نیشنل ایکشن پلان ہے کیا ؟ اور کیا راز اس میں چھپے ہوئے ہیں؟

زیرِ اثر انسان کی نفسیات بنتی ہے۔ دہشت گردی اس کا عملی اظہار ہے۔ ایک انتہا پسند ذہن ایک خاص نفسیاتی کیفیت میں جب انسانی جان و مال کو ہدف بناتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیشنل ایکشن پلان

نیشنل ایکشن پلان اصلاً دو اجزا پر مشتمل ہے ۔ ایک جزو وہ ہے جس کا تعلق دہشت گردی کے خاتمے سے ہے۔ دوسرا جزو انتہا پسندی کے خاتمے کو مخاطب بنا تا ہے۔ انتہا پسندی ایک ذہنی اور فکری عمل ہے جس کے زیرِ اثر انسان کی نفسیات بنتی ہے۔ دہشت گردی اس کا عملی اظہار ہے۔ ایک انتہا پسند ذہن ایک خاص نفسیاتی کیفیت میں جب انسانی جان و مال کو ہدف بناتا ہے تو دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ انتہا پسندی کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے اس بات کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی کہ دونوں کو بیک وقت ہدف بنایا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان کا بنیادی تصور بھی یہی ہے۔آج دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی،ان کے مراکز ختم ہو چکے اور ہم بڑی حد تک دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اس لعنت سے ہم نے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔تاہم کچھ عرصے بعدایک آدھ واقعہ ایسا ہو جاتا ہے جو قوم کو ایک بار پھر تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے اور کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

سیاسی و عسکری قیادت کا متفقہ تجزیہ یہی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعض ایسے پہلو ہیں جن پر پوری طرح عمل درآمدنہیں ہو سکا۔ اس کمزوری کے باعث دہشت گردوں کی باقیات کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ کسی واقعے سے معاشرے کو اضطراب میں مبتلا کردیں۔ایسے اِکا دُکا واقعات سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ دہشت گرد ختم نہیں ہوئے۔دراصل ایسے واقعات کا تعلق انتہا پسندی کے ساتھ ہے جس کاخاتمہ ابھی نہیں کیا جا سکا۔اس سے وہ لوگ جو اِدھر اُدھر چھپے بیٹھے ہیں، فائدہ اُٹھاتے اور واردات کر گزرتے ہیں۔

دہشت گرد تو وہ تھے جن کے ہاتھ میں ہتھیار تھے اور وہ پوری قوم کے خلاف منظم تھے۔ ان کے خاتمے کے لئے عسکری اقدامات ہی نا گزیر تھے۔ یہ صلاحیت ہماری فوج میں ہے یا پولیس جیسے سلامتی کے اداروں میں۔فوج نے ضربِ عضب میں یہ ذمہ داری اپنے کندھوں پر اُٹھائی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کو کامیابی سے نبھایا۔ دہشت گردی کے مراکز ختم ہو چکے اور ان کو اس ملک سے دیس نکالا دیا جاچکا۔ اب ناگزیر ہے کہ انتہا پسندی کے مراکز بھی ختم ہوں تاکہ دہشت گردوں کو نئے ہاتھ میسر نہ آئیں۔ اس کے لئے لازم ہے کہ ان افکار کا ابطال کیا جائے جو انتہا پسندانہ ذہن بناتے ہیں۔ ان اداروں کا خاتمہ ہو جو نوجوانوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔

یہ معلوم ہے کہ اس انتہا پسندی کا بڑا سبب وہ دینی تعبیرہے جو گزشتہ دو عشروں میں دنیا بھرمیں پھیلائی گئی۔ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں نے مسلمانوں کو ان کے نظمِ اجتماعی کے خلاف ابھارا۔ ریاست کے وجود کو ہدف بنایا۔ مسلم عوام کے دلوں سے اپنے ملک، حکومت اور فوج کی محبت نکالنے کی کوشش کی اور اس مذموم خیال کو دینی استدلال فراہم کیا۔ دنیا میں مظلوم مسلمانوں کے حالات کا ذمہ دار مسلم ریاستوں کو قرار دیا اور یوں عوام کو اس پر اُبھارا کہ وہ اپنی ہی ریاست کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ موجودہ قومی ریاست کے مقابلے میں ایک اسلامی ریاست یا خلافت کا تصور دیا جو کسی سرحدکو نہیں مانتا اور انہیں دشمنوں کی سازش قرار دیتا ہے۔ جب نوجوانوں کے ذہن بن جاتے ہیں تو پھر ان کے ہاتھ میں بندوق پکڑا کر انہیں اپنے ہی ملک اور فوج کے بالمقابل لا کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے کم عمر لڑکوں کو خود کش حملہ آور بنایا جاتا ہے۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے اس تعبیرِ دین کو ہدف بنانا ضروری ہے۔ قوم کو ایک جوابی بیانیے کی ضرورت ہے جو دین کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں، چند سوالات کو بطورخاص موضوع بنائے اور اس کا اہتمام کرے کہ اس باب میں نئی نسل کے ذہنوں میں موجود اشکال ختم کئے جائیں۔ان میں سے کچھ سوالات درج ذیل ہیں

