عالمی ادارے کے ہائی کمشنر برائے انسانی
حقوق زیدرعد الحسین صاحب کشمیر میں ہونے والے مظالم پرمذمت کا اظہار کیا ہے
اور یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کا یہ اظہارِ مذمت شاید کشمیر کے کسی زخم پر مرہم
کا کام کر جائے۔ کیا زید صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی زبان کا گھاؤ ہے جو
کسی طفل تسلی سے بھر جاتا ہے۔ کسی چھری چاقو کا لگا زخم ہے جو پائیوڈین
لگانے سے لہو رک جاتا ہے۔افسوس ہے اس بات پر کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کشمیر
میں صرف ظلم ہی نہیں ہو رہا بلکہ نسلوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ان کی آزادی
سلب کی ہوئی ہے۔ دنیا کا سب سے ظالم اور مکروہ ترین ملک بھارت جو ایک طرف
تو امن اور شانتی کی صدا دیتا ہے تو دوسری طرف ظلم و بربریت کی وہ داستانیں
رقم کر رہا ہے کہ چنگیز، ہلاکو یا ہٹلراس کے آگے پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں
رکھتے۔جناب زید صاحب اقوام متحد ہ کے ہائی کمشنر ہیں۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے
بھی صرف مذمت کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔کیا ان کی نظر سے وہ قراردادیں نہیں
گزری ہوں گی جو اقوام متحدہ میں خود اسی غاصب ملک نے پیش کی تھیں، جب
پاکستان نے ۱۹۴۸ میں اس کی دُم پر پاؤں رکھ دیا تھا۔وہ قراردادیں جن میں
صریحاً ذکر ہے کہ کشمیر کا مسلہ استصوابِ رائے سے حل کیا جائے گا۔ آج ستر
سال ہونے کو آئے ہیں لیکن صرف مذمت ہی ہو رہی ہے اور اسی کو کافی سمجھا جا
رہا ہے۔
ظلم کی انتہا دیکھیں کہ گذشتہ ستر دنوں سے کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ کشمیری
بھائی نہ گھروں سے باہر نکل سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے مذہبی فرائض ادا کر
سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ابھی گزری عیدالاضحی کے موقع پر بھی کشمیری عوام اپنے
گھروں میں ہی محصور رہے۔ جمعۃ المبارک کا دن گزرا لیکن وہ نہ تو جامع مسجد
سری نگر اور دیگر مساجد میں بھی نماز جمعہ ادا نہ کر سکے۔ اسرائیل بھی بہت
ظلم کرتا ہے فلسطین میں، لیکن اتنا اب تک نہیں سنا گیا کہ اس امریکہ کے لے
پالک نے بھی فلسطینی عوام کو اس حد تک اتنے دنوں سے روکے رکھا ہو کہ وہ
اپنے روزمرہ کے کام بھی انجام نہ دے سکیں۔لیکن یہاں کوٹلہ چانکیہ کے لومڑی
کی طرح مکار چیلوں نے کشمیری بھائیوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ لیکن سلام
ہے ان ماؤں کو جنھوں نے ان مجاہدوں کو پیدا کیا۔ یہ مجاہدین پھر بھی اپنے
حق کے لیے ، آزادی کے حق کے لیے کرفیو کی اور پابندیوں کی پرواہ کیے
بغیردنیا کو دکھانے کے لیے احتجاجی جلسے کرنے نکل آتے ہیں۔ پوری دنیا میں
آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کی جاتی ہے۔ بھارت کی اپنی مثال سامنے
ہے۔ دس سے زیادہ تحریکیں چل رہی ہیں جن میں سب سے زیادہ طاقتور خالصہ تحریک
ہے۔ ان سب تحریکوں میں مسلح جدوجہد کا تناسب ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے۔ لیکن
ہمارے کشمیری بھائی درحقیقت پوری دنیا میں امن سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے
ہیں۔ پاکستان ان کی اخلاقی اور سفارتی مدد کرتا ہے۔ جو کہ اسکا حق ہے، فرض
ہے۔ کیونکہ پاکستان کی آزادی کے دن سے ’’کشمیر بنے کا پاکستان‘‘ کا نعرہ
گونج رہا ہے۔اور ان شاء اللہ، یہ نعرہ سچ ہو کر رہے گا۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین جناب سید علی گیلانی، جناب میر واعظ عمر
فاروق، جناب یاسین ملک صاحب نے اس تحریک آزادی کو اپنے خون سے ، اپنے جوش
سے پورے جوبن پر اٹھا رکھا ہے۔ سید علی گیلانی صاحب اگرچہ بزرگ ہیں لیکن ان
کا جذبہ اسی طرح جوان ہے بلکہ آتش جوان ہے جس طرح کسی بھی بیس پچیس سال کے
جوان کا خون جوش مارتا ہے۔انھوں نے کئی عشروں سے تحریک کو اپنے خون سے
سینچا ہے۔انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلی ہیں لیکن ان کی زبان سے
سوائے کشمیر کی آزدی کی مانگ کے اور کوئی لفظ نہیں نکلا۔۱۹۸۸ میں جموں
کشمیر لبریشن فرنٹ کا قیام عمل میں آیا تھا اور اس وقت سے مسلح جدو جہد کا
باقاعدہ آغاز ہوا تھا لیکن اگر صرف مسلح جدو جہد ہی ہو تو کامیابی ناممکن
ہوتی ہے۔کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے سیاسی جد و جہد بہت ضروری ہے۔ اور اس
کو سفارتی ، اخلاقی مدد کی ازحد ضرورت ہے۔ دنیا کے وہ تمام ممالک جو انسانی
