ایران اور آل سعود کے تنازعات سے عام
مسلمان کو کوئی زیادہ جذباتی لگاؤ ہو یا نہ ہو ، لیکن یہ بات کسی عام
مسلمان کیلئے قابل برداشت نہیں ہے کہ حج جیسے عظیم فریضے میں ایران سمیت
کوئی بھی سیاست کرے۔خاص طور پرایران کا حج کے عظیم اجتماع پر سیاست کرنا ،
عام مسلمان کے نزدیک نا پسندیدہ عمل بن چکا ہے۔ ایران خطے میں مسلم ممالک
پر اپنی اجارہ داری چاہتا ہے اس لئے ہر مسلم ملک میں برادرانہ تعلقات کا
بہانہ بنا کر اس کے داخلی امور میں مداخلت کرنا ایران کا وطیرہ بن چکا ہے۔
میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ایران ، عالمی طور پر مسلم امہ کو کمزور
کرنے کا ذمے دار ہے ، جس مسلم مملکت نے مغرب کے سامنے طاقت ور بننے کی کوشش
کی ، ایران نے اپنی خارجہ پالیسیوں کے تحت اس ملک کو کمزور کیا ، اس ملک کو
خانہ جنگی میں مبتلا کیا اور پھر اس کا مشیر بن کر غیر اعلانیہ اس سورش شدہ
ریاست پر قابض ہوگیا۔ایران ، آل سعود جو اب، مکہ المکرمہ کے منتظم ہیں ،
اور اسلام کے سب سے اہم رکن کی نگہبانی ان کے حصے میں آئی ہے ، اس لئے سر
زمین حجاز کو یہ مقام روز اول سے ہی حاصل ہے کہ وہ حجاج اکرام کی میزبانی
کرے۔ ایران کی جانب سے یہ مطالبہ ، جیسے ان کی دیرینہ خواہش بھی کہا جاسکتا
ہے کہ حج کے انتظامات دوسرے مسلم ممالک کو بھی تقویض ہونے چاہے ،یہ ان کی
دلی خواہش اگر حب اسلام میں ہوتی تو اس پر سوچا بھی جاتا لیکن ایران کی
سیاست کا محور آل سعود کی مخالفت میں ہی ہے اس لئے سب نے یک زبان ہوکر
ایرانی مطالبے کو رد کرچکے ہیں۔بد قسمتی سے ایران مسلم امہ میں تفرقے کا
سبب بنا ہوا ہے ۔ تاریخی طور پر عجم میں سب سے پہلے اسلام ایران میں داخل
ہوا اور ہزاروں سال پر محیط آتش کدہ سرد ہوا ۔ لیکن اسلام کے نام پر کچھ
عناصر ایسے بھی تھے ، جنھیں اسلام کا عروج پسند نہیں تھا اس لئے انھوں نے
اسلام کے ابتدائی دور سے ہی اپنی سازشوں کا جال بننا شروع کردیا ۔حضرت محمد
ﷺ نے امت میں فتنے پیدا کرنے سے کا سدباب اس وقت ہی کر دیا تھا جب اسلام سر
زمین حجاز میں تبلیغ بھی نہیں ہوا تھا ۔ حجر اسود کواپنے مقام میں نصب کرنے
کیلئے اسود کو اپنی چادر مبارک میں رکھ کر تمام قبیلوں کے درمیان تنازعہ کو
ختم کردیا تھا کہ اگر ایک رسی کو ہم تھام لیں تو کبھی بھی تنازعات کا شکار
نہیں ہوسکتے ، کتاب اﷲ کو میزان بنایا اور اپنے ہر مسئلے کے حل کیلئے قرآن
کریم کی جانب رجوع فرمانے کا حکم فرمایا، حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ؛لیکر
حضرت محمد عربی ﷺ اور موجودہ دور تک سر زمین حجاز کو ہی یہ اعزاز رہا ہے کہ
وہ حجاج اکرام کی میزبانی کرے ۔ ایران ماضی میں ایک عظیم ریاست تھی، لیکن
اب نہیں ، یہ حقیقت ایران کو تسلیم کرلینی چاہیے۔ اسلام کے آگے آتش پرستوں
کا سرنگوں ہونا اور اسلام کا ایران میں داخل ہونا ، بھی سر زمین حجاز کو اس
مقدس فریضے سے نہیں روک سکا ۔ آتش کدے میں لگی آگ تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ
تعالی عنہ نے اپنے رفقا ء کے عزم و جلال و جہاد سے بجھا دی ، لیکن دلوں میں
حسد و رقابت کی آگ ، ان کی شہید کرانے سے بھی نہیں بجھی۔یہ آگ روز بہ روز
تیز ہوتی جا رہی ہے ۔ خلافت راشدہ سے لیکر سلطنت عثمانیہ تک ایران نے مسلم
امہ کے درمیان اتفاق و یکجہتی کو فروغ دینے کے بجائے ، فتنوں کو جنم دیا ۔
مسلم امہ کبھی ایک نہیں ہوسکی ، اور فرقوں میں بانٹی رہی۔ایران ایک مسلم
ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہے ، لیکن اس کا عوامل اسلام کے لئے
سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ عراق کے ساتھ ایران کی طویل جنگ نے عراق اور
پھر کویت کو جنگ میں اس طرح الجھایا کہ عراق آج تک امن کو ترس رہا ہے۔ شام
میں ایران نے اپنے عسکری گروہوں کو بھیج کر مسلسل خانہ جنگی میں الجھا دیا
ہے کہ شام میں امن آنے کا نام نہیں لے رہا ، عراق اور شام کی کٹھ پتلی
حکومتوں نے ایران کے فوجی مشیران کے ساتھ اپنی سر زمین کو میدان جنگ بنایا
اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو قحط ، خانہ جنگی اور ہجرت کا سامنا
ہوا ۔ایران کے سینے میں حسد کی آگ پھر بھی نہیں بجھی اور اس نے یمن میں
حوثی باغیوں کا ساتھ دیکر سعودی ریاست کے خلاف براہ راست محاذ کھول دیا۔
لبنان ، فلسطین سمیت ایران کی حمایت یافتہ عالمی دہشت گرد قرار دی جانے
والی تنظیم حزب اﷲ نے مسلمانوں کا سکون و امن کو چھین لیا۔ایران کی جانب سے
پاکستان کے خلاف بھی سازشیں طشت ازبام ہوئیں اور پاکستان کے خلاف بھارت کے
ساتھ ملکر ایران نے جو سازش رچی ، اس کا تمام احوال دنیا میں آشکار ہوچکا
ہے۔ ایران نے افغانستان میں بھی اپنی مداخلت بڑھائی رکھی اور افغانستان کی
زمین کو غیر ملکی جارحیت سے آزاد کرنے والے مزاحمت کاروں کے خلاف جنگجو
ملیشیا ترتیب دیکر ، پس پردہ استعماری قوتوں کا ساتھ دیا ۔پاک ، چائنا
اقتصادی راہدری نے کئی ممالک کے چہروں پر پڑے نقاب الٹ کر رکھ دیئے ہیں ،
اپنے اور غیروں کی پہچان واضح کردی ہے۔پاکستان کی عسکری قوتیں ان تمام
سازشوں کا جواں مردی سے مقابلہ کر رہی ہیں ، اور ہر سازش کو ناکام بنا رہی
ہیں ۔ایران کے تمام سیاسی و خارجی ڈھانچے کو چھلنی میں چھانا جائے تو یہ
بات اظہر من الشمس ظاہر ہوجاتی ہے کہ ایران نے تمام اسلامی ممالک کو کمزور
ہی کیا ہے ، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سر زمین حجاز کی قوت کو کمزور
کرکے ایران ، صلیبی قوتوں کے دجالی منصوبوں کو کامیاب بنانا چاہتا ہے ،