-1مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی سے کیا مراد ہے اور موجودہ مسلم ریاستوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
-2وہ فوج جو ایک مسلم ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے مامور ہوتی ہے، اس کے ساتھ عام شہری کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ وہ کس طرح اس کا معاون اور مددگار بن سکتا ہے؟
-3موجودہ دور میں اقوام کے مابین تعلقات کی نوعیت کیا ہے اورہمارا دین باہمی معاہدات کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
-4ظلم کے خلاف طاقت کا استعمال ریاست کی ذمہ داری ہے یا عام آدمی کی؟ اگر ہر آدمی کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ خود ہی مدعی ہو، خود ہی منصف ہو اور خود ہی حکومت بھی ہو تو کیا کوئی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے؟
-5ہتھیار اُٹھانے کا حق کس کو ہے اور اسے یہ حق کون دیتا ہے؟
-6انسانی جان کی قدرو قیمت کیا ہے؟
-7جب ہم ایک ملک کے شہری بن جاتے ہیں تو اس کے اداروں اور شہریوں کے بارے میں ہماری دینی ذمہ داری کیا ہے؟
-8امن کی کیا اہمیت ہے اور اگر ہم دشمنوں سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو جدوجہد کے میدان کون کون سے ہیں؟

انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے ان سوالات پر نئی نسل کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔ قومی ایکشن پلان میں، نظریاتی تشکیلِ نو کے لئے ایک قومی بیانیے کی تشکیل کی بات ہوئی ہے جو اس انتہا پسندی کے بالمقابل ایک نقطہ نظرپیش کرتا ہو۔ اس محاذ پر کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ یہ سوالات ہنوز جواب طلب ہیں اور ریاست کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسا بیانیہ سامنے نہیں آ سکا جو انہیں مخاطب بناتا ہو۔ اس کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ مذہبی اداروں اور مذہبی تعلیم کے غلط استعمال کو روکا جائے۔ اس مقصد کے لئے ضروری تھا کہ دینی مدارس اور مساجد جیسے دینی اداروں کو ایک نظم کے تحت لایا جاتا تاکہ کوئی محراب و منبر کو منفی مقاصد کے لئے استعمال نہ کرے۔ ہم ابھی تک اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن کا عمل ابتدائی مرحلے میں ہے اور ابھی تک اس حوالے سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مابین جو اشتراکِ عمل ناگزیر ہے، اس کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر اس اشتراکِ عمل کو نیشنل ایکشن پلان کے حصے کے طور پر دیکھا جائے اور نفاذ کے حوالے سے صوبوں کواس ایکشن پلان سے وابستہ کیا جائے تو اس اختلاف کو دور کیا جا سکتا ہے جو اس وقت سامنے آرہا ہے۔

انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے جہاں ان مراکز کی نشاندہی اور خاتمہ ضروری ہے‘ جہاں یہ نظریات فروغ پاتے ہیں‘ وہاں اس نظامِ ابلاغ کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے جن کے تحت ان افکار و نظریات کو پھیلایا جاتا ہے۔ یہ معلوم حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث بہت سے نوجوان جدید تعلیمی اداروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان اداروں میں ایسی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ سوال یہ ہے کہ یہ نظریات کیسے اپنے مراکز سے سفر کرتے ہوئے ان نوجوانوں کے ذہنوں تک پہنچتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کئے بغیر بھی انتہا پسندی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ نیشنل ایکشن پلان کا وہ جزو بہت کامیاب رہا جس کا تعلق دہشت گردی کے خاتمے سے تھا۔لیکن دوسرا جزء ریاست کی مزیدتوجہ کا متقاضی ہے۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے بغیر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ اس صورتِ حال میں اِکا دُکا واقعات ہوتے رہیں گے جو معاشرے کا امن برباد کرنے کا باعث بنیں گے اور اس سے دہشت گردوں کا یہ مقصد پورا ہو گا جو وہ سماج کو مسلسل حالتِ خوف میں رکھ کر حاصل کر نا چاہتے ہیں۔ آج ضروری ہے کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے بھی پوری سنجیدگی کے سا تھ ایک حکمتِ عملی ترتیب دی جائے۔ امید کی جانی چاہئے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے نئی ریاستی پالیسی نتیجہ خیز ہوگی اور پاکستان سے دہشت گردی کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے مراکز بھی ختم ہوں گے۔
Abdul Moeed
About the Author: Abdul Moeed Read More Articles by Abdul Moeed: 25 Articles with 71357 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.