روضہ رسولﷺ سے ایک بچے کی محبت
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
یہ حکایت نہیں بلکہ ایک سچا واقعہ ہے
جو ریڈیو پاکستان ،اسلام آباد سے نشر ہونے والے ایک دینی پروگرام میں ایک
عالمِ دین، جن کا نام مجھے یاد نہیں ،نے خود سنایا تھا ۔یہ واقعہ انہی
عالمِ دین کے ساتھ مدینہ منورہ میں پیش آیا تھا۔ میں اس واقعہ کو جیسا کہ
میں نے کئی سال پہلے سنا تھا، ویسے کا ویسا بیان کرنے کی کوشش کروں گا اور
اگر الفاظ میں کوئی کمی بیشی ہو جائے تو اس کی معافی چاہوں گا۔
ایک عالمِ دین حج کی سعادت کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔ حج کی فرضیت سے
فارغ ہو کر سعادتِ دارین کے لئے وہ عالمِ دین مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ
کی زیارت اور حاضری کے لئے آگئے۔ وہ روضۂ رسولؐ سے کچھ فاصلے پر ایک ہوٹل
یا کسی گھر میں قیام پذیر تھے۔مدینے کی معطر فضا ، اور ٹھنڈی ہوا ہر کسی کو
اپنائیت کا ایسا احساس دلاتی ہے کہ کسی کا وہاں سے واپس جانے کو دل ہی نہیں
کرتا۔ ایسے لگتا ہے جیسے کسی کی محبت نے اپنے دامن میں یوں بسا لیا ہو کہ
بس ساری زندگی وہیں گذار دینے کی تمنا دل میں سما جاتی ہے۔ لیکن دستورِ
زمانہ اور دستورِ تقدیر بھی تو ماننے پڑتے ہیں۔اس عالمِ دین کے دل کی بھی
یہی کیفیت تھی۔ ان کا دل تو یہی چاہتا تھا کہ بس اب باقی ساری زندگی اسی
کوچۂ ساقئی کوثر ﷺ میں بیت جائے ، لیکن ظاہری حقیقت یہی تھی کہ ان کی مدینے
سے روانگی کا دن تیزی سے قریب آ رہا تھا۔
ایک دن وہ صبح کا ناشتہ کرنے کے بعد کھانے کے بچے کھچے ٹکڑے ، ہڈیاں ،
چھلکے وغیرہ گھر سے باہر ایک جگہ پھینکنے آئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک
بچہ اس کوڑے کے ڈھیر میں سے کچھ کھانے کی چیزیں نکال کر اکٹھی کر رہا ہے۔
اور لوگوں سے نظر بچا کر کھانے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔ اس کے تیور بتا رہے
تھے کہ وہ انتہائی مفلس گھرانے سے تعلق کرتا ہے۔عالمِ دین سے ، یہ کیفیت
دیکھ کر، رہا نہ گیا۔ اس نے اپنے دل کی تمام تر نرمی، اپنے حسنِ اخلاق اور
اپنی زبان کی تمام تر طراوت یکجا کرتے ہوئے اس بچے سے مخاطب ہونے کی کوشش
کی جس میں وہ کامیاب رہے۔ ایسی کیفیت میں اس بچے سے مخاطب ہونا کسی نازک
کانچ کے برتن کو ہاتھ میں لینے سے کم حساس نہ تھا۔ وہ بچے کو اس کی غربت کا
احساس دلائے بغیر اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے۔
وہ عالمِ دین اس بچے سے شفقت بھری باتیں کرتے کرتے اسے اپنی رہائش گاہ پر
لے گیا۔ وہاں اس بچے کو کھانا کھلایا گیا اور اس کے حال، احوال سے متعلق