آزادی پر یقین رکھتے ہیں جن میں امریکہ ، برطانیہ، بھارت، فرانس، جرمنی،
روس اور چند دیگر ممالک ہر گز شامل نہیں ہیں ، ان کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ
وہ کشمیر کی جدو جہد کو ہر مرحلے پر ، ہر پلیٹ فارم پر سراہیں اور اس کا
ساتھ دیں۔ اس کی آزادی کے لیے قرارداد پیش کریں۔ اس کے حق میں ووٹ دیں۔
گزشتہ ماہ جب انڈیا کا وزیر خارجہ یہاں سارک کانفرنس میں شرکت کرنے آیا تھا
تو اپنی تقریر میں بزعم خویش کشمیر کی جد و جہد کو دہشت گردی کا نام دے
گیا۔ کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ دہشت گردی کون کر رہا ہے؟ کیا وہ بچہ جس نے
ایک بند دکان کے سامنے کھڑے تین فوجیوں پر غلیل تانی تھی ، یا وہ بھارتی
فوجی کتے جو ایک فرد کو گھر سے نکالنے کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں اس گھر
میں گھس جاتے ہیں۔ چادر اور چار دیوارے کا خیال نہیں رکھتے۔ سیاسی جدو جہد
کو دہشت گردی کا نام دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ کیا بھارت یہ بھول گیا ہے کہ
اس کے اپنے ملک میں بھی دس سے زیادہ آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ کیا وہ
بھی دہشت گرد ہیں؟ کیا ان کا حق نہیں کہ وہ بھی اپنی آزادی کے لیے آواز
اٹھا سکیں۔ لیکن بھارت کا تو ایک ہی سبق ہے ، کوٹلہ چانکیہ کا آئین اور اس
پر عمل۔ نہ جیو، اور نہ جینے دو۔
آزادی کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور
میں جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک شخص کو کوڑے مارے
تھے، شاید اس زعم میں کہ اس کے والد گورنر ہیں، کوئی اس کو کچھ نہیں کہے
گا۔ تو اس وقت حضرت عمرؓ نے حضرت عمر و بن العاصؓ سے فرمایا تھا کہ اے
عمرو! تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا ، جب کہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد
جنا تھا۔ آزادی کی آواز جب اٹھتی ہے تو پھر اس کو دبانا ناممکن ہو جاتا ہے۔
کیونکہ وہ فطرت کی آواز ہوتی ہے۔ فطرت جب اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے تو
دنیا کی کوئی طاقت فطرت کو اپنے قابو میں نہیں کرسکتی۔ کیونکہ فطرت اللہ کی
پیدا کردہ ہے۔ اور اللہ کی پیدا کردہ ایک ایسی چیز جو آزادی جیسی نعمت ہے،
کو دبانا، کسی کو اس کا فائدہ نہ اٹھانے دینا انصاف سے بالاتر ہے۔ لیکن
بقول ساحر لدھیانوی:
ظلم پھر ظلم ہے ‘بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ‘ٹپکے گا تو جم جائے گا۔
خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یاپائے سلاسل پہ جمے
تیغِ بیداد پہ یا لاشہء بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔
کب تک بھارت خود ہی اپنی قراردادوں سے چھپتا پھرے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ
کشمیر کو اس کی آزادی دے دی جائے۔ استصواب رائے کا حق اس کو دیا جائے۔ پوری
دنیا کو چاہیے کہ اگر وہ آزادی سے پیار کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے
ملک میں امن رہے، سلامتی رہے تو وہ کشمیر کی سیاسی جدو جہد کو جانیں، اس کو
مانیں اور اس کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر چاہے وہ اقوامِ متحدہ ہو یا
اسلامی ممالک کی تنظیم یا کوئی بھی پلیٹ فارم ہو، پیش کریں۔ اس کے حق میں
آواز اٹھائیں۔ کشمیر کی جدو جہد ہر گز دہشتگردی نہیں ہے۔ ہاں جو چار پانچ
لاکھ کشمیریوں کو دبانے کے لیے دس لاکھ فوجی وہاں کتوں کی طرح گلی محلوں
میں آوارہ گردی کرتے ہوئے بھونکتے رہتے ہیں اور کاٹتے رہتے ہیں ان سے بڑا
دہشتگرد شاید پوری دنیا میں کوئی نہیں۔ اور ان کو کنٹرول کرنے والا بھارت
ان کا مائی باپ ہے۔ اور ان کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ ، برطانیہ جیسے
ممالک کشمیر اور دوسرے خطوں میں عوامی آزادی کو دبانے کی سازشیوں ک سرغنہ
ہیں۔ لیکن یاد رکھو اے دنیا والو۔ تم منصف تو بنتے ہو، لیکن صرف اس معاملے
کے جہاں تمھارا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ اور جہاں مفاد نہیں ہوتا وہاں کہہ دیتے
ہو کہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہر گز نہیں۔ آزادی کسی کا اندرونی معاملہ
نہیں ہوتا۔ اگر مشرقی تیمور میں مسلمانوں نے جدو جہد کی ہوتی عیسائی نہ
ہوتے، تو آج وہ بھی کشمیر کی طرح سلگ رہا ہوتا۔ کشمیر میں تو چنار جل رہے
ہیں، لیکن دنیا والو، تمھارے دل جلیں گے، جب تمھارے ملک میں آزادی کی جدو
جہد شروع ہو گی۔ ان شاء اللہ۔ |