گلگت بلتستان کے مغرب میں تاجکستان ہے
تاجکستان پہنچنے کے لئے گلگت بلتستان اور پاکستان کے لئے سب سے بڑا درپیش
مسئلہ افغانستان کا واخان بارڈر ہے اس 10کلومیٹر کے واخان بارڈر کو واخان
کوریڈور بھی کہتے ہیں اس کوریڈور کی پہنچ سنٹرل ایشیا،جنوبی ایشیا اور
مغربی ایشیائی ممالک تک باآسانی سے ہے ۔پاکستان کو ان ایشیائی ممالک تک
اپنی تجارت کو وسعت دینے کے لئے واخان بارڈر کے ساتھ معاہدہ انتہائی ضرور ی
تھا ۔
ماضی کے چند سالوں میں پاکستان نے افغانستان کو اپنا ہمسایہ سمجھ کر اس کو
کئی سہولیات فراہم کیئے اور ٹیکنالوجی کی فراہمی میں مدد کی اور سب سے اہم
کام افغانستان میں ریلوے ٹریک کے لئے پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا ۔جب سے
چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے دستخط اور معاہدے طے پاگئے اس
وقت سے افغانستان میں پاکستان سے زیادہ مداخلت اور اثر رسوخ انڈیا کی چلنے
لگی چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف چلنے والے سازشوں کے
لئے انڈیا نے افغانستان کو اپنا اڈہ بنالیا ہے 46ارب ڈالر کے منصوبے کو
نقصان دینے اور اس کو ناکام بنانے کے لئے انڈیا نے 36لاکھ ڈالر ابتدائی طور
پر مختص کردئے ہیں جو کہ انڈیا سے افریقی ممالک،دبئی ،ترکی اور افغانستان
سے ہوتے ہوئے پاکستان میں داخل ہونگے سی پیک (چائینہ پاکستان اقتصادی
راہداری منصوبے ) کو نقصان پہنچانے کے لئے مختص کی گئی یہ رقم افغانستان تک
آف شو ر کمپنیوں کے تحت پہنچے گی اور افغانستان سے پاکستان یہ رقم غیر ملکی
سیاحوں کے زریعے آئے گی ۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی تجویز پر پاکستان نے افغانستان
سے اپنے برادرانہ تعلقات اور ٹیکنالوجی سمیت ریلوے کی فراہمی اور مدد کے
بدلے میں ان سے واخان بارڈر کو ’لیز ‘پر دینے کے لئے باقاعدہ درخواست دی اس
درخواست سے بھی اہم افغانستان کی جانب سے آیا ہوا جواب تھا افغانستان نے
ایک شرط پر یہ بارڈر پاکستان کو لیز پر دینے پر آمادگی ظاہر کی وہ یہ کہ
’اگر پاکستان سی پیک منصوبے میں واہگہ بارڈر کے زریعے انڈیا کو بھی اپنا
حصہ دار بنائے گا تو افغانستان پاکستان کو واخان بارڈر لیز پر دینے کے لئے
تیار ہوگا‘۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چائینہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ پروڈیکٹس
فراہم کررہا ہے لیکن درپیش مسئلہ اور ممکنہ طور پر سی پیک کا نظریہ یہ ہے
کہ چائینہ دنیا کو یہ پراڈکٹس پہنچانے میں سخت مشکلات کا شکار ہے اس وقت
80فیصد چائینہ کا تیل (China's Oil)شنگھائی سے ملائیشیا کے زریعے دیگر
ممالک کو برآمد کیا جارہا ہے یہ سفر 16ہزار کلومیٹر راستے پر محیط ہے اور
اس کے لئے 3ماہ تک کا عرصہ لگ رہا ہے اگر یہ راستہ شاہراہ قراقرم کے زریعے
گوادر پورٹ تک پہنچے تو صرف 5ہزار کلومیٹر فاصلہ رہ جاتا ہے جس کا سفر 1دن
سے زیادہ نہیں ہے ۔
چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک ) کی ابتداءگلگت بلتستان سے ہے یعنی
