’’حکومت پاکستان کا پہلا فرض امن
وامان قائم رکھنا ہے تاکہ ریاست لوگوں کے جان و مال اور مذہبی عقائد کا
مکمل تحفظ کر سکے۔ دوسری چیز رشوت خوری اور بد دیانتی کا خاتمہ ہے۔ ہم سب
کو آہنی ہاتھوں سے اسے ختم کر نا ہو گا۔ ذخیرہ اندوزی اور منا فع خوری ایک
لعنت ہے۔ یہ ایک معاشرتی جر م ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔
ایک اور چیز جو مجھے سخت نا پسند ہے وہ ہے اقرباء پروری۔ میں اقرباء پروری
کو بلاواسطہ یا باالواسطہ کسی طور پر برداشت نہیں کروں گا۔ مذہبی رواداری
اس ملک کے شہریوں کا حق ہے۔ اقلیتوں کو اس ملک میں برابر کے حقو ق ملنے
چاہیے‘‘ یہ اقتباس ہے اس تقریر کا جو بابائے قوم اور بانی پاکستان محمد علی
جناح نے 11اگست 1947کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں کی تھی۔ 40منٹ کی
اس تقریر میں بار بار ہال تالیوں سے گونجتا رہا ۔گویا اسمبلی میں موجود
ارکان نے بار بار تالیاں بجا کر حضرت قائد اعظم کی درج بالا تقریر پر اظہارِ
اطمینان کیا اور ان سب باتوں کی تائید و حمایت کی جو قائد اعظم ایک
نوزائیدہ مملکت کی دستور ساز اسمبلی
میں اپنے پہلے خطاب کے دوران کر رہے تھے۔
وقت گزرتا رہا۔ یہ باتیں کرنے والا اس خطاب کے ایک سال اور ایک ماہ بعد ملکِ
عدم کو سدھار گیا۔ تالیاں بجا بجا کر اس کی باتوں کی تائید کرنے والوں میں
سے کسی کو گولی کا نشانہ بنایا گیا تو کسی سے جبری طور پراستعفیٰ طلب کر
لیا گیا۔ امن و امان قائم رکھنے اور ریاست کے لوگوں کے مذہبی عقائد کے تحفظ
کا درس دینے والا نہ رہا تو ’’موقع پرستوں‘‘ نے اس خلا کا فائدہ اٹھا کر
نفرتوں کے بیج بونا شروع کر دئیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان بیجوں کی آبیاری
ہوتی رہی اور بالآخر یہ بیج سوہنی دھرتی کا سینہ پھاڑ کر باہر نکل آئے ۔ان
بیجوں سے اُگنے والے نحیف و ناتواں پودوں کو تناور درخت بننے میں زیادہ وقت
نہیں لگا اور پھرنہ صرف ہم محمد علی جناح کا امن قائم رکھنے کا خواب پورا
نہ کر سکے بلکہ اپنا ایک بازو بھی گنوا بیٹھے۔نفرتوں کی آبیاری کرنے والی
یہ قوتیں اب پھر سے سر گرم عمل ہیں۔اب پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی
حیثیت رکھنے والے شہر کراچی کو خاک و خون کی ہولی کھیلنے کے لئے منتخب کیا
گیا ہے۔وہ شہر جس کی گلیوں میں ہمارے قائد کے قدموں کے نشان ثبت ہیں آج وہ
شہرقائدزخم زخم ہے ،اس کی گلیاں لہو لہوہیں،ناقابلِ شناخت بوری بند لاشیں
اس شہر کی پہچان بن گئی ہیں۔کراچی کے شہری جس کرب سے گذر رہے ہیں اس کا
اندازہ وہ خاندان ہی لگا سکتے ہیں جن کے گھروں سے آئے دن جنازے اٹھ رہے
ہیں۔یہ وہی خاندان ہیں جن کے بزرگوں نے گذرے ہوئے کل کو پاکستان کیلئے
قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں،ستم جھیلے اورگالیاں کھائیں۔آج یہ لوگ جناح
کے تصورپاکستان کو دھندلاتا ہوا دیکھ کر مضطرب ہیں اور ان کی آنکھیں آج کے
پاکستان کے قائدین پرلگی ہیں دیکھیں ان کا یہ انتظار کب ختم ہوتا ہے
اورشہرقائد کراچی کو کب امن نصیب ہوتا ہے۔
ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کو لعنت سمجھنے والے جناح کی آنکھ بند ہونے کی
