رائے ونڈ مارچ اور عید پر مدارس سے زیادتی
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
پی ٹی آئی کا احتجاج کیا گل کھلائے گا؟
پاناما لیکس کے بعد پی ٹی آئی کے احتجاج میں اس قدرجان آئی کہ اب عمران خان
رائے ونڈ جاتی عمرہ محل کی طرف مارچ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں جس کی تاریخ
کا اعلان ہونے والا ہے ۔اس مارچ سے پی پی پی ،عوامی تحریک نے تو برات کا
اعلان کردیا ہے مگر ایک تانگہ پارٹی اس مارچ کا حصہ بننے جا رہی ہے انکار
کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کسی کے گھر کا گھیراؤ اخلاقی و قطعی طور پرہرگز
درست نہیں لہٰذا ہم اس مارچ کا حصہ نہیں بنیں گے ،جبکہ عمران خان ہر حال
میں جاتی عمرہ کی طرف مارچ کا عزم کر چکے ہیں ۔اس مارچ کے کیا اثرات مرتب
ہوں گے اہل دانش کا کہنا ہے کہ اس مارچ سے حکومت پر پریشر بڑھنے کی بجائے
حکمران مظلوم ہو جائیں گے یہ فیصلہ احمقانہ ہے ،احتجاج کا حق سب کو ہے مگر
اخلاق کے دائرے میں رہ کر ہونا چاہیے عمران خان کی جماعت رائے ونڈ کی طرف
کوچ کرنے والی ہے ملکی حالات کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو پھر بھی یہ
مارچ درست نہیں ہو سکتا ہے کوئی شر پسند شرپسندی کر جائے اور عالمی سطح پر
یہ تاثر قائم ہو کہ ایٹمی پاکستان کے وزیراعظم کا گھر ہی محفوظ نہیں باقی
باتیں تو بعد کی ہیں اس سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوگی جس کے ذمہ دار یقیناً
عمران خان ہی ہوں گے ۔ایک طبقے کا کہنا ہے کہ احتجاجی سیاست نے پاکستان کی
معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ہے پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ اسمبلی میں آکر اپنا
کردار ادا کرے تاکہ کرپشن کرنے والوں کا احتساب احسن طریقے سے ہو سکے ۔ان
تمام آرا ء کا احترام کرتے ہوئے ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان کی تمام
جمہوریت پسند قیادت تقریباً کرپٹ ہو چکی ہے کوئی بھی کرپشن سے پاک نہیں جس
کو بھی جتنا موقعہ ملا اس نے ہمارے پیارے وطن کو اتنا ہی لوٹا جس کو موقعہ
نہیں ملا وہ ابھی تک معصوم بنا بیٹھا ہے ۔یعنی کرپشن کے اس حمام میں تمام
سیاستدان ننگے ہیں ۔ہر کسی کو اپنا چہرہ نظر آتا ہے ۔اپنی کرپشن کے باعث
ہمارے جمہوریت پرست سیاستدان اپنے انجام بد سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ جب
فوجی عدالتیں بنائی جا رہی تھیں تو پاکستان کی ایک بڑی جمہوری سیاسی جماعت
کے لیڈر نے کہا تھا کہ میاں صاحب خٰیال کرنا کہیں ایسا نہ ہوکہ انھی
عدالتوں سے ہمیں ہی سزا نہ مل جائے ۔جب سب سیاستدان ہی کرپٹ ہیں تو پھر
ہونا کیا چاہیے ؟ یہ سوال بہت اہم ہے ۔ان سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟ اس
سلسلہ میں گذارش ہے کہ مسلمانان پاکستان کو چاہیے کہ وہ کرپٹ نظام کے خاتمہ
کیلئے مخلص دینی قیادت کا انتخاب کرکے غیر انتخابی طریقہ اختیار کریں جو
عوامی ،احتجاجی ہو جس کا نعرہ یہ ہو کہ کرپٹ لیڈر اور کرپٹ نظام قبول نہیں
۔ساری قوم کو اس نعرے پر یکجا کیا جائے عوامی انقلاب کے ذریعے پاکستان کا
نظام قرآن وسنت کے مطابق مدینہ منورہ کی پہلی اسلامی ریاست کی طرز پر تشکیل
دیا جائے جس کا عملی طور پر آئین قرآن ہو ۔جب پاکستان میں کرپٹ نظام ختم
اور اسلام کا عادلانا نظام قائم ہو جائے گا تو پھر کسی کو مارچ کرنے کی
ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔بلکہ انصاف کا نظام اس قدر مستحکم ہوگا کہ ہر مجرم
کو کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے گا انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے ۔آج
طاہر القادری جیسا اسکالر ما یوس ہوکر اغیار(کفار) سے مدد کی اپیل مانگنے
چل پڑا ہے ۔ہم طاہر القادری سے سوال کے حق بجانب ہیں کہ کیا اسلام کسی کافر
سے مدد کی اجازت دیتا ہے ایسا کافر جو تمہیں دو وقت کی روٹی کھاتا برداشت
نہ کر سکتا ہو ؟کیا اسلام کا نظام اس قدر غیر معیاری ہو گیا کہ آپ اسلامی
،رحمانی نظام کی بجائے انسانی نظام کو قبول کریں یا انسانی نظام کے