گلگت بلتستان گیٹ وے ہے گلگت بلتستان محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 4ہزار
ٹن چیری ، 20ہزار ٹن سیب ، 1لاکھ ٹن اخروٹ (ایشیئن ڈویلپمنٹ بنک کے
مطابق)پیدا کرتا ہے ان پھلوں کی ترسیل کے لئے منصوبہ بندی نہیں ہے جس کی
وجہ سے زیادہ مقدار میں پھل ضائع ہوتے ہیں اس وقت صرف شاہراہ قراقرم ہی
واحد راستہ ہے جس کے زریعے ان پھلوں کو ملکی دارالحکومت اسلام آباد پہنچایا
جاتا ہے جہاں سے ہوائی جہاز کے زریعے دیگر ممالک تک پہنچاتے ہیں گزشتہ سال
(TheThirdPole) کے مطابق قراقرم نیشنل ریسورس نامی نجی کمپنی نے 30ٹن چیری
اور 100ٹن سیب بیچ کر 1لاکھ 90ہزار امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ۔بدقسمتی
سے اگر شاہراہ قراقرم کسی آفت کی وجہ سے بند ہوجائے تو گلگت بلتستان ملک کے
دیگر علاقوں سے مکمل کٹ کررہ جاتا ہے اور نہ صرف پھل خراب ہوتے ہیں بلکہ
اسلام آباد سے گلگت کے لئے بھی ہر قسم کی ترسیل بند ہوجاتی ہے سی پیک
منصوبے کے زریعے نہ صرف مقامی پھلوں اور دیگر اشیاءکو بین الاقوامی سطح پر
متعارف کرانے میں آسانی ہوگی بلکہ ان کی قیمتیں بھی مستحکم ہونگی اگر گوادر
پورٹ گلگت بلتستان کے اشیاءپہنچ گئے تو وہاں سے دیگر ممالک کو سپلائی دینے
میں بھی آسانی ہوگی ۔یہ فائدے حکومتی سطح کے اقدامات سے بالکل نیچے ہیں
حکومت کو اس محاز پر جنگ نہیں لڑنی ہے ۔ اگر آپٹیکل فائبر سے گلگت بلتستان
میں مواصلات کا نظام بہتر ہوجائے تو یہاں کی عوام دنیا کے مزید قریب ہوسکتی
ہے اس وقت معمول میں کئی روز بلکہ مہینے پیچھے ہے ۔اس کے علاوہ گلگت
بلتستان میں بڑے سطح پر تعلیمی ادارے بھی متعارف کرائے جارہے ہیں حال ہی
میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں انجینئرنگ فیکلٹی کا سنگ بنیاد بدست
وفاقی وزیر احسن اقبال رکھ دیا گیا جس میں الیکٹریکل، سول ،I.Tاور دیگر
شعبے ہونگے ۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت گلگت بلتستان میں جاری تین منصوبوں کی
لاگت پورے پاکستان میں جاری تمام منصوبوں سے مہنگے ہیں جن میں دیامر ڈیم
،ریجنل گرڈ کا قیام اور پھر اسے نیشنل گرڈ سے منسلک کرنا سمیت ایک اور
منصوبہ ہے ریجنل گرڈ کا قیام اور پھر اسے نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے سے گلگت
بلتستان کو یہ فائدہ ہوگا کہ گلگت بلتستان میں 50ہزار میگاواٹ کے قریب بجلی
پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ جی بی کی ضرورت اور طلب سینکڑوں میں ہے
اور دیگر بجلی کسی بھی دوسرے کو ضلع ، صوبے یا کسی بھی ملک کو آسانی سے
بیچا جاسکتا ہے ۔
قارئین کرام !اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک نہ صرف گلگت بلتستان اور
پاکستان بلکہ اس پورے خطے کے لئے گیم چینجر ہے یہ منصوبہ مستقبل میں معاشی
طاقتوں کا فیصلہ کریگا ۔گلگت بلتستان اس راہداری منصوبے کا سب سے اہم اور
لازمی جز ہے لیکن گلگت بلتستان کے عوام اس منصوبے میں علاقے کو نظر انداز
کئے جانے پر بالکل مطمئن نہیں ہیں 31اگست اور یکم ستمبر کو سی پیک کانفرنس
کے انعقاد کے بعد ہی برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی )نے رپورٹ چلائی
