اسلام آباد کی کشمیر پالیسی ’’سعی لاحاصل ‘‘

ایک کہانی مشہور ہے کسی مملکت کا ایک بادشاہ تھا ایک روزاس نے دربار سے خطاب کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آج مابدولت اس شہر کو جلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔اس دوران وہاں حاشیہ برداروں ووفاداروں پر مشتمل درباری وزراء میں سے کئی ایک نے بڑے جذباتی انداز میں کہا ! بادشاہ سلامت شہر حاضر ہے آپ اپنا شوق پورہ فرمائیے شہرکا کیا ہے پھر آباد ہو جائے گا ۔

ہمارے بزرگوں نے ہمیں پڑھایا اور سکھایا کہ ہم مملکت پاکستان کے خیر خواہ ضرورہیں لیکن وفادار مادر وطن کشمیر کے رہیں گے پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے اس لئے ہم بحیثیت کشمیری اسلام آباد کی کشمیر پالیسی پر تنقید کرنے کا پورہ حق رکھتے ہیں اور جب ہم ماضی کی کشمیر پالیسی کا طائرانہ جائزہ لیں تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ریاست جموں کشمیر میں ڈوگرہ شاہی کے ظالمانہ نظام کے خلاف و جمہوریت کے قیام کی تحریک صدی کے اوائل سے شروع ہو ئی اوراس تحریک نے صدی کے تیسرے عشرے میں پہنچتے ایک نیا رخ اختیار کیاتب ریاستی لوگوں نے اپنے جمہوری حقوق کے حصول کے لئے جانوں کے نظرانے دینا شروع کردیے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں متحدہ آزاد ہندوستان کی تحریک چل رہی تھی اور پاکستان کے قیام کا کوئی تصور تک نہ تھا پاکستان کا مطالبہ تب ہوا جب کشمیری اپنی تحریک کو منقی انجام تک لے جا چکے تھے اور ریاست میں بنیادی جمہوری اصلاحات کا آغاز ہو چکا تھابدقسمتی سے ہندوستان تقسیم ہو گیا اور وجود میں آنیوالے دو ممالک ’’کشمیر‘‘ کے دعویدار بن گئے ۴ ،اکتوبر کو مقامی لوگوں نے مظفر آباد ،پونچھ اور میر پور کو ڈوگرہ فورسز سے خالی کروا کر یہاں ایک انقلابی حکومت کا علان کردیا تھا لیکن اس کے فوراً بعدپہلی بار22اکتوبر47پاکستان کی جانب سے اس تحریک پرکنٹرول حاصل کرنے کے لئے سرحدی قبائلی لشکر کشمیر میں داخل کئے گئے جس کے باعث ہماری تحریک کو ایک بڑا دھچکا لگااورکشمیر تقسیم ہوگیا ،خوش قسمتی سے مسئلہ بین الاقوامی حثیت اختیار کر گیا اور اقوام عالم نے 13 اگست48 کو ہم سے وعدہ کیا کہ وہ بہت جلد ہمیں ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا آزادانہ حق دیں گے جو ہمارے لئے ایک نئی امید بنا لیکن اس کے صرف ایک سال بعد ہماری یہ امید اس وقت دم توڑ گئی جب پاکستان کی درخواست پر5جنوری49کو اقوام متحدہ سے ایک اور قرارداد پاس کروائی گئی جس کے تحت ہمارے حق خود ارادیت کو الحاق ہند و پاک تک محدود کر وا دیا جس کا مقصد بھی یہی تھا کہ کشمیری کہیں آزاد ملک قائم نہ کر لیں اورپھراس کے ایک عشرہ بعد ہمیں اعتماد میں لئے بغیرآپریشن جبرالٹر شروع کیا گیا جس میں زیادہ تر کمانڈوز کا تعلق کشمیر سے تھا جنہوں نے انڈین مقبوضہ علاقہ میں موجود انڈین فورسز کی تمام سپلائی لائنز پر کنٹرول حاصل کر لیا نتیجتاً انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا اور ساتھ ہی پاکستان پر عالمی سیاسی دباو بڑھا تو اسلام آباد نے آپریشن کو سٹاپ کرنے اورکمانڈوز کو واپسی کا حکم دیابعد ازاں بھارت نے پاک فورسز کی مدد کے شعبے میں ستر ہزار ہموطنوں کو موت کے گھات اتارا۔