جاننے کی کوشش کی گئی۔ اس بچے کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ یتیم ہے اور اس کی
ماں کی مالی حالت اتنی سکت نہیں رکھتی کہ وہ اس کی تعلیم اور اچھے گزر
اوقات کا بندوبست کر سکے۔ لہٰذا وہ بچہ اپنے باقی بہن بھائیوں کی طرح حالات
کے رحم و کرم کے سپرد کیا جا چکا ہے۔
اس عالمِ دین کے دل میں بچے کی محبت بڑھنے لگی اور وہ اس کے مستقبل کے
متعلق سوچ بچار کے عمل سے گزرنے لگا۔ اس کے ہمدرد ذہن اور مہربان دل نے اسے
جلد ہی اس عمل سے گزار کر فیصلے کے کنارے پر پہنچا دیا۔ اس کا پکا ارادہ بن
گیا کہ اگر یہ بچہ اس بات پر راضی ہو جائے تو وہ اسے اپنے ساتھ اپنے وطن
پاکستان لے جائے۔ اس کے دل کی بات جلد ہی اس کی زبان پر آگئی۔ اس نے اس بچے
سے نہایت ہمدردی اور انسان دوستی کے لہجے میں بات کرتے ہوئے اپنے دل کی بات
اس کے گوش گزار کر دی۔
بچہ آخر بچہ تھا۔ اتنا بڑا فیصلہ وہ اپنی ماں کی اجازت اور رضامندی کے بغیر
نہیں کر سکتا تھا۔اس نے اس محترم عالمِ دین بزرگ کی خدمت میں عرض کی کہ وہ
اس معاملے سے متعلق اپنی ماں سے پوچھے بغیر کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ ہاں
اگر اس کی ماں اس بات پر راضی ہو گئی تو وہ اس کے ساتھ پاکستان چلا جائے
گا۔لیکن اگر اس کی والدہ راضی نہ ہوئی تو وہ ہرگز اس بزرگ کے ساتھ پاکستان
نہیں جائے گا۔
بزرگ عالمِ دین بھی تو یہی چاہتا تھا۔ اس بچے کی والدہ کی اجازت کے بغیر وہ
کسی صورت بھی بچے کو پاکستان نہیں لانا چاہتا تھا۔یہ ایک صائب رائے تھی کہ
بچہ اپنی ماں کی اجازت لے کر ہی ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرے۔
عالمِ دین کا ذہن گہرے تذبذب میں تھا۔ اس کا ذہن کبھی بچے کے حالات کی طرف
جاتا تو اس کی سماعت میں اس بچے کی ماں کی سرگوشی سنائی دیتی جو اسے
پاکستان جانے کی اجازت دے رہی ہوتی ۔لیکن دوسرے ہی لمحے اسے ماں کی مامتا
کی شدت محسوس ہوتی تو اس کے تصور کی آنکھ دیکھتی کہ اس بچے کی ماں جھٹ سے
اسے گلے لگا رہی ہے اور اسے کسی طور بھی اپنی نظروں سے دور جانے کی اجازت
نہیں دے رہی۔
اگلے دن عالمِ دین کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ بچہ اچھے سے کپڑے پہن کر
اس کے پاس آیا اور آکر یہ نوید سنائی کہ اس کی ماں نے اسے پاکستان جانے کی
اجازت دے دی ہے۔
بچے نے کہا کہ آؤ ہم جاتے جاتے مدینہ شریف کی ایک بار سیر کر لیں۔ عالمِ
دین کا بھی یہی ارادہ تھا ۔ وہ بھی مدینے سے کوچ کرنے سے پہلے ایک بار
مدینہ شریف کی گلیاں، بازار اور محلے دیکھ لینا چاہتا تھا۔
چنانچہ وہ عالمِ دین اور وہ بچہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ مدینے شریف کی سیر
کو نکل پڑے۔
جب مدینہ شریف کے بازار آئے تو اس بچے نے عالمِ دین سے پوچھا کہ کیا
