دھوئیں سے ماحولیاتی آلودگی اور ہماری بے حسی
(Dr. Muhammad Javed, Dubai)
ہماری یہ اولین ذمہ داری ہے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو دھوئیں سے پاک رکھیں چاہے یہ دھواں سگریٹ کا ہو یا دیگر طریقوں سے پیدا کیا گیا ہو،دونوں طرح سے یہ انسانی و دیگر جانداروں کی صحت کے لئے مضر ہے۔ ۔متعلقہ اداروں کو چاہئے اس سلسلے میں لوگوں میں شعور عام کریں اور اس سلسلے میں بنائے گئے قوانین پہ عملدر آمد کو یقینی بنائیں، اپنے سٹاف کو قوانین اور ان پہ عمل در آمد کے حوالے سے تربیت و آگہی دیں۔اور ان پہ عمل نہ کرنے والوں کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے، چاہے اس کا تعلق عام پبلک سے ہو یا قانون کے رکھوالوں سے۔ |
|
|
کچھ عرصہ پہلے مجھے اسلام آباد ائرپورٹ سے
بیرون ملک جانے کا اتفاق ہوا، ڈیپارچر لاؤنج میں بیٹھے ہوئے مجھے سگریٹ کے
دھویں کی بو احساس ہوا ، میں حیران رہ گیا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ
ایک بین الاقوامی ائرپورٹ کے لاؤنج میں جہاں مختلف ممالک کے شہری بھی بیٹھے
ہوئے ہیں، کوئی سگریٹ پی رہا ہے، اور مزید یہ دیکھ کر مجھے شرمندہ ہونا پڑا
کہ ایک غیر ملکی خاتون نے دھوئیں کے اثرات کو شاید کم کرنے کے لئے منہ پہ
رومال رکھا ہوا تھا، میں تشویش کے عالم میں اٹھا ، ادھر ادھر تلاش کیا کہ
کہاں پہ سگریٹ نوشی ہو رہی ہے، تو میں یہ دیکھ کر مزید حیران ہوا کہ
باقاعدہ ایک کونے میں کئی افراد بر اجمان ہیں اورنہایت اطمینان سے سگریٹ
نوشی میں مصروف ہیں، حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ سب لوگ بظاہر شاندار لباس
میں تھے، پڑھے لکھے لگ رہے،کچھ تو شاید انگلش بولنے کی بھی پریکٹس کر رہے
تھے، لیکن جو چیز ان میں نظر نہیں آ رہی تھی وہ اچھا قومی اخلاق یا کردار
تھا، جو کہ ایک باکردار قوم میں ہوتا ہے حالانکہ انہوں نے جن ممالک کا سفر
کرنا تھا وہاں کبھی بھی ان کو اس طرح کی جازت نہیں تھی، اگر وہ اس طرح کی
حرکت وہاں کریں تو انہیں جرمانہ اور ملک بدری کی بھی سزا ہو سکتی ہے۔لیکن
اس بدقسمت ملک میں ان کو کوئی پوچھنے والا روکنے والا نہیں تھا۔۔میں نے ہمت
کی اور ایک سگریٹ نوشی کرنے والے سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے اس نے
بتایا کہ وہ دوبئی جائے گا، میں نے اس سے سوال کیا کہ کیا تم دوبئی کے ائر
پورٹ پہ اسی طرح سگریٹ نوشی کرو گے، تو وہ بڑھی ڈھٹائی سے بولا کہ نہیں۔۔
لیکن یہاں اس لئے پی رہا ہوں کہ کوئی پوچھنے ولا نہیں۔۔۔ یہ تو ہماری ذہنی
اور اخلاقی حالت ہے انٹرنیشنل لاؤنج میں بیٹھ کر ہم اپنی قوم کو کس طرح سے
گٹھیا ثابت کرتے ہیں اس سے بہتر کوئی اور مثال نہیں ہو سکتی۔میں نے مزید
ہمت کی اور ڈیوٹی پہ مامور اہل کار سے بات کی کہ تم ان سگریٹ نوشی کرنے
والے حضرات کو کیوں نہیں روکتے اس نے بتایا کہ وہ معمول کے مطابق اعلانات
کرتے رہتے ہیں لوگ سنتے نہیں، میں نے اس سے استفسار کیا کہ کیا انٹرنیشنل
لاؤنج یا کسی بھی پبلک مقام پہ سگریٹ نوشی کی ممانعت کے حوالے سے پاکستان
میں کوئی قانون موجود ہے؟ اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔اس اہلکار کی کمال
لاعلمی اور پبلک کی بے عملی کی روشنی میں اپنے اداروں کے دیوالیہ پن پہ
افسوس کرتا رہا۔
حالانکہ پاکستان میں باقاعدہ قانون موجود ہے جس کی تازہ ترین ترمیم یا شکل
2009میں لاگو کی گئی، اس کی رو سے تمام پبلک مقامات، سرکاری عمارتوں،
دفاتر، تعلیمی اداروں، آڈیٹوریم، سٹیڈیم، کلبز، بسوں، ٹرینوں،ہوائی جہازوں
میں سگریٹ نوشی ممنوع ہے، خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ اور قید کی سزا ہو
