بدعنوانی سے بدانتظامی تک

کوئی بھی قوم اچانک ناکام نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے کئی محرکات کارفرماہوتے ہیں ،اگران محرکات کابغورجائزہ لیا جائے تو ایک قوم کی ناکامی ،بدنامی اوربدانتظامی میں ملوث کرداربھی بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ہمارے ملک میں بدامنی کے واقعات کا''کھرا''بھی بدعنوانی اوربدانتظامی تک جاپہنچتا ہے۔بدعنوانی کاصفایاکئے بغیر بدامنی ختم نہیں ہوگی ۔قومی وسائل کے درست اوربروقت استعمال سے پائیدارامن کی راہیں ہموارہوں گی ،مختلف طبقات کااحساس محرومی دوراورحکومت کے ساتھ ساتھ ریاست پراعتمادہوگا۔جہاں عوام کوان کابنیادی حق اورانصاف ملتا ہے وہاں کوئی تبدیلی کیلئے شاہراہوں کارخ نہیں کرتا ۔حکومت انصاف کی فراوانی سے تحریک انصا ف کامقابلہ کرسکتی ہے ،اگرپاکستان کے نوجوا ن کپتان عمران خان کے حامی اورہم خیال ہیں تواس کابنیادی سبب انصاف کی عدم دستیابی ہے۔پاکستان کے انتخابی نظام کوسوفیصدشفاف قرارنہیں دیا جاسکتا،اس میں اصلاحات ناگزیر ہیں ورنہ مستقبل میں ہونیوالے انتخابات کی شفافیت بھی ایک سوالیہ نشان بن جائے گی ۔ ناکام ہونیوالی اقوام کی بعض مخصوص عادات انہیں ناکام بنا تی ہیں اوریہ اقوام زندگی کی دوڑمیں پیچھے رہ جا تی ہیں۔پاکستانیوں کا برسراقتدار آنیوالے ہرحکمران کواپنا نجات دہندہ سمجھ کراس کی غیر معمولی عزت ا فزا ئی کر نا اور پھر چندماہ بعد اس سے نجات کیلئے شاہراہوں پرآجانااور گوگو کے نعرے لگانا ان کی سیاسی پختگی اوربلوغت پرسوالیہ نشان ہے۔ ان کی شامت اعمال کے باعث اﷲ تعالیٰ ان پر اس قسم کے حکمران مسلط کر دیتاہے جو انہیں مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔احتجاج تک کرنے کاحق بھی ان سے چھین لیا جاتاہے ان کے حکمران ان کی آنے والی نسلوں تک کا رزق ہڑپ کر جاتے ہیں۔حکمرانوں کی ناقص معاشی منصوبہ بندیوں کے سبب پیدا ہو نے والے بچے بھی ناحق مقروض ہوتے ہیں۔ اس قرض کابوجھ ان کے کندھوں پرڈال دیا جا تا ہے جو ان بیچاروں نے لیا بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے ماں باپ اس قرض سے مستفید ہوئے ہوتے ہیں ۔ اگر بحیثیت قوم اپنا جائزہ لیاجائے تو یہ تمام برائیاں ہمیں اپنے اندر کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ملیں گی۔ہمارے ہاں جمہوریت کو ایسا مقدس لفظ بنا دیاگیاہے کہ شاید اگر جمہوریت نہ ہو تو خدانخواستہ ہم سب کے سب برباد ہو جائیں، خدانخواستہ ہماراملک ٹوٹ جائے۔ ہمیں باور کروایا جاتاہے کہ ہم سب کی بقاء اور سلامتی جمہوریت میں ہی مضمر ہے لیکن چودہ سوسال قبل جمہوریت کاکوئی تصور تک نہیں تھا بلکہ نظام خلافت تھا۔ ہماری جمہوریت ہزاروں آمریتوں سے بہتر ہیں یہ بھلا کس قسم کی جمہوریت ہے جس میں بیس کروڑ عوام کے حقوق پر دوچارسرمایہ دارسیاسی چند خاندانوں او ر مٹھی بھر افرادکاغاصبانہ قبضہ ہے اور یہ لوگ ملک وقوم کے سیاہ و سفید کے مختار بنے بیٹھے ہیں۔ ا ن پر کسی قانو ن کا ا طلاق نہیں ہوتا اوریہ عناصر قوم کے ٹیکسوں پرکسی مقدس گائے کی طرح پل رہے ہیں۔جہاں عوام زندگی بچانے اوربھوک مٹانے کیلئے ایڑیاں رگڑتے ہوں وہا ں ان کیلئے جمہوریت اورآمریت میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ۔پاکستان میں نظام کوئی بھی عوام کی زندگی سہل بنانے کیلئے اہتمام کرنا ہوگا ۔

ہماری جمہوریت کا دائرہ کار چندخاندانوں اورشخصیات کے گرد ہی کیوں گھومتا ہے۔ اگرحکمران اشرافیہ کابس چلے تو نادارومفلس پاکستانیوں کو روٹی کے نوالے سے بھی محروم کردیں ۔گھر گھر میں بھوک اوربیروزگاری کے باوجودان بیچاروں سے ٹیکس کے نام پر جگا ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ جنرل راحیل شریف قوم کے نجات دہندہ بن کرابھرے ہیں،انہوں نے قیام امن کیلئے آپریشن ضرب عضب کی قیادت کرتے ہوئے ڈیلیورکیا ہے ۔قوم نے انہیں اپنامسیحااور ہیرومان لیا ہے ۔ ریاست کی رٹ چیلنج کرنیوالے مسلح انتہاپسندعناصر کی سرکوبی اور حکومتی رٹ کو قائم کرنے کیلئے جنرل راحیل شریف نے گرانقدرخدمات انجام دیں۔ پاکستان کے اندرونی وبیرونی دشمنوں کاگٹھ جوڑ پاکستانیوں پر ا ٓشکارہوا ہے ۔ بد عنوان عناصر کولگام ڈالی جبکہ بدانتظامی پرقابوپایاجائے ۔بدعنوانی اوربدانتظامی کے نتیجہ میں عام آدمی مہنگائی کی چکی پس ر ہے ہیں، شہریوں کی خوشحالی کیلئے دوررس معاشی اصلاحات کی جائیں ۔ہنرمندافرادکوباعزت روزگارکی فراہمی یقینی بنائی جائے ، کاروباری افراد کو بینکوں سے کاروبارکیلئے باآسانی اورآسان شرطوں پر قرض فراہم کئے جائیں،جو صرف اشرافیہ کو ملتا ہے اور وہ بھی ناقابل واپسی اور قابل معافی ہوتاہے۔

بڑے لوگوں کے ساتھ کچھ ٹریجڈیز بھی ہو جاتی ہیں ہمارے حکمرانوں کے پاس جہاں باوفااورباصفا لوگ ہوتے ہیں وہاں مٹھی بھر اقتدارپرست عناصر بھی انہیں ہروقت گھیرے ہوئے ہوتے ہیں ۔ آج میاں نوازشریف کے ساتھ وفاکادم بھر نیوالے متعدد وہ لوگ بھی ہیں جوچندبرس قبل پرویز مشرف کے حق میں قراردادیں پاس کرنے اورانہیں بار بارباوردی صدرمنتخب کرنے کادعویٰ کیا کرتے تھے ۔ مخصوص مائنڈسیٹ کے حامل مفادپرست اوراقتدار پرست عناصر ہرحکمران کوبندگلی میں لے جاتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کویہ بات کون سمجھائے کہ خوشامداورچاپلوس لوگ دوست نہیں بلکہ بدترین دشمن ہوتے ہیں جوچرب زبانی سے انسان کی روح پرضرب لگاتے اوراسے ناکارہ بناتے ہیں۔مشاورت اوراختلاف رائے کی آزادی سے زیادہ بہتراوردوررس فیصلے ہوتے ہیں۔بدعنوانی کی طرح بدانتظامی بھی کسی ریاست کیلئے زہرقاتل ہے ۔ میں ٹی وہ پر ان لوگوں کوبھی میاں نوازشریف کے حق میں بولتاہوا دیکھتی ہوں جوکل تک پرویزمشرف کادفاع کرتے ہوئے بہت دورنکل جاتے تھے تومجھے تعجب ہوتا ہے ،کیونکہ کہاجاتا ہے جوسب کودوست ہوتاہے وہ درحقیقت کسی کادوست نہیں ہوتا ۔ ہمارے ہاں فوجی آمروں کوبراکہاجاتا ہے لیکن ان کی اقتدار سے رخصتی کے بعدجبکہ آمروں کی وکالت کرنیوالے بعدمیں منتخب حکمرانوں کا کاطواف کرتے ہیں تو انہیں سینے سے لگالیاجاتا ہے جبکہ دورآمریت میں بحالی جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنیوالے کارکنان اپنے پارٹی قائدین کی طوطاچشمی کے شکوے کرتے سنائی دیتے ہیں ۔ فوجی ڈکٹیٹر ہویامنتخب حکمران ان کی شاہی سواری آنے پرشاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں اور بیچارے ''اچھوت'' عوام بھوکے ننگے سڑکوں پر کھڑے رہ جاتے ہیں،شاہراہوں پرجہاں بچے پیداہونے کی خبر سننے اور پڑھنے میں آتی ہے وہاں گاڑیوں کی بندش سے کئی شہری بے موت مارے بھی جاتے ہیں۔یہ سلسلہ بندہونا چاہئے کیونکہ حکمران مخدوم نہیں عوام کے خادم ہیں۔خلیفہ وقت حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ ایک روزتنہاکسی بازار سے گزررہے تھے ،انہیں کسی غیرملکی سیاح نے دیکھا توحیرت سے پوچھا آپ کے ساتھ کوئی محافظ نہیں ہے تو حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایاشہریوں کی حفاظت کرنامیرافرض منصبی ہے نہ وہ میری حفاظت کریں ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہرآنیوالی حکومت میں بدعنوانی اوربدانتظامی جانیوالی حکومت کے مقابلے میں کئی گنابڑھ جا تی ہے۔ دعاہے پاکستان کے عوام ہو ش کریں، انہیں سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا آ جائے ورنہ ہونی کو کو ن روک سکتاہے شاید ہماری نسلیں بھی حکمرانوں کے بچوں کی غلامی کرتی رہیں کیونکہ اقتداراور قومی وسائل پر ان کاقبضہ ہے۔
Kiran Waqar
About the Author: Kiran Waqar Read More Articles by Kiran Waqar: 6 Articles with 3825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.