مولانا آزاد - جدید ہندستان میں اعلا تعلیم کے معمارِ اوّل

 ترجمہ: افشاں بانو

مولانا آزاد روایتی معنوں میں ماہرِ تعلیم نہیں تھے۔ سیاست داں اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک عالمِ دین اور مذہبی مفکّر کے طور پر مسلّمہ حیثیت کے مالک تھے۔آزادانہ طور پر تعلیم سے اُن کا تعلّق کچھ زیادہ نہیں تھا۔ اپنے والد کے مدرسے میں مختصر میعاد کے لیے معلّمی اور عربی کے نصابِ تعلیم میں اصلاح کی تجاویز تک ہی ان کی تعلیمی سرگرمیاں محدود تھیں۔