جس میں پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ ، تحریک
انصاف خواتین ونگ کی صوبائی آرگنائزر آمنہ انصاری ، عوامی ایکشن کمیٹی و
ایم ڈبلیو ایم کے رہنما آغا علی رضوی ، اور پارلیمانی سیکریٹری برائے منرلز
و رکن اسمبلی مسلم لیگ ن اقبال حسن کا موقف تھا بلکہ تحفظات کااظہار تھا
آمنہ انصاری نے سی پیک کمیٹی میں جی بی کی نمائندگی پر سوال اٹھایا،امجد
حسین ایڈوکیٹ نے 6ہزار کنال زمین بغیر ادائیگیوں کے الاٹمنٹ کے باوجود حصہ
بلکہ جی بی کی حیثیت کا سوال اٹھایا ،آغا علی رضوی نے بھی آئینی حیثیت کے
تعین اور حق پر اپنے تحفظا ت کااظہار کیا حیرت کی بات یہ کہ ن لیگی رکن
اسمبلی اقبال حسن بھی حکومتی پالیسی واضح کرنے میں ناکام رہے ۔سی پیک
کانفرنس جیسا اہم قدم جس کا اہتمام قراقرم یونیورسٹی گلگت بلتستان کے تعاون
سے صوبائی حکومت نے کیا تھا ،کے بعد بھی گلگت بلتستان کے عوام میں مایوسی
اور ناامیدی ہی ہے ۔جلتی پر تیل کا کام کرنے والے مختلف اداروں کے تفصیلات
ہیں جن میں گلگت بلتستان کا کوئی زکر نہیں ان نقشوں میں ترقیاتی سکیموں کی
ابتدا ایبٹ آباد کے قریب سے بتائی جارہی ہے خود منسٹری آف پلاننگ اینڈ
ڈویلپمنٹ کے ویب سائٹ پر جاری ہائی ویز کی تفصیلات ،ریلویز کی تفصیلات میں
خنجراب سے ایبٹ آباد تک صرف سڑ ک ظاہر کیا ہے ۔
اقتصادی راہداری منصوبہ کی اہمیت کی ایک چھوٹی سی جھلک اس کالم کے شروع میں
بتائی گئی ہے اس میگاپراجیکٹ کے دیکھ بھال کے لئے قائم کمیٹی میں گلگت
بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے جبکہ گلگت بلتستان سے وزیراعلیٰ کے علاوہ کوئی
ایسی شخصیت نہیں ہے جو سی پیک منصوبے کے بارے میں عوام یا صحافیوں کو بریف
کریں اس وقت صوبائی حکومت کے پاس شعبہ صحافت سے یا اطلاعات سے وابستہ افراد
کی بڑی تعداد موجود ہے جن میں اشرف صداترجمان مسلم لیگ ن ،فاروق میر ترجمان
مسلم لیگ ن ، فیض اللہ فراق ترجمان صوبائی حکومت (ان کے گزشتہ تحریروں میں
صوبائی حکومت کا کوئی موقف سامنے نہیں آسکا )اور محکمہ اطلاعات و دیگر شامل
ہیں بقول چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سی پیک منصوبے میں پہلے گلگت
بلتستان اور سنکیانگ ترقی کرینگے بعد میں چائینہ اور پاکستان ترقی کرینگے
۔ان کے اس واضح اعلان کے بعد مجھے نہیں لگتا اس منصوبے میں گلگت بلتستان کو
اس منصوبے میں نظر انداز رکھا جاسکے گا اس وقت 90فیصد عوام اس منصوبے سے
ناامید ہوگئے ہیں مسلم لیگ ن کے نسبت پیپلزپارٹی اور دیگر پارٹیوں کا عوام
سے رابطہ زیادہ ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان خود صوبائی حکومت کو ہے ضرورت
اس امر کی ہے کہ اس اہم منصوبے کے لئے بنائی گئی کمیٹی میں گلگت بلتستان کی
موثر نمائندگی ہو اور محکمہ اطلاعات یا کسی بھی زمہ دار شخصیت کو اس منصوبے
کی پبلک ریلشننگ کی زمہ داری سونپی جائے تاکہ عوام اور حکومت کے درمی&1604; کاکر#1575;ن ایک
پدار ادا کرسکے ورنہ بی بی سی کی رپورٹ مزید مستحکم ہوگی اور مایوسی
پھیلتی جائے گی ۔
|