اوزون کیا ہے ؟ اوزون کیا کام کرتا ہے
؟اوزون کا تحفظ کتنا ضروری ہے ؟ زمین کی سطح سے تقریباً 19 کلو میٹر اوپر
اور 48 کلو میٹر کی بلندی تک اوزون کی تہہ ہے۔ جونقصان دہ بنفشی شعاعوں کو
زمین تک پہنچنے سے روکتاہے ۔اگر یہ تہہ نہ ہو یا کمزور ہو جائے ،جیسا کہ
بعض مقامات پر ہو چکی ہے ۔اس سے جانداروں میں بہت سی بیماریاں اس شدت سے
پھیل جائیں کہ کنٹرول نہ ہو سکیں ۔اس کے علاوہ زمین کا درجہ حرارت ناقابل
برداشت حد تک بڑھ جائے گا ۔
اوزون میں آکسیجن کے تین ایٹم ہوتے ہیں، (O3) آکسیجن کا ایک بہروپ ہے ،زمین
کی سطح کے قریب اوزون ایک فضائی غلاف ہے۔ اس غلاف یا پٹی کا کام ان شعاعوں
سے بچانا ہے، جو انسان کے لیے نقصان دہ ہیں ۔اسے چھلنی سمجھیں جو نقصان دہ
بالائے بنفشی شعاعوں کو زمین کی سطح تک پہنچنے سے روکتی ہے ۔ اوزون دراصل
ایک قدرتی فلٹر ہے، جو سورج سے آنے والی نقصان دہ الٹر وائلٹ شعاعوں کو
زمین تک پہنچنے سے روکتا ہے ۔ یہ نقصان دہ شعاعیں جلد کے کینسر کے علاوہ
دھوپ سے پیدا ہونے والی جلن اور آنکھوں میں موتیا کے علاوہ پودوں اور فصلوں
کو جلانے کا سبب بھی بنتی ہیں۔
1970ء کی دھائی میں یہ انکشاف ہوا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ مرکبات
اوزون کی اس تہہ کو تباہ کر رہے ہیں۔یہ مرکبات کلوروفلوروکاربن کہلاتے ہیں
جو کہ سردخانہ (refrigerator)میں استعمال ہوتے ہیں۔کلوروفلور وکاربن یعنی
سی ایف سی مرکبات کا استعمال عام طورپر انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزرز،
ریفریجریٹرز، کار، ایئر کنڈیشنر، فوم، ڈرائی کلیننگ، آگ بجھانے والے آلات،
صفائی کے لئے استعمال ہونے والی اشیاء میں ہوتاہے ۔بعض مصنوعی کھاد میں
استعمال ہونے والے مرکبات مثلاً نائٹرس آکسائیڈ بھی اوزون کے لئے تباہ کن
ہیں۔
1974ء میں امریکی ماہرین ماحولیات نے اوزون کی تہہ کے تحفظ سے متعلق آگاہی
کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا اوزون کی تہہ کے خاتمے کی صورت میں نہ
صرف دنیا بھر کا درجہ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جائے گا ،بلکہ قطب جنوبی میں
برف پگھلنے سے چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر تباہ ہو جائیں گے ۔
صنعتی کارخانے زہریلی گیس(کاربن مونو آکسائیڈ) خارج کرتے ہیں۔یہ زہریلے
اجزااوزون کی گیس اوکسیجن کے ساتھ مل کرکاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل
ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اوزون کی تہہ میں ایک شگاف انٹارکٹیکا میں پیدا
ہوچکا ہے، جس سے سیلابوں کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے ۔( اب یہ سائنس دان کہتے
ہیں تو ماننا پڑے گا ویسے شگاف اتنی دور جا کر انٹار کٹیکا میں پیدا ہوا
حالانکہ قدرتی ماحول امریکہ و ایشیاء والے خر اب کر رہے ہیں )
ہم دیکھ رہے ہیں موسموں میں شدت پہلے سے بڑھ گئی ہے ۔یہ سب دیکھتے ہوئے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 19 دسمبر 1994ء سے ہر سال 16 ستمبر کو اوزون
کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا ،جس کے بعد الٹروائلٹ بی
شعاعوں کے مظہر صحت خطرات کے بارے میں شعور پیدا کرنے کیلئے دنیا بھر میں
16 ستمبر کو اوزون کی تہہ کے بچاؤکا دن منایا جاتا ہے ۔اوزون کی تہہ کو
بچانے کے لیے بین الاقوامی برادری نے اوزون کی تہہ کو ختم کرنے والے مواد
پر پابندی لگانے کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے ، جس کے بعد دنیا بھر میں سی ایف
سی گیسز کے اشیاء میں استعمال کو ترک کر دیا گیا ہے ۔
موسمیات کے عالمی ادارہ کیک سینئر سائنٹفک افسر گائپر بریتھن کا کہنا ہے کہ
اوزون کی تہہ میں کمی اب زیادہ دیر تک برقرار رہے گی تاہم اس میں اوزون کی
تہہ میں اضافہ کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اور 2050ء تک اوزون کی تہہ میں
کمی ہونے کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور یہ تہہ اپنی اصل حالت میں بحال ہو
جائے گی کیونکہ اس وقت تک فضا میں زیادہ ٹھنڈے اوراوزون کی تہہ کیلئے نقصان
دہ مادے پیدا ہونا یا ان کے اخراج کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہیں پہلی بار ایسے شواہد ملے ہیں کہ انٹارکٹکا
کے اوپر اوزون کی کم ہوتی ہوئی تہہ میں بہتری رونما ہوئی ہے۔
سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے 15 سالوں کے مقابلے میں ستمبر 2015
ء میں اوزون کا سوراخ 40 لاکھ مربع فٹ چھوٹا تھا۔ یہ رقبہ تقریباً انڈیا کے
رقبے کے برابر ہے۔ اوزون کا تباہ کرنے والے کیمیائی مادوں کے استعمال میں
طویل مدت سے کمی کے بعد ظاہر ہوئے ہیں۔
اوزون کی تہہ کو مزید نقصان سے بچا نے کے لیے ۔ جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ
روکنا ہو گا ، سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں اور ویگنوں کے استعمال میں
کمی کرنا ہو گی ، کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کا مناسب بندوبست کرنے ساتھ ساتھ
ائیرکنڈیشن پلانٹس کے بے تحاشہ استعمال کے خاتمے کے لیے سخت قانون بنا کر
ان کو نفاذ کرنا ہو گا ۔ اوزون کی باریک سطح انسان کی قوتِ مدافعت کے نظام،
جنگلی حیات اور زراعت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ |