پاک بھارت سرد جنگ اور امریکی کردار

سیاست مقامی ہو،ملکی ہو یا عالمی ہو ،اس میں کامیاب وہی ہوتا ہے جو بہترین پراپیگنڈے،اعصابی جنگ لڑنے کا ماہر ہو،اچھا پراپیگنڈا بھی وہی شخص کرسکتا ہے جو اچھی شخصیت کامالک ہو،جو اپنی زبان،آنکھ ،کان،دل اور دماغ اچھے انداز میں چلا سکتا ہو،اس وقت عالمی سطح پران اعضاء کا سرد جنگ کیلئے خوب استعمال کیا جارہا ہے،ترکی سے لے کر روس،امریکہ سے چین،پاکستان سے سعودی عرب،آسٹریلیا سے ایران ،بھارت سے ویت نام تک سفارتی جنگ دیکھنے کو ملتی ہے،اوبامہ شی چن پنگ کو جنوبی چینی سمندرکوچھوڑنے کی دھمکی دیتا ہے اور ساتھ ہی بھارت کو سمندری جنگ کیلئے سازوسامان فراہم کرنے کی بات کرتا ہے،ایرانی سعودی شاہوں کے خلاف اٹھنے کی بات کرتے ہیں توسعودی مفتیوں کی طرف سے ایرانیوں کو ’’کافر‘‘قرار دے دیا جاتا ہے،آسٹریلیا کہتا ہے کہ میں چین کا راستہ روکوں گا آؤ یورپ والو میرا ساتھ دو،ویت نام کو ایشیاء کا ٹائیگر بنانے کی بات کی جاتی ہے،بھارت پاکستان کے خلاف الزامات کی بارش کررہا ہے تو پاکستانی توپیں دفاع کیلئے گولے پھینکتی نظر آتی ہیں۔

اس وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کھل کر پاکستان اور چین کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں،ایسا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے جس سے پاکستان کا نقصان اور بھارت کا فائدہ ہوتا دکھائی دیتا ہو، ایسے ایسے ممالک تک رسائی حاصل کی ہے جو بھارتی بنیوں کے وہم وگمان میں نہیں ہونگے،مودی جس کے وزیراعظم بننے سے پہلے امریکہ میں انٹری بین تھی وہی مودی امریکہ صدر سے آٹھ نو بار مل چکا ہے،بھارتی وزیراعظم ایک توسیع پسندانہ منصوبے کے تحت اپنے ملک کو ایشیا ء کا چودھری بنا کر پاکستان کو تنہا کرنا چاہتے ہیں،چند دن پہلے چین میں گروپ 20کے ممالک کے اجلاس کے فوری بعد اوبامہ اور مودی کے درمیان وینٹیانے میں رازو نیاز کی باتیں ہوئی ہیں،بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا لکھتا ہے کہ امریکی صدر اوبامہ نے نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں شمولیت کیلئے مودی صاحب یقین دہانی کروائی ہے،گزشتہ ماہ امریکہ وزیر خارجہ جان کیری بھی دہلی یاترا پر آئے اور ان کو بھارتیوں نے رام کرنے خوب کوشش کی،سی پیک منصوبے کو متنازعہ بنانے اور پاکستان کو دہشتگرد ظاہر کرنے کی خوب کوشش کی گئی۔

جس یقین دہانی پر بھارتی خوشی سے باچھیں نکال رہے ہیں اسی اوبامہ کی مخالفت میں امریکی سینیٹ میں پاکستان کے حق میں فیصلہ آگیا ہے،امریکی سینیٹرز نے پاکستان پر پابندیوں کا امکان مسترد کردیا ہے،سینیٹ کمیٹی نے نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کیلئے بھارت کی حمایت نہ کرنے کی بھی تجویز دے دی ہے،چیئرمین سینیٹ کمیٹی باب کارکر کا کہنا ہے’’ پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی ہے،پاکستان کے جوہری پروگرام میں وسعت بھارت کی وجہ سے آئی،پاکستان کا جوہری پروگرام بھارتی جارحیت سے تحفظ کیلئے ہے،پاکستان کے جوہری پروگرام میں وسعت کا ذمہ دار بھارت ہے، امریکہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں بھارتی شمولیت کی حمایت بالکل نہ کرے،خطے میں جوہری وسعت کا ذمہ دار بھارت ہے۔امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی میں پاکستان پر لگائی گئی تمام پابندیوں کی تجویز مسترد کردی گئی ہے‘‘۔بھارت کی حمایت کرنے کیلئے امریکی صدر کو سینیٹرز کی مخالفت مول لینا پڑے گی،ویسے بھی صدر باراک اوبامہ کے پاس تین چار ماہ ہیں اس کے بعد امریکہ میں حکومت تبدیل ہوجائے گی،امید یہی ہے کہ ہلیری کلنٹن منتخب ہوجائیں گی اور وہ پاکستان کیلئے بہتر ثابت ہونگی،فی الحال مودی چالیں کچھ کچھ ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ ناکام ہوچکی ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

