مولاناڈاکٹر وزیر علی خاں اکبرآبادی :انقلاب ۱۸۵۷ء کے حریت نواز
(Ata Ur Rehman Noori, India)
مولاناڈاکٹر وزیر علی خاں اکبرآبادی (متوفی
۱۱۸۹ھ/۱۸۷۳ء )بہار کے رہنے والے تھے۔والد محمد نذیر خاں نے ابتدائی تعلیم
کے بعد مرشدآباد (بنگال)میں انگریزی تعلیم دلائی اور پھر انگلینڈ بھیج
دیاجہاں محنت سے آپ نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی،ساتھ ہی یونانی وعبرانی
زبانیں سیکھیں اور انجیل وتوریت وغیرہ کابھی گہرامطالعہ کیا۔ہندوستان واپسی
کے بعد کلکتہ کے ایک اسپتال میں حکومت کی طرف سے اسسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے ،اس
کے بعد آگرہ آئے۔یہاں اپنے کام کے ساتھ مفتی انعام اﷲ گوپامؤی وکیل صدر سے
ربط و ضبط ہوا۔اور جب مولانااحمد اﷲ مدراسی نے مجلس علماآگرہ بناکراپنی
سرگرمی شروع کی تو آپ ان کے دست وبازوبن گئے۔
’’غدر کے چند علما‘‘میں مفتی انتظام اﷲ شہابی اکبرآبادی لکھتے ہیں کہ:’’
ڈاکٹر وزیر خاں کو انگریز دشمنی اور حریت نوازی کا چسکا شاہ صاحب(احمد اﷲ
مدراسی ) کے فیض صحبت سے پڑا․․․․․․․․۱۸۵۴ء میں پادری فنڈر سے آگرہ میں تین
دن تک مناظرہ ہواجس میں آپ نے مولانارحمت اﷲ کیرانوی کے معاون تھے۔‘‘(چند
ممتاز علمائے انقلاب۱۸۵۷ء ، ص ۱۴۲ ۔۱۴۵)مزید لکھتے ہیں:’’ڈاکٹر وزیر خاں
مردانہ وار نکل آئے۔آگرہ میں جوفوج فدائیوں کی آئی اس کی سرپرستی ڈاکٹر
صاحب نے کی۔انگریز قلعہ بند ہوگئے۔یہ مولوی فیض احمد بدایونی کو لے کر دہلی
پہنچے۔بہادر شاہ کا دربار جماہواتھا۔بریلی سے جنرل بخت خاں آچکے تھے۔’’وار
کونسل‘‘بنی ہوئی تھی․․․․․․․․․ڈاکٹر صاحب بھی اس میں داخل کر لیے گئے۔جنرل
بخت خاں لارڈ گورنرتھے۔انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے ہمراہ لیا۔مولوی فیض
احمد مرزا مغل کے پیش کار مقرر ہوئے۔جنرل صاحب نے انگریزی فوج کو جہاں
مقابلہ ہواشکست دی۔مرزا مغل ایک معرکہ میں منہ کی کھاآئے۔ادھرمرزاالٰہی بخش
نے مرزامغل کوگانٹھ لیاتھااور خوف زدہ کردیاتھاکہ جنرل روہیلہ ہے۔نواب غلام
قادر خاں روہیلہ کے خاندان سے ہے۔بہادر شاہ اور تمہارے پردے میں انگریزوں
کو نکال کر خود تخت نشین ہوناچاہتاہے۔مرزامغل کان کے کچے،دوست دشمن کو نہ
پہنچان سکے۔جنرل بخت خاں نے ایک مورچہ خود سنبھالا۔دوسرامورچہ کشمیری گیٹ
کامرزامغل کے سپردکیا۔مرزانے وقت پر ہمت ہاردی،جیتی ہوئی بازی ہاتھ سے جاتی
رہی۔جنرل بخت خاں نے یہ رنگ دیکھ کر ڈاکٹر وزیر خاں سے کہا!اپنی فوج کو
علاحدہ کرلواور اپنے ہمنواجوہواس کو ساتھ لو،یہ مغل بچے انگریز سے
سازبازکرگئے۔نتیجہ یہ نظرآتاہے کہ ہم سب یہیں کھیت ہوکے رہ جائیں گے۔ مقبرہ
ہمایوں جاکربادشاہ کی خدمت میں جنرل بخت خاں باریاب ہوااورسب حال عرض کیا
اور کہاکہ آپ میرے ساتھ چلیے ۔مگر نواب زینت محل نے بادشاہ کواس کی ہمراہی
کے لیے آمادہ نہ ہونے دیا۔آخرش!جنرل صاحب دلّی سے روانہ ہوگئے۔ان کے جاتے
ہی مقبرۂ ہمایوں میں بہادرشاہ گرفتار کرلیے گئے۔‘‘(چند ممتاز علمائے
انقلاب۱۸۵۷ء ،ص۱۴۶)
دہلی میں پسپائی کے بعد جنرل بخت خاں روہیلہ ،ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی اور
مولانافیض احمد بدایونی وغیرہ اپنی فوج کے ساتھ لکھنؤ چلے گئے۔وہاں
مولانااحمد اﷲ شاہ مدراسی کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف مورچہ بندی
کی۔پھر سب کو لکھنؤ چھوڑ کر شاہجہاں پورجاناپڑا۔وہاں بھی جب ناکامی ہوئی تو
منتشرہوکراکثرحضرات نیپال چلے گئے۔ڈاکٹر وزیرخاں مکۂ مکرمہ پہنچے اور
مولاناکیرانوی کے ساتھ مکۂ مکرمہ ہی میں مقیم ہوگئے۔ڈاکٹر صاحب مکۂ مکرمہ
میں چودہ سال تک بقید حیات رہے۔وہیں ۱۲۸۹ھ/۱۸۷۳ء میں آپ کاانتقال ہوااورجنت
المعلیٰ میں تدفین ہوئی۔ |
|