پھر ایک بار گنگاجہازکا اغوا ہوا تواسکے ہائی جیکرز کوقومی و بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی اور اس اہم ترین قربانی کے نتیجہ میں کشمیر اقوام عالم کی نظروں میں آیاتو ہائی جیکرزکو قومی ہیرو قرار دیا گیا اور ان کے ساتھ تصویریں بنوائی گئیں جونہی ایک بار پھر غیر ملکی سیاسی دباو بڑھا توکشمیر سے محبت یکدم محو ہو گئی اور انہیں کشمیری ہیروز کو عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شملہ میں کشمیر کی حمائت سے یکسر دستبرداری پر دستخط اور کشمیری وفد کو اسلام آباد میں بیٹھ کر دوٹوک جواب دے دیا گیا اور جونہی شیخ عبداﷲ نے اندرا گاندھی سے معائدہ کیا تو اسلام آباد ہزار سال جنگ لڑنے کی بھڑک مار کر کشمیریوں کو بے وقوف بنانے لگا اور پھر لڑکھڑاتی ڈگمگاتی تحریک آزادی نے 88میں ایک نیا موڑ لیا، ریاست میں بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا، بے مثال قربانیوں کے باعث تحریک آزادی کشمیر اقوام عالم میں مقبولیت حاصل کر نے لگی تو اسلام آباد میں موجو داس تحریک کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کو خواہش مند عناصر کے شوق نے ایک بار پھر جوش مارا، اوروہ اسے ہتھیانے کے لئے لاکھوں شہداء کے خون کیساتھ کھلواڑ کرنے لگے نتیجتاً ہمارے شہداء کے خون سے سینچی اس تحریک کو بھارت بیرونی ’’ پاکستانی‘‘ مداخلت ثابت کرنے میں کامیاب ہوا، اور ہم عالمی حمائت سے محروم ہو گئے، یہاں تک کہ 9/11کے بعد بھارت کوریاست میں فری ینڈ مل گیااور پاکستان پھرایک بار عالمی دباو کے باعث بھارت کو صفائیاں پیش کرتا اور کئی بار بھارت سے محض بات کرنے کی شرط پر مسئلہ کشمیر سے مکمل طور پر لاتعلقی اختیار کرنے پر بھی آمادہ نظرا ٓیا اور اس نے انہیں بارہا یقین دہانی کروائی کہ اسلام آباد اپنے کنٹرول والے علاقوں کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دیتاہے جس کا صاف مطلب یہ کہ لائن اف کنٹرول کے اس پار والے کشمیریوں کو روکنے کی ہم زمہ داری لیتے ہیں جو کہ کشمیر کاز کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے اور آج پھر ایک بار کشمیر کے اس حصے میں تحریک نے زور پکڑا ،قربانیوں کا ایک لامتنائی سلسلہ شروع ہوا عالمی برادری متوجہ ہوئی اور بھارت پر دباو بڑھا تو اس نے بات کرنے کا اشارہ دیا تو اسلام آبادحسب روائت بچھ بچھ جانے لگا ۔موجودہ جاری جدوجہد میں جہاں سینکڑوں شہید، ہزاروں زخمی ہو چکے اور اس بار بھارتی افواج نے جانوروں کے شکار کیلئے استعمال کی جانیوالی پیلٹ گن کا ستعمال کرکے سینکڑوں لوگوں کو زندگی بھر کے لئے معزور کر نے کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا ہے اوراس دوران برسوں سے ’’امن کی آشا‘‘ سے متاثرہ پاکستانی میڈیا جومسئلہ کشمیر سے تقریباً لاتعلقی اختیار چکا تھااچانک جیسے گہری نیند سے بیدار ہوا اور رات دن ہماری اس مقامی و حقیقی تحریک مذمت کو پاکستانی تحریک ثابت کرنے میں جھٹ گیاہے ۔وہ روزانہ نت نئے انداز میں وہاں کے خون آلود احتجاج کے ویڈیوز میں کچھ پاکستانی جلسوں سے لئے چند پاکستانی پرچم والے کلپ ’’ایڈیٹ ‘‘ کر کے دکھاتا ہے جس کے باعث بھارت کو بنا کچھ تردد کے عالمی سطح پر اس موجودہ تحریکی فیز کو پاکستانی شرارت ثابت کر نے میں بھرپور مدد ملی ۔بلا شعبہ یہ ایک المیہ ہے ہمارے ساتھ ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے کہ دنیا جب ہماری تحریک کو خالصتا ہماری جدوجہد سمجھتے حمائت کا عادہ کرنے لگتی ہے اسلام آباد میں بیٹھے مسئلہ کشمیر کے نام نہاد چمپئن اس کا کنٹرول حاصل کرنے کا کھیل کھیلنے لگتے ہیں ہمارے جذبوں آہوں سسکیوں و قربانیوں سے سینچی اس تحریک کی جڑوں میں کتنی نسلوں کا خون شامل ہے اس سے بے پرواہ یہ وقت کے شہزادے بس اپنا ’’شہر کو جلتا دیکھنے کا ‘‘شوق پورہ کرنے پر بضد نظر آتے ہیں اور اس پر ستم یہ کہ وہ تمام حاشیہ بردار ،درباری کشمیری انہیں احساس دلانے کے بجائے یہی کہتے ہیں کہ جناب آپ اپنا شوق پورہ کیجئے ’’ کشمیری خون دینے ۔مرنے ،سسکنے ،‘‘ کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں مذید پیدا ہوتے رہیں گے اور مرتے رہیں گے ۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 75080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.