علمبرداروں سے مدد کی اپیل کریں جو انسانوں کو اﷲ کی بجائے اپنا غلام بنانا
چاہتے ہیں ۔مسلم دنیا کی لیڈر شپ کا یہی المیہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ اسلام
سے منہ موڑا اور غیروں کے بت کی پوجا کی جس کے باعث انھیں ذلت ورسوائی
ملی۔ہمارا نقطہ ٔ نظر ہے کہ کرپٹ نظام کے خاتمے کیلئے اسلام سے مخلص ہوکر
تحریک برپا کی جائے۔
٭عید پر دینی مدارس کے ساتھ اس بار بھی سخت زیادتی ہوئی جس کا تذکرہ ازحد
لازم ہے ،یہ سلسلہ گذشتہ سال بھی چلا لیکن اس سال کچھ زیادہ ہی زیادتی ہوئی
صرف 22 فیصد اداروں کو کھالیں اکٹھی کرنے کی اجازت ملی (روزنامہ دنیا)باقی
منہ دیکھتے رہ گئے کھالوں کے ریٹس پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلے گا کہ
پچھلے سال جانور کی کھال تقریباً 3500 سے 4000روپے،چھوٹی کھال( بکرا چھترا)
300 سے 400 روپے میں فروخت ہوئی۔مگر اس سال 2016 ء میں بڑی کھال 1900 سے
2000 روپے جبکہ چھترا کی کھال90 روپے ،بکرا کی کھال 170 سے 250 روپے تک
فروخت ہوئی ۔ کھالوں کا ریٹ اتنا کم ترین سطح پر کیوں آیا؟ اس پر غور کرنے
کی ضرورت ہے ۔ کیا کھالیں اس قدر بے قدر ہوگئی ہیں کہ ان کی طلب ہی نہیں
رہی ؟ایسا ہرگز نہیں ہے کھالوں کی طلب ویسے ہی برقرار ہے مگر کچھ دین دشمن
بااثر عناصر جن کو اسلام اور تبلیغ اسلام کسی صورت پسند نہیں،جو ہر حال میں
کفار کے ایجنٹ ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ انھوں نے دینی مدارس کا حقہ
پانی بند کرنے کیلئے منظم سازش کی ۔اس سازش میں حکومت کو بری الذمہ قرار
نہیں دیا جاسکتا وجہ یہ ہے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں ہر چیز کے ریٹس
بڑھ رہے ہیں جبکہ پاکستان میں عید کے موقعہ پر کھالوں کے ریٹس کم کیوں ہو
ئے ؟ ہفتہ بازاروں میں آلو ،پیا ز،ٹماٹر کے ریٹس کنٹرول کرنے والی حکومت
کھالوں کے ریٹس پر خاموش تماشائی کیوں بنی رہی؟ ۔کیونکہ کہ عالم کفر کا
منظم منصوبہ ہے کہ دینی مدارس کا حقہ پانی بند کرنا ہے۔دین دشمن یہ سمجھتا
ہے کہ اس طرح مدارس کی آمدنی ختم ہوجائے گی اور دین سیکھنے اور سکھانے کا
سلسلہ بند ہوجائے گا ۔کیونکہ مدارس حکومت سے فنڈز تو لیتے نہیں ہیں اس لئے
ان کو ایسے ہی ختم کیا جائے ۔اس سلسلے میں ہماری ایسے بدنیت لوگوں
اورطاقتوں کی خدمت میں گذارش ہے کہ دینی مدارس اﷲ تعالیٰ کے دین کی اشاعت
کا کام کر رہے ہیں ان کا محافظ بھی اﷲ تعالیٰ ہی ہے ۔انشاء اﷲ تعالیٰ کوئی
کفریہ طاقت اور اس کے ایجنٹ دینی مدارس کو ختم نہیں کرسکتے ۔تاریخ اس بات
پرشاہد ہے کہ جس نے اہل دین کا حقہ پانی بند کرنے کی کوشش کی اﷲ تعالیٰ نے
ایسے دین دشمنوں کا حقہ پانی بند کردیا ۔حکمران اور دین دشمن عناصرایسے
گھٹیا کام کرکے اﷲ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں ۔اﷲ کی لاٹھی بے آواز اور
بہت طاقتور ہے جو بڑے بڑے طاقتوروں کا غرور خاک میں ملا دیتی ہے ،جس نے بھی
دین سے ٹکر لی اس کو ذلت ورسوائی ملی ۔حکمران اپنا قبلہ درست کرلیں تو سب
کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے ۔حکمرانوں نے عوام کو بہت ڈرایا مختلف حربے استعمال
کئے کہ داڑھی اور دین اسلام کو بدنام کیا جائے تاکہ عوام ان خاک نشیوں کا
ساتھ چھوڑ دیں مگر ان کو منہ کی کھانی پڑی ۔اب بھی یہی ہوگا کھالوں کے ریٹس
کم کرنے سے اہل دین وقتی طور پر پریشان تو ضرور ہوں گے مگر اتنا تو ارباب
اقتدار کو یادرکھنا چاہیے کہ ان علمائے کرام ،اہل دین نے ہر دور میں بھوکے
پیاسے رہ کر ،چھت کے بغیر بھی تبلیغ دین ،اشاعت دین کاکام کیا ۔اور اب بھی
اس طرح تبلیغ دین کرنے کا حوصلہ ان اﷲ والوں میں موجود ہے ۔حالیہ سازشیں
تبلیغ دین میں ایک لمحے کیلئے رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتیں۔
ہماری ان اہل دین سے گذارش ہے جو ایوان اقتدار میں بیٹھ کر اہل اقتدار کے
ساتھ ہم نوالہ ہم پیالہ نظر آتے ہیں کہ یہ زیادتیوں کا سلسلہ آخر کب ختم
ہوگا؟ آپ کب حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے تاکہ اہل
دین کے مسائل حل ہوں؟ یا مک مکا کی پالیسی پر ہی عمل جاری وساری رہے گا؟
|
|