دوسال قبل سوشل میڈیا پر جبارواصف سے
اِن کے دکھ درد بھرے،غموں سے لپٹے اشعار پڑھ کر دوستی ہوئی ،اسی دوران میں
نے اجازت لے کر ان کی بہت ساری شاعری کو اپنے کالموں کا حصہ بھی بنایا ۔ایک
دن ان کی پوسٹ لگی کہ ان کا شعری مجموعہ ’’میری آنکھوں میں کتنا پانی ہے‘‘
بہت جلدقارئین کے لئے دستیاب ہوگا ،پھر ان کا میسج بھی آگیا کہ چودھری صاحب
ایڈریس دیں ،آپ کو کتاب بھجوانی ہے ،کتاب تو بہت دنوں سے آگئی تھی اور
تھوڑا بہت پڑھا بھی تھا مگر ابھی تک اس پر لکھا نہیں جاسکاتھا،وجہ میری
ذاتی مصروفیات کہہ لیں ،ایک بار پھر کتاب کا مطالعہ شروع کر دیا ۔اور اس
بار کتاب ’’میری آنکھوں میں کتنا پانی ہے‘‘ کو مکمل پڑھ کر ہی دم لیا، سب
سے پہلے بات کرتے ہیں محترم جبار واصف کی جو رحیم یار خان کی ادبی تنظیم
علم وادب کے صدر بھی ہیں ،اﷲ پاک نے جبار واصف کو بہت ساری صلاحیتوں اور
خوبیوں سے نوازا ہے ۔
نامور شاعر جبار واصف اکیسویں صدی کے فطری شاعر ہیں ، انہوں نے اپنی شاعری
میں ایک عام آدمی کی زندگی کے حوالے سے بہت ہی خوبصورت انداز میں اپنے قلم
سے قرطاس پر اتارا ہے ، انہوں نے معاشرے کی حقیقتوں کو پوری ایمانداری اور
سچائی کے ساتھ لکھا ہے۔ جبارواصف کی شاعری کا ایک انوکھا اور الگ ہی انداز
ہے ،سب سے جدا ، سب سے مختلف، اگر آپ کبھی ان کی چار پانچ غزلیں اور نظمیں
پڑھ لیں پھر کبھی آپ کو دوبارہ پڑھنے کا اتفاق ہو اور شاعر کا نام بھی نہ
لکھا ہو تو آپ فوری پہچان جائیں گے کہ یہ اشعار تو جبار واصف کے ہیں ،ان کی
شاعری کی ایک اپنی الگ ہی پہچان ہے اور شاعری بھی ایسی کبھی نہ بھولنے والی
ایک با ر پڑھ لیں تو بار بار پڑھنے کو جی چاہے۔جس غزل پر کتاب کا نام رکھا
گیا ہے یہ بڑی خاصے کی ہے ،آپ دوستوکے ذوق تسکین کے لیے مکمل پیش کرتا ہوں۔
میرے الفاظ پرجوانی ہے
میری غزلوں پرزندگانی ہے
جاکے دریا کو یہ بتا دوتم
میری نظموں میں بھی روانی ہے
یونہی شاعر نہیں بنا ہوں میں
اس کے پیچھے کوئی کہانی ہے
کتنے ویراں ہیں شاعری کے ہاتھ
میں نے ان پر حنا لگانی ہے
فن کی ماچس خدا نے دی ہے مجھے
میں نے شمعِ سخن جلانی ہے
میری بولی ادب کی منڈی میں
میرے اشعار نے لگانی ہے
اس زمیں میں کئی زمانوں تک
میں نے ہی شاعری سنانی ہے
یعنی میرے قلم کے ذمے ہی
دہر کے دکھ کی میزبانی ہے
میر ا دیوان رو پڑا تو کھلا
میری آنکھوں میں کتنا پانی ہے
انہوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’’میری آنکھوں میں کتنا پانی ہے‘‘ میں دنیا
بھرکی تلخ وشیریں حقیقتوں کو بیان کیا ہے۔ان کی شاعری میں زمین سے لے کر
آسمان تک ، انسان سے لے کر حیوان تک ، انسان سے لے کر انسانیت تک، شاعر سے
لے کر شاعری تک ، صحافت سے لے کر سیاست تک ،امیر سے لے کر غریب تک ، ہر
جاندار سے لے کر بے جان تک ، چھوٹے سے لے کر ہر بڑے رشتے تک ، ایک چھوٹے سے
گاؤں سے لیکر بڑے شہر تک ،زندگی سے لے کر موت تک، عام سے لے کر خاص تک ہر
ایک موضوع کو استعمال کیا گیاہے ۔ جبار واصف اپنی آنکھوں سے لوگوں کے دکھ
درد دیکھتا ہے
اور اپنے دل سے ان پر مرہم لگاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ
میری تحریر میں کچھ یوں بھی اثر رکھا ہے
میرے قرطاس پہ احساس کا سر رکھا ہے
جو مجھے دکھا ئی دیتا ہے وہی لکھتا ہوں
میری آنکھوں میں مرا سارا ہنر رکھا ہے
جبار واصف بارگاہ رسالت میں ہدیہ نعت پیش کرتے ہیں۔
میں پہلے آبِ زم زم سے تطہیر کرتا ہوں
پھر اُس کے بعد کاغذ پر نبیؐ تحریر کرتا ہوں
مرا قرطاس جب دُھل جائے آبِ گریہ زاری سے
تب اس پر گنبدِ خضرا کو میں تصویر کرتا ہوں
گو جبار واصف غزل گو شاعرہیں لیکن وہ نظم میں بھی کمال رکھتے ہیں اور اس
خوبصورت اندز بیاں سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی شاعری دل کو
چھو جاتی ہے ، ارتقا، تشکیک، دوست شکاری، انصاف نچایا جاتا ہے، صدرجی جیسی
کئی لازوال نظمیں مجموعے کا حصہ ہیں۔وہ اپنی مختصر نظموں میں بھی چندلفظوں
سے مکمل طور پر اپنی بات کو قاری کو سمجھا دیتے ہیں ، ان کی مختصر اور موثر
شاعری اس بات کی غمازہیں کہ وہ کس طرح لفظو ں کے موتیوں کو پروتے ہیں
۔عوامی شاعر حکومت
سے عوام کے لئے التجا کرتا ہے ۔
جب اس رعایا کے آنسوؤں کا
کوئی مداوا نہیں ہے ممکن
تو اے مرے پرخلوص حاکم
تم اس کے سپنے تو بیچتے ہو
تم اس کی آنکھیں بھی بیچ ڈالو!
جبار واصف اپنی زندگی کے شب وروز اور بیتے لمحوں کو کبھی نہیں بھول سکتا
کیوں کہ اس نے اپنی زندگی کے نشیب وفراز کو سپردِ قرطاس کر دیا ہے، تاریخ
لکھی جاچکی ہے کہ جبار واصف نے اگر عشق کیا تو صرف اپنی شاعری سے ،اپنے
لفظوں سے ہی کیا ہے ۔وہ اپنے خونی رشتوں سے محبت کا اظہارکچھ اس طرح سے
کرتے ہیں ۔
وہ جس کے قدموں میں جنت ہے ہاتھ میں تسبیح
اسی کی ذات مری ذات کا حوالہ ہے
۔
اپنے بچوں کو دیکھ کر مجھ کو
اپنی بیوی پہ پیار آتا ہے
۔
باپ سے ملتی ہے شوہر سے اجازت لے کر
بیٹی رخصت ہو تو حق دار بدل جاتا ہے
جبار واصف کو اگرشاعر حقیقت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ، انہیں متوسط اور
مظلوم طبقے کا شاعر بھی کہا جاسکتا ہے ۔ جبار واصف نے ہمارے معاشرے کے ہر
ایک دکھ درد کو سمیٹ کرایک کوزے میں بند کر دیا ہے ،اور خاص کر آج کے
معاشرے کے دکھوں اور غموں کو سمیٹنا جہاں کوئی کسی کے دکھ درد کا ساتھی
نہیں ، کوئی کسی کا اپنا نہیں ،یہ جبار واصف کا ہی حوصلہ ہے کہ سب کے دکھوں
کا مداوا بن گیا ہے ۔جبار واصف معاشرے کے محنتی اور جفا کش مزدور کے عالمی
دن کے حوالے سے
اپنا حال دل بیان کرتے ہیں۔
ہاتھ اور پاؤں بتاتے ہیں کہ مزدور ہوں میں
میرا ملبوس بھی کہتا ہے کہ مجبور ہوں میں
بات سنتا نہیں کوئی مری ایوانوں میں
سب کے منشُور میں گو ’’صاحبِ منشُور‘‘ ہوں میں
یومِ مزدور ہے ، چھٹی ہے ، مرا فاقہ ہے
پھر بھی یہ دن تو مناؤں گا کہ مزدور ہوں میں
جبار واصف قوم کے معماروں کو اور اپنے اساتذہ کو کیسے بھول سکتے ہیں، ان
اساتذہ کے پیار و محبت ،خلوص و
عظمت کایوں اظہار کرتے ہیں۔
ہماری درسگاہوں میں جو سب اْستاد ہوتے ہیں
حقیقت میں یہی تو قوم کی بنیاد ہوتے ہیں
ان کی شاعری دلوں پر گہرا اثر چھوڑتی ہے جیسے جبار واصف اپنے رب کریم سے
ہمکلام ہوتے ہیں اور التجا کرتے
ہیں اور کہتے ہیں۔
اے خدا فاقہ کشوں پر مہربانی کیجئے
رزق کی تقسیم پر کچھ نظرِ ثانی کیجئے
خود کشی کر لی ہے پھر اِک ماں نے سب بچّوں سمیت
جا کے بُھوکی میّتوں پر گُل فشانی کیجئے
میرے خیال میں جبار کو ہر فن مولا کہنا چائیے ، کیونکہ مو ضوع کوئی بھی ہے
انہوں نے کمال مہارت کے ساتھ پورا
پورا نصاف کیا ہے ، مجھے تو وہ گلی گلی محبت کے پھول فروخت کرتا نظر آیا ہے
۔
گلی گلی یوں محبت کے خواب بیچوں گا
میں رکھ کے ریڑھی پہ تازہ گلاب بیچوں گا
رہی جو زندگی میری تو شہر ظلمت میں
چراغ بیچوں گا اور بے حساب بیچوں گا
جبار واصف کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شاعری کے پہلے شعری مجموعہ ’’میری
آنکھوں میں کتنا پانی ہے‘‘ کی اشاعت پر مبارک پیش کرتے ہیں۔اور ان کی کتاب
کی کامیابی کے لئے دُعا گو ہیں۔ |