امریکا تاریخ سے سبق سیکھے !

امریکہ کو نائن الیون کے واقعے کے بعد ایک نئے تنازعے پیدا کرنے کیلئے بڑی دور کی سوچی ہے۔امریکی کانگریس کی جانب سے گیارہ ستمبر2001ء کو امریکا میں ہونے والے نائن الیون کے حیران کن واقعے کو پہلے افغانستان سے جوڑا گیا ، اب 15سال بعد ہرجانے کے نام پر نئے بل لایا جا رہا ہے، جس میں متنازع بل کے ذریعے نائن الیون حملوں میں کسی نہ کسی شکل میں ملوث ہونے پر دوسروں ملکوں سے ہرجانے کا مطالبہ کیا جاسکے گا ، وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہے کہ بارک اوبامہ اس بل کو ویٹو کردیں گے۔وایئٹ ہاوس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا تو ہے کہ ایسے کسی بل کا تصور بھی محال ہے ، جس کے نتیجے میں دوسرے ممالک اور حکومتیں امریکی سفارت کاروں ، فوجیوں اور امریکی کمپنیوں کو بین الاقوامی عدالتوں میں گھسیٹنے کی کوشش کریں ‘۔ ترجمان نے کہا کہ توقع ہے کہ صدر باراک اوبامہ کانگریس کے مذکورہ بل کو ویٹو کردیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ 15سال کی افغانستان کی جنگ سے ابھی تک سبق حاصل نہیں کرسکا کہ ، کسی ملک پر جارحیت کی قیمت کیا ہوتی ہے ؟۔ اربوں ڈالرز کے نقصانات اور ہزاروں امریکی جانوں کے ضائع ہونے اور بے مقصد جنگ میں اپنی امریکی عوام کی خواہشات کے برعکس ، مسلسل مالیاتی خسارے کا سودا کررہا ہے۔ عرب ممالک میں سب سے پہلے سعودی عرب نے امریکہ کو سخت پیغام دیا کہ اگر ایسا بل منظور کیا گیا تو سعودی حکومت امریکہ میں موجود اپنے تمام اثاثے فروخت کردے گی۔ سعودی عرب کی ایک ہی دہمکی نے پورے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا اور امریکی صدر بارک اوبامہ گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے ، سعودی حکمران کے پاس آئے کہ وہ بل کو پاس نہیں ہونے دیں گے۔ مسلمانوں کے کھربوں ڈالرز کا سرمایہ امریکہ اور یورپی ممالک میں ہے ، جس کے بل پر یہ ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک ، مسلمانوں کی دولت سے ہی ترقی پذیر ممالک کو بھاری سود پر قرضے اور من مانی شرائظ منواتے ہیں ، اگر مسلم ممالک مغرب سے اپنے اثاثے واپس اپنے ممالک میں رکھ لیں ، تو مغرب کے بد مست گھوڑے اور اسلام دشمنی کو لگام ڈالی جاسکتی ہے۔ لیکن امیر مسلم ممالک کی مفادات انھیں ایسا کرنے سے روک دیتے ہیں ، عرب ممالک کا سب سے کاری ہتھیار کالا سونا( پٹرولیم مصنوعات) ہیں ، کالا سونا عرب ممالک کی اصل طاقت ہے۔ لیکن اس کے باوجود صلیبی ممالک نے مسلم ممالک کہلانے والی مملکتوں کی ناک میں نکیل ڈالی ہوئی ہے۔ عرب ممالک کی سب سے بڑی کمزوری جدید ہتھیاروں کا نہ ہونا ہے ، لیکن یہ سب کچھ جو وہ امریکہ ، روس اور یورپی ممالک سے خرید رہے ہیں ، یہ بھی ان کے اثاثوں کی بنا پر ہی بنایا جارہا ہے۔پاکستان دنیا میں 40ممالک میں ہلکے اور بھاری ہتھیار فروخت کر رہا ہے۔ بین الاقوامی طور پر پاکستان کے طیارے اور جنگی ساز و سامان کا معیار کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کیا جاسکتا ہے ، لیکن مغربی استعمار نے پاکستان کو اندرونی طور اس قدر کمزور کردیا ہے کہ پاکستانی حکمران ہر وقت اپنے اقتدار کو بچانے میں لگے نظر آتے ہیں۔ نائن الیون کا واقعہ کیا تھا اور اس کے کیا محرکات تھے ، اب یہ دنیا میں پوشیدہ نہیں رہے۔۔Why did the World Trade Center collapse? ۔۔۔ https://www.tms.org/pubs/journals/jom/0112/eagar/eagar-0112.html اس لنک میں مکمل سائنسی انداز میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے گرنے کی وجوہات بتائی گئی ہیں ۔ امریکہ القاعدہ اور ان 19افراد کی فہرست کی بنیاد پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے گرنے کی ذمے داری عرب ممالک پر عائد کرنا چاہتا ہے ، جولسٹ القاعدہ کی جانب سے جاری کی گئی تھی ۔6خلیجی عرب ریاستوں پر مشتمل خلیج تعاون کونسل ( جی سی سی ) اور خاص طور سعودی عرب نے اس متنازعہ بل پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ"انصاف برخلاف اسپانسر برائے دہشت گردی ایکٹ" کی امریکی کانگریس میں اتفاق رائے سے منظوری لے چکی ہے ،اور امریکی سینیٹ بھی 4ماہ قبل اس بل کی منظوری دے چکی ہے۔ اگر صدر امریکہ نے اس پر دستخط کردیئے تو یہ قانون بن جائے گا ، اگر ویٹو کردیا تو سینٹ اور ایوان نمائنداگان اس ویٹو کو دو تہائی اکثریت سے ختم کرسکتے ہیں۔امریکی دعوے کے مطابق نائن الیون کے 19ہائی جیکروں میں سے15کا تعلق سعودی عرب سے ہے ۔