پاکستان میں اس طرح کے بازار ہیں۔ عالمِ دین نے بڑی تسلی سے جواب دیا کہ
ہاں بڑے بڑے بازار ہیں۔ وہاں ہر چیز میسر ہے۔ بہت شاندار اور وسیع و عریض
بازار ہیں۔ لڑکے کے چہرے پر مسکراہٹ کی ایک لہر دوڑ گئی۔
وہ آگے چل پڑے۔ بڑی بڑی سڑکیں دیکھ کے وہ بچہ کہنے لگا کہ کیا پاکستان میں
اس طرح کی بڑی بڑی سڑکیں بھی ہیں۔ عالمِ دین نے جھٹ سے جواب دیا کہ ہاں
بیٹا وہاں بھی بڑی بڑی سڑکیں اور ان پر گاڑیوں کی ختم نہ ہونے والی قطاریں
اور روشنیاں کیاخوب منظر پیش کرتی ہیں۔ اور کئی اور چیزیں بھی ہیں۔
ایک مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر اس بچے نے پوچھا کہ کیا پاکستان میں ایسی
مساجد بھی ہیں۔ عالمِ دین نے کہا کہ ہاں کیوں نہیں بڑی عالی شان مساجد ہیں۔
تاریخی اور کشادہ مساجد بھی ہیں۔
ساری باتوں سے بچے کی تسلی میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس کا
دل تصور کی آنکھ سے پاکستان کا نظارہ کر رہا تھا۔
آخر کار وہ بچہ روضۂ رسولﷺ کے سامنے آکر رک گیا۔ روضہ پاک پر اپنی محبت
بھری نظریں جماتے ہوئے اس نے وہی سوال جو باقی چیزوں کے متعلق بار بارکر
رہا تھا ،کیا۔
عالمِ دین آبدیدہ ہو گیا۔ اس سوال سے اس کا دل بھر آیا ۔ بچہ مسلسل روضہ
پاک پر نظریں جمائے اسے تکتا جا رہا تھا۔ جب اس کے سوال کا جواب آنے میں
تاخیر ہو گئی۔ تو اس نے اپنے چہرے کا رخ اس عالمِ دین کی طرف کیا جو اب تک
تو ہر بات پے ایک ہی جواب دئے جا رہا تھا کہ ہاں بیٹا یہ چیز بھی پاکستان
میں ہے ، وہ بھی پاکستان میں۔ اس سوال پر آخر اس کی گویائی کو کیا ہو گیا
تھا؟
بچے نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ شاید بات سننے میں کوئی دشواری ہوئی ہو۔ اس
نے اپنا سوال دھرا دیا۔ کہ کیا یہ روضہ بھی پاکستان میں ہے؟
عالمِ دین کو جواب دینا تھا۔ اس نے بھرائی آواز میں اپنے آنسوؤں کا بہاؤ
روکتے ہوئے کہا:
بیٹا اگر یہ روضہ پاکستان میں ہوتا تو ہم یہاں کیا لینے آتے۔ اسی روضے کے
لئے تو ہم یہاں آئے ہیں۔ یہ اسی روضے والے ﷺ کی محبت ہے جو ہمیں یہاں کھینچ
لاتی ہے۔ عالمِ دین اپنے رومال سے آنسو صاف کر رہا تھا۔۔۔۔۔
بچے کا مسکراتا چہرا یکدم متغیر ہو گیا۔وہ روضہ رسولﷺ دیکھے جا رہا تھا۔ اس
نے معصومیت بھرے لہجے میں جواب دیا کہ اگر یہ روضہ پاکستان میں نہیں ہے تو
وہ اسے چھوڑ کر ہرگز وہاں نہیں جائے گا۔ وہ عالمِ دین سے اپنائیت کا احساس
ختم کرنے لگا تھا۔ وہ اب مسجدِ نبوی میں داخل ہو رہا تھا۔ وہ روضہ رسولﷺ کی
طرف کھنچا جا رہا تھا۔ اور عالمِ دین آبدیدہ نگاہوں سے اس کے قدموں کو زمیں
پر پڑتے، اور زمیں سے اٹھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ |
|