سکتی ہے۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ نہ پبلک کو اس کا علم ہے اور اور نہ ہی اس کی کوئی
اہمیت ہے اور نہ ہی قانون پہ عمل در آمد کروانے والوں کو اس کا ادراک اور
علم ہے۔ سگریٹ نوشی کا قانون ہونے کے باوجود اس پہ کسی قسم کا عمل در آمد
نہیں ہے، اگر صحیح عمل در آمد ہو تو کسی کی مجال نہیں کہ وہ اس طرح کی حرکت
کر سکے۔
دھویں کے یہ مناظر ہم اپنے ارد گرد روزانہ دیکھ سکتے ہیں کہ پبلک مقامات جن
میں پارک، بس سٹاپ، پبلک ٹرابسپورٹ،نیٹ کیفے، ریسٹورنٹ وغیرہ میں آپ کا
تھوڑی دیر بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے،اگر کوئی احتجاج کرے تو الٹا لوگ اس کی
جان کے درپے ہو جاتے ہیں،یقیناً اس جہالت اور بد اخلاقی سے نہ صرف ہم اپنی
زندگیوں سے بلکہ دوسروں کی زندگیوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔اور اس پہ کوئی
ندامت بھی نہیں ہوتی۔
سگریٹ کا دھواں ہو یایا دیگر اشیاء کے جلنے کی وجہ سے پیدا شدہ دھواں ہماری
صحت اور ماحول کے لئے کس قدر نقصان دہ ہے اس کا ہمیں ادراک شاید نہیں ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ سگریٹ کا دھواں نہ صرف سگریٹ نوشی کرنے والے کو مہلک
بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے بلکہ اگر گردو پیش میں کوئی بیٹھا یا کام کر
رہا ہے تو اسے پینے والے سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔اورخاص طور پہ گاڑیوں
میں، پبلک مقامات پہ جہاں لوگ زیادہ جمع ہوتے ہیں، اورخاص طور پہ گھروں کے
اندر کمروں میں جہاں تمام خاندان کے لوگ، خواتین اور خاص طور پہ بچے ہوتے
ہیں وہاں بند کمروں کے اندر سگریٹ نوشی کرنے سے وہ تمام شدید متاثر ہوتے
ہیں۔اور انہیں سانس ودل کی بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ
دھویں کی دیگر اقسام بھی اسی طرح ہماری صحت کو متاثر کرتی ہیں۔ اکثر گلی
کوچوں ،محلوں اور کالونیوں میں کھلے عام یا دیواروں کے کناروں پہ ،کچرہ
کنڈیوں میں کوڑا کر کٹ کے ڈھیروں کو آگ لگائی جاتی ہے اور پورے کے پورے
علاقے اکثر اوقات دھوئیں میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔
کثر اوقات دیکھا گیا ہیکہ جن علاقوں میں درخت زیادہ ہیں۔اور اکثر ان کے پتے
زمین پہ گرتے اور بکھرتے رہتے ہیں۔ان کو اکھٹا کر کے کسی دیوار یا گڑھے میں
ان کو آگ لگا دیجاتی ہے۔جس سے زبردست دھواں خارج ہوتا رہتا ہے۔یہ سلسلہ بعض
اوقات دن بھر جاری رہتا ہے۔پتوں کے مکمل جل جانے کے بعد اس کی راکھ پورے
علاقے میں ہوا کی مدد سے اڑتی نظر آتی ہے۔’’ماہرین کے مطابق پانچ پاؤنڈ پتے
جلائے جائیں تو ان سے ماحول میں ایک پاؤنڈ آلودگی پیدا ہوتی ہے۔پتوں کے
سلگنے سے فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ اور دائی اوکسن جیسی کئی ایک زہریلی
گیسیں خارج ہوتی ہیں جو انسان میں کینسر جیسی موذی بیماریوں کا باعث بن
سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ اڈوں میں خاص طور پہ سردیوں میں لوگ ٹائر جلا کر
بیٹھ جاتے ہیں اس سے نہ صرف وہ اپنے آپ کو مہلک بیماریوں میں مبتلا کرتے
ہیں بلکہ ارد گرد کے ماحول کو بھی متاثر کرتے ہیں۔کیونکہ ٹائر کی ربر کے
اندر بھی مہلک کیمیکلز موجود ہوتے ہیں جو جلنے کے بعد انتہائی خطرناک ہو
جاتے ہیں اور سانس کے ذریعے جسم کو متاثر کرتے ہیں۔
اسی طرح کچرہ کنڈیوں میں مختلف قسم کے کوڑا کر کٹ جس میں کئی کیمیکلز کی
اشیاء،گھریلو استعمال کی اشیاء سے لیکر ادویات اور پلاسٹک وغیرہ سب شامل
ہوتی ہیں۔کو آگ لگائی جاتی ہے۔جب اس کوڑا کر کٹ کو آگ لگائی جاتی ہے تو اس