سعودی عرب نے اسی تناظر میں امریکی انتظامیہ کو بڑا سخت پیغام دیا ہے۔امریکہ جانتا ہے کہ شاہ سلیمان اس دہمکی کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں ، ہرجانہ وصول کرنا تو دور کی بات ، سعودی حکومت کے امریکہ سے اپنے اثاثے ختم کرنے سے امریکی تمام ریاستوں کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہاں مسئلہ عزت و ناموس کا ہے ۔ یہ وہی عزت و ناموس ہے ، جس کیلئے ملا عمر مرحوم نے پختون روایات کا پاس کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا تھا ۔ امریکہ شائد اس معاملے کی سنگینی کوسمجھنا نہیں چاہتا بلکہ معاملے کو دیگر عرب ممالک کی طرح لے رہا ہے کہ ، مصر ، لیبیا، عراق ، شام، یمن ، افغانستان میں اپنی خارجہ پالیسیوں کے گھمنڈ میں سعودی یا خلیجی ممالک سے اپنی شرائط منوا لے گا ، شائد اسی لئے امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ تاریخی دفاعی معاہدہ کیا ہے ۔ جس میں امریکہ ، اسرائیل کو 38ارب ڈالر کو آئندہ دس سالوں میں امداد دے گا ۔یہ امریکہ کی تاریخ کا کسی بھی ملک سے سب سے بڑا تاریخی معاہدہ ہے ، اس معاہدے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسرائیل ، دفاعی امداد کا کچھ حصہ امریکی ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے اپنے دفاعی انڈسٹری پر لگا سکے گا۔اس معاہدے پر ایک سال سے مذاکرات کئے جارہے تھے اور دوسری جانب مسلم ممالک آپس میں لڑتے رہے ، خانہ جنگیوں میں مصروف رہے اور اس کا فائدہ اسرائیل نے اٹھا لیا ۔ امریکہ نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں ۔ ایک جانب تو اس نے سعودی حکومت سمیت خلیجی ریاستوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ امریکہ ، اسرائیل کی جانب سے غیر قانونی بستیوں کی مسلسل قیام ، فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی ظلم و ستم کے باوجود ، اسرائیل کا اس لئے ساتھ دے گا کیونکہ امریکہ کی نائن الیون کے انتقام کی خواہش افغانستان میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے سے نہیں بجھی ۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر عراق کو اتنا کمزور کردیا کہ اب وہ کئی عشروں تک طاقت نہیں پکڑ سکتا ۔ باوجود اس بات کے ، کہ برطانیہ نے معافی مانگ کر تسلیم کرلیا ہے ، امریکی انٹیلی جنس معلومات جھوٹی تھیں ، عراق پر حملہ کرنا غلط فیصلہ تھا ، لیکن اس کے باوجود ، آج تک عراق سے جنگ کے اخراجات وصول کئے جا رہے ہیں۔دیگر عرب ممالک کے مقابلے میں سعودی عرب کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے کہ سر زمین حجاز میں مسلمانوں کا قبلہ اور حضرت محمد ﷺ کا روضہ مبارک ہے۔جو مسلمان اپنے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا ، اگر امریکہ اپنی سازشوں سے سرز مین حجاز پر ناپاک نظریں بھی ڈالے گا ، تو ایٹمی جنگ کا خمیازہ امریکہ کو نہیں، بلکہ پوری دنیا کو بھگتنا ہوگا ۔ پہلے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان ، صدر بارک اوباما کے ویٹو کو ختم کرنے کیلئے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کرسکیں گے ۔اگر اس کے باوجود جس درخت کی ٹہنی پر امریکی معیشت بیٹھی ہے ، اس پر کہلاڑی مارنے پر امریکی ایوان کمر بستہ ہی ہے تو ایسے آنے والے مصائب کا بھی ادارک ہوگا ۔ اسرائیل کو 38ارب ڈالر کی دفاعی امداد دیکر عرب خلیج ریاستوں کو خوف زدہ ضرور کرسکتا ہے ، لیکن سرزمین حجاز کے تحفظ کیلئے دنیا بھر کے مسلمان اپنے تمام اختلافات بھلا کر امریکہ کیلئے ناقابل برداشت نقصان کا سبب بن سکتے ہیں ۔ امریکہ جن ریاستوں کے ستونوں پر کھڑا ہے ، وہ ستون افغان جنگ اور امریکی جنگی پالیسیوں کی وجہ سے سرک رہے ہیں ، امریکی عوام کی سوچ واضح ہے کہ ہمارا سرمایہ بلا جواز جنگ میں کیوں جھونکا جا رہا ہے۔ امریکی بل کا قانون بن جانا امریکی کی معاشی خودکشی ثابت ہوگا ، اور یہ وہ نائن الیون ہوگا ، جو خود امریکی سینیٹ اور اس کے ایوان نمائندگان سر انجام دیں گے ، صائب رائے یہی ہے کہ امریکہ امن کی جانب راغب ہو اور جنگی طاقت کا استعمال ختم کردے۔مسلم امہ کے درمیان ریشہ دوانیوں سے فائدہ اٹھانے کی بے مقصد کوشش سے پرہیز امریکہ ہائے ریاست کو کچھ اور سال دے دی گی۔نہ نجانے کیوں سوویت یونین کے انجام سے سبق نہیں لیتے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 743852 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.