دیر تھی کہ اس نوزائیدہ ملک کے پیشہ و ر تاجروں نے ذخیرہ اندوزی اور منافع
خوری کا ایسا بازار گر م کیا کہ اس کے اثرات آج بھی ہماری معیشت پر نمایاں
طور پردیکھے جا سکتے ہیں ۔رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں اشیائے
خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے کیا قائد کے اس فرمان کی روح سے
واقف نہیں۔ اقر باء پروری کو ناپسند کرنے والے جناح کے پاکستان میں آج بھی
نواب ابنِ نواب اور غلام ابنِ غلام
کا کلچر زندہ ہے۔ اہل سیاست کی تیسری نسل ایوانِ اقتدار میں ہے تو
بیوروکریسی کی تیسری نسل اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تیار کھڑی ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنے والے جناح کے پاکستان میں آج مذہب کے نا م پر
اقلیتوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کچھ لوگ جو اپنے آپ
کو اسلام پسند کہلواتے ہیں اپنے نظریات کے پرچار کے لئے مسلح جدوجہد پر
اُتر آئے ہیں۔ یہ اسلام پسند اقلیتوں کے بارے میں کہے گئے رسول اکرمﷺ کے
فرامین تک سے نابلد ہیں اور مغربی مورخین کی اس رائے کو مضبوط کرنے پر تُلے
ہوئے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ یہ اسلام پسند برصغیر پاک وہند
کے صوفیاء کی تعلیمات سے بھی بے بہرہ ہیں ۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ
برصغیر پاک و ہند میں لاکھوں غیر مسلم بندوق سے نہیں بلکہ صوفیا کے حسنِ
سلوک سے مسلمان ہوئے تھے۔ برصغیر پاک وہند کے صوفیاء کرام نے ہمیشہ ہندووئں
اور مسلمانوں کے درمیان رواداری کو فروغ دیا۔ ان صوفیاء کرام نے لوگوں کو
قریب لانے کے لیے شاعری اور موسیقی کا سہار ا لیا۔ ہندووں کے ہاں چونکہ
موسیقی کو مذہبی فریضے کے طور پر لیا جاتا ہے اس لئے صوفیاء کرام نے قوالی
کی رسم کے ذریعے ہندووں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ خواجہ معین
الدین اجمیری، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید گنج شکر، مخدوم علاؤ
الدین ، نظام الدین اولیا، بہاؤالدین زکریااور شیخ صدر الدین نے ہزاروں غیر
مسلموں کو دولتِ اسلام سے مالا مال کیا لیکن ان سب صوفیاء کا پیغام محبت
تھا، امن تھا، بھائی چارہ تھا۔ ان صوفیاء کرام نے دلوں کو محبت اور رواداری
سے فتح کیا اسلام کی تبلغ کے لئے کبھی زورِ بازوکاسہارانہیں لیا۔
آج قائد کے پاکستان کو امن چاہیے ،ہر آن رواداری کا مظاہرہ چاہیے، رشوت
خوری اور بدیانتی کا خاتمہ چاہیے، ذخیرہ اندوزی سے چھٹکارہ چاہیے اور سب سے
بڑھ کر یہ کہ اس کے لوگوں کو اتفاق وا تحاد چاہیے۔ پاکستان کی پہلی قانون
ساز اسمبلی کے خطاب کے دوران کہی گئی جناح کی باتوں کو ہمیں عملی جامہ
پہنانا ہوگا ہم ایک زندہ قوم ہیں جو قوم قراردادپاکستان پاس ہونے کے بعد
سات سال کے مختصر عرصے میں ایک آزاد ملک حاصل کر سکتی ہے اس کے لئے کوئی
بھی کام مشکل نہیں ہم نے آج کے پاکستان کو جناح کے خواب کی تعبیر بنانا ہے
اور انشاء اﷲ وہ دن دور نہیں جب آج کا پاکستان پھر سے جناح کا پاکستان بن
جائے گا۔
بہتا ہے جو گلیوں میں لہو اہلِ وفا کا
مضبوط مرے شہرکی بنیاد کرے گا |