جغرافیائی لحاظ سے چین اور بھارت سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی سینٹرل ایشیا تک رسائی کے درمیان پاکستان اور ایران حائل ہیں،کچھ کچھ حصہ افغانستان کا بھی ہے تینوں مسلمان ممالک سیاسی ،جغرافیائی اہمیت کے حامل ہیں۔پاکستان کی بندرگاہ گوادر اور ایرانی چاہ بہار دونوں ہرمز ریجن کے ماتھے پر واقع ہیں،دنیا کا دو تہائی حصہ تیل کا یہا ں سے گزرتا ہے یعنی روزانہ 17بلین بیرل خام تیل کی رسد اسی گزرگاہ سے ہوتی ہے ۔یہ دونوں بندرگاہیں مکمل آپریشنل ہونے پر بین الاقوامی معیشت کا حب ثابت ہونگی۔یہ بحر ہند تک پہنچنے کا ذریعہ ثابت ہونگی اور یہاں سے دنیا کے ستر فیصد پٹرولیم مصنوعات کی نقل وحمل ہوسکے گی۔سالانہ ایک لاکھ جہاز یہاں سے گزریں گے۔

بھارت نے جب دیکھا کہ چین براستہ پاکستان گوادر پر سرمایہ کاری کررہا ہے تو وہ بھی اس میدان میں کود پڑا حالانکہ اس کی اتنی حیثیت نہیں کہ وہ چینی معیشت کا مقابلہ کرسکے۔بھارت نے 2003ء میں چاہ بہار بندرگاہ کا ٹھیکہ لیا،طویل عرصے تک وہ اس پر کام ہی نہیں شروع کرسکا۔کافی انتظار کے بعد مئی 2015ء میں بھارت اور ایران کے مابین ایک میمورنڈم پر دستخط کیے گئے کہ اسے 2016ء تک مکمل کرلیا جائیگا۔اس معاہدے کے تحت بھارت 85.21ملین ڈالر اس منصوبے پر خرچ کرے گا۔اب دونوں ایران بھارت اس منصوبے کو توسیع دے کروسطی ایشیا تک پھیلانے کا منصوبہ لیکر میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔بھارت نے 2009ء میں سو ملین ڈالر کی سڑک دیلا رام سے زرنج تک تعمیر کی اور اب اسے توسیع دے کر سات سو کلومیٹر پر مشتمل سڑک تعمیر کرے گا جو بھارت کو افغانستان کے صوبے نمروز سے چاہ بہار تک پہنچائے گی۔اس طرح بھارت کا بھی وسطی ایشیا تک پہنچنے کا خواب پورا ہوجائیگا۔بھارتی اقتصادی کھیل کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ اور پیسہ ہے جو براہ راست تو ایران میں انویسٹ نہیں کرسکتا لیکن بھارت کے ذریعے کرسکتا ہے،امریکہ پاک چین اقتصادی راہداری کو روکنا چاہتا ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے گوادر بندرگاہ کا ٹھیکہ امریکہ کے بجائے چین کو دیا،اس کے برعکس امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے سی پیک منصوبہ پاکستان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

بھارت نے دوستوں میں اضافہ کیا ہے ادھر پاکستان نے دشمنوں کی صف طویل کی ہے،بھارتی وزیر اعظم اور اس کی ٹیم خود میدان میں ہے جس کا صرف اور صرف فوکس پاکستان دشمنی اور اپنی معیشت کا فروغ ہے،پاکستان کے پاس سوائے بیماروں اور بزگوں کی خارجہ ٹیم کے سوا کچھ نہیں،کسی کا دل خراب ہے تو کسی کا دماغ کام نہیں کرتا،بیماروں سے ہسپتالوں کے بل بڑھتے ہیں ملک نہیں چلائے جاتے ،ہم کشمیر لینے بات کرتے ہیں،پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانے کی بھی بات کرتے ہیں لیکن اعصاب کی عالمی جنگ میں مضبوط اعصاب مالک افراد کو اتارنے کی ضرورت ہے جن کے پاس بھی اور بات کرنے،بات منوانے کی صلاحیت بھی،’’پاکستان ناکام ریاست ہے اور نہ ہی دہشتگردی کا ذمہ دار ‘‘اس بات کو ثابت کرنے کیلئے دنیا کو بتانے والی زبان دکھانے والی آنکھوں کی ضرورت ہے۔
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68442 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.