کے جلنے سے انتہائی سخت قسم کی بدبو علاقے بھر میں پھیل جاتی ہے نیز اس سے
سخت قسم کی ایسی گیسیں نکلتی ہیں کہ سانس لینا دو بھر ہو جاتا ہے۔اس تمام
عمل سے سب سے زیادہ انسان متاثر ہوتے ہیں،اور یقیناً دیگر جاندار وں پہ بھی
یہ اپنے مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔ کوڑا کرکٹ کے جلنے سے ایسے کیمیکل فضا
میں پھیلتے یا پیدا ہوتے ہیں جو نہ صرف سانس کے ذریعے ہمارے پھیپھڑوں میں
جاتے ہیں اور کینسر جیسی مہلک بیماری کا باعث بنتے ہیں ،بلکہ یہ مٹی اور
پانی کے ذریعے ہماری خوراک میں شامل ہو جاتے ہیں دھویں سے ہوا میں پیدا
ہونے والا زہر بارش کے ذریعے واپس زمین پر آتا اور نہ صرف زمین پر موجود
پینے کے پانی کو بلکہ اس پانی سے تیار ہونے والی فصلوں اور اسے استعمال
کرنے والے دوسرے جانداروں پر بھی مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔بالغ افراد کی
نسبت بچوں پر ان کیمیکلوں کے اثرات کہیں زیادہ مضر ہیں۔دھویں کے پھیپھڑوں
میں داخل ہونے سے فوری طور پر کھانسی،متلی اور سانس کی گھٹن جیسی شکایات
پیدا ہو سکتی ہیں۔لیکن اصل میں یہ دھواں پھیپھڑوں میں پہنچ کر کئی بیماریوں
جیسے دل کی خرابیوں اور دمے کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔جن لوگوں کو دل کا مرض ہے
ان کے لئے یہ دھواں کہیں زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اس کے علاوہ یہ
جلد میں الرجی کی وجہ سے دھبے اور دانے بھی پیدا کرتا ہے۔
نارمل صحت کے بالغ افراد کی نسبت بچے،حاملہ عورتیں اور مریض اس دھویں سے
کہیں زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔بچوں میں نشوونما کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی
ہے پھیپھڑوں کے راستے جسم میں داخل ہونے والا دھواں ماں کے پیٹ میں موجود
بچے کی صحت کے لئے نہایت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔اس سے جلد کے علاوہ
آنکھوں اور ناک میں الرجی کی علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔
ہمارے ہاں ہسپتالوں میں بے شمار مریض ہر روز طرح طرح کی بیماریوں کا شکار
داخل ہو رہے ہیں یا ڈاکٹروں اور علاج پہ خطیر رقم خرچ کرتے نظر آتے ہیں اور
بہت سارے ان مہلک بیماریوں کا شکار ہیں اور ان کے پاس علاج کی سکت نہیں اور
وہ بیماری کی حالت میں موت کے منہ میں پہنچ رہے ہیں۔اگر تھوڑا سا غور کیا
جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ کہاں سے یہ بیماریاں لیکر آتے ہیں ؟ اس
میں کوئی شک نہیں کہ اپنے ماحول کی صفائی سے غفلت اور بے شعوری کا خمیازہ
بھگتے ہیں۔
ہماری یہ اولین ذمہ داری ہے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو دھوئیں سے پاک
رکھیں چاہے یہ دھواں سگریٹ کا ہو یا دیگر طریقوں سے پیدا کیا گیا ہو،دونوں
طرح سے یہ انسانی و دیگر جانداروں کی صحت کے لئے مضر ہے۔ ۔متعلقہ اداروں کو
چاہئے اس سلسلے میں لوگوں میں شعور عام کریں اور اس سلسلے میں بنائے گئے
قوانین پہ عملدر آمد کو یقینی بنائیں، اپنے سٹاف کو قوانین اور ان پہ عمل
در آمد کے حوالے سے تربیت و آگہی دیں۔اور ان پہ عمل نہ کرنے والوں کے خلاف
تادیبی کاروائی کی جائے، چاہے اس کا تعلق عام پبلک سے ہو یا قانون کے
رکھوالوں سے۔خاص طور پہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی سے میری گزارش ہے کہ
خدارا ائر پورٹ لاؤنجز کو سگریٹ نوشی سے پاک کرنے کے لئے کوئی مربوط حکمت
عملی ترتیب دیں اور قوانین پہ سختی سے عملد رآمد کروائیں، کیونکہ یہ پوری
قوم کی عزت کا سوال ہے۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.