ایم کیو ایم کے رہنما اور قومی اسمبلی کے
رکن خالد مقبول صدیقی نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ
کراچی کا امن عارضی اور جعلی ہے۔ انھوں نے کہا کہ لوگوں کو انصاف فراہم کئے
بغیر مستقل امن کا قیام ممکن نہیں۔جمعہ کو ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے
قومی اسمبلی کے اجلاس سے بھی احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ خالد مقبول صدیقی نے یہ
بھی کہا کہ جمہوری دور حکومت میں وزیراعظم کے پاس منتخب نمائندوں کی بات
سننے کا وقت نہیں۔ قبل ازیں جمعہ کو ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی موجودگی میں اجلاس کے دوران بات کرنے کی
کوشش کی لیکن انھیں بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ خالد مقبول صدیقی نے
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے 62کارکنوں کو دوران حراست
قتل کر دیا گیا جبکہ ان کے سینکڑوں کارکن لا پتہ ہیں ۔ انھوں کہا کہ دوسری
طرف جرائم پیشہ افراد جو ایم کیو ایم چھوڑ کر دوسری جماعت میں جا رہے ہیں
ان کے سارے گناہ معاف کئے جار ہے ہیں۔خالد مقبول صدیقی نے یہ باتیں اس وقت
کی ہیں کہ جب ایک روز قبل ہی ان کی جماعت کو پی ایس 127کے ضمنی الیکشن میں
شکست ہوئی ہے۔ ماضی میں یہ سیٹ ایم کیوا یم کے پاس تھی۔ الیکشن میں ایم کیو
ایم کی ہار کے بعد کسی حد تک یہ پیغام گیا ہے کہ کراچی کے عوام کا مینڈیٹ
ایم کیو ایم پاکستان کا نہیں بلکہ الطاف حسین کا ہے ۔ ان الیکشن میں یہ
تاثر ذائل کئے جانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ دوسری اہم
بات ہے کہ ان انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرنے والوں کی شرح بہت کم
تھی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عوام کو یا تو الیکشن سے کوئی دلچسپی نہیں یا
پھر وہ کسی خوف کا شکار ہیں لیکن تمام تر تبصروں اور تجزیوں کے باوجود یہ
حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اس الیکشن میں پیپلزپارٹی کو کامیابی حاصل
ہوئی ہے ۔ جبکہ دوسری طرف جمعرات ہی کو کراچی میں چھ بسوں اور گاڑیوں کو
نذر آتش بھی کیا گیا ہے ۔ کراچی میں ایک ساتھ آدھے درجن بسیں اور گاڑیاں
نذر آتش کرنے کا یہ واقعہ گزشتہ دو سال کے اندر اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ
ہے ۔ جب سے کراچی میں ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف آپریشن
شروع ہوا ہے اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ایسے ماحول میں ایم کیوا
یم کے رہنما خالدمقبو ل صدیقی کے بیان کو بہت زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کی
ضروت ہے کہ جس میں انھوں نے کراچی میں قائم امن کو نا صرف عارضی قرار دیا
ہے بلکہ انھوں اس امن کو جعلی بھی کہا ہے ۔ خالد مقبول صدیقی کے بیان کی
وجہ سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن کی وجہ سے
دہشتگرد اور نا معلوم افراد ختم نہیں ہوئے ہیں بلکہ کہیں چھپ کر بیٹھے ہوئے
ہیں اور موقع ملتے ہی یاکہہ لیجئے کہ کسی کا حکم ملتے ہی وہ دوبارہ اپنا
کام دکھائیں گے۔ 24گھنٹوں کے دوران چھ بسوں اور گاڑیوں کو ایک ساتھ نذر آتش
کیا جانا موجودہ حالات میں معمولی بات نہیں بلکہ خالد مقبول صدیقی کے بیان
پر مہر ہے۔ یہ درست ہے کہ شہروں اور ملکوں میں امن طاقت کے زور پر نہیں
بلکہ مسائل کا حل تلاش کر کے قائم کیا جاتا ہے۔
|