ایران مسلم بلاک کاحصہ ہوتے ہوئے بھی ہر اس مملکت کی معاشی و عسکری کمزوری
کا سبب بن رہا ہے ، جو مغرب کی صلیبی قوتوں کے خلاف کھڑے ہونے کے قابل
ہوسکتی تھی۔ امریکہ کا جس طرح جنگ میں فائدہ ہے ، اسی طرح ایران کا مسلم
ممالک میں فرقوں کے نام پر مسلم امہ کے درمیان اختلافات پیدا کرنے پر فائدہ
ہے۔ مسلم ممالک تفرقوں اور مسالک کے نام پر جتنے کمزور ہونگے ، ایران اتنا
ہی مضبوط ہوگا ۔ ایران نے اپنی مملکت کو فرقہ وارانہ خول میں بند کیا ہوا
ہے ۔ ایران کے اس رجحان سے مسلم امہ میں اتفاق کی راہیں مسدود ہیں ،ایران
سیاسی بنیادوں پر ایسے ایشوز اٹھاتا رہتا ہے ، جس سے مسلم ممالک میں
تنازعات کو ہوا ملتی ہے۔مسلمانوں کا ایک عظیم یک جہتی کا اجتماع حج کچھ دن
بعد ہی ادا کیا جائے گا ، حج ہمیں ایثار ، قربانی ، بھائی چارے اور بلا
امتیاز رنگ و نسل محبت اور امن کا درس دیتا ہے ۔ ہر حج کے موقع پر ایرانی
حجاج اکرام کی جانب سے مظاہرے اور آل سعود کے خلاف احتجاج ، روایت بن گئی
ہے۔ بڑے اجتماعات میں حادثے ہونا ، فطری عمل ہے ، اس میں سالوں سال کی
تربیت نہیں ملتی ،۔ بلکہ صرف چند ہفتے ہی مل پاتے ہیں ۔ چونکہ ایران میں
محرم کے مہینے میں اعزا داری سینکڑوں سالوں سے چلی آرہی ہے ، اور صرف ایران
میں ہی نہیں بلکہ شیعہ مسلک کے عوام جہاں رہتے ہیں ، وہاں باقاعدگی سے اعزا
داری کرتے رہتے ہیں اس لئے ان میں نظم و تربیت پیدائشی ہوتی ہے ، جبکہ حج
کے موقع پر لاکھوں افراد میں وہی لوگ آ پاتے ہیں ، جو صاحب استطاعت ہوں ،
اور زیادہ تر پہلی مرتبہ آتے ہیں ، عربی زبان سے ناواقفیت سمیت مناسب تربیت
کا نہ ہونا ، بد انتظامی کا سبب بنتا ہے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا
خادم حرمین شریفین کی جانب سے جان بوجھ کر کو تاہی کی جا رہی ہو۔ فطری طور
پر لاکھوں ، کے اجتماع کو کنٹرول کرنا اور مختلف فرائض کی ادائیگی کے لئے
مسلسل مصروف عمل رہنا ، حجاج اکرام میں بد انتظامی کا سبب بن سکتا ہے۔ حج
کسی مسلمان کے لئے روز مرہ کے معمولات نہیں ہیں کہ وہ کماحقہ تمام انتظامات
میں بد انتظامی کا شکار نہ ہوں ۔، لیکن سعودی عرب کی جانب سے انتظامات کے
حوالے تفصیلات جس طرح سامنے آتی ہیں ، حجاج اکرام کو اس کو یاد رکھنے اور
اس پر عمل کرنے ضرورت ہے ۔جو شیڈول انھیں دیا جاتا ہے ، اس پر عمل کرنا ہی
کئی مسائل سے انھیں بچا سکتا ہے ، لیکن حجاج اکرام کی میزبانی کے عظیم
فریضے کو سیاست کی نظر کرنا مناسب عمل نہیں ہے ۔ ایران کو مسلم امہ میں
اتفاق پیدا کرنے کیلئے حج جیسے مقدس رکن کو ملحوظ خاطر ضرور رکھنا چاہیے۔
مسلم امہ کے درمیان اتفاق و یک جہتی کا واحد استعارہ حج کا عظیم اجتماع رہ
گیا ہے، باقی سب کچھ تو خانہ جنگی میں برباد ہوچکا ہے ۔کم ازکم حج پر سیاست
نہ کی جائے۔
|