوں سینٹر قائم کرنے ہونگے جبکہ تعلیمی نصاب میں بھی چینی زبان کو شامل کرنا پڑے گا لیکن اس میں سندھ حکومت کو سب سے بڑا مسئلہ فنڈز کا درپیش رہے گا۔ اس سلسلے میں چینی حکومت سے بات کی جا سکتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اس قسم کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جس کے تحت چین کی حکومت سندھ حکومت بلکہ تمام صوبائی حکومتوں کو چینی زبان سیکھانے کے لئے سینٹرز کے قیام کے لئے فنڈز فراہم کرے ۔ چین کی حکومت اس وقت پاکستان یا صوبہ سندھ کے طلبہ پر چینی زبان سکھانے کے لئے جتنی سرمایہ کاری کر رہی ہے اتنی ہی یا اس سے تھوڑی زیادہ سرمایہ کاری کر کے سندھ سمیت پورے پاکستان میں چینی زبان سکھانے کے سینٹرز قائم کئے جا سکتے ہیں اور عام طلبہ و طالبات میں چینی زبان سیکھنے کا رحجان بڑھایا جا سکتا ہے یا تعلیمی نصاب میں چینی زبان کو شامل کر کے ملک میں چینی زبان کو زیادہ سے زیادہ مقبول کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین دنیا کی ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے اور مستقبل میں اس کی پوزیشن اور بھی زیادہ مستحکم ہو جائے گی۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ نہ صرف چین پاکستان پڑوسی ہے بلکہ اس وقت ساری دنیا میں چین ہی پاکستان کی پشت پر ایک سچے دوست کی حیثیت سے کھڑا نظر آ رہا ہے لیکن یہ پاکستانی حکومت اور پاکستان کے عوام کی غفلت ہے کہ انھیں نہ تو چینی زبان آتی ہے اور نہ ہی سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر یہ زبان سیکھنے کی بہت زیادہ کوشش کی جا رہی ہے۔ جس طرح پاکستان اور چین کے درمیان خوشگوار تعلقات مزید مستحکم ہو رہے ہیں اور سیپیک جیسے منصوبوں پر چین 46ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کر رہا ہے ، اس اعتبار سے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی زبانوں کو اپنے اپنے ملک میں پروموٹ کرنے کی بھی ضرورت ہے تاہم چین اگر اپنے ملک میں اردو زبان پروموٹ نہیں بھی کرتا ، کیونکہ اردو زبان شاید چین کی اتنی بڑی ضرورت نہیں ، تو بھی پاکستان کی حکومت کو اپنے ملک میں چینی زبان سکھانے کے لئے بہت زیادہ سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے جبکہ دوسری طرف فارسی زبان سیکھ کر بھی پاکستان کے لوگ ایران، افغانستان سمیت وسعت ایشیا کی ریاستوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جس طرح ہمارے لئے چینی زبان نہایت اہم ہے کہ جو ہمیں اپنے بچوں کو سکھانی چاہیے اسی طرح ہمارے لئے فارسی زبان بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے، فارسی زبان کے حوالے سے بھی ہماری حکومتوں کو سنجیدگی اور سیاسی انداز سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو چین اور ایران دونوں ممالک کی حکومتوں سے چینی اور فارسی زبانیں سیکھانے کے سینٹرز کے قیام اور ان سینٹرز کا جال سارے ملک میں پھیلانے کے لئے باضابطہ طور معاہدے کرنے کی ضرورت ہے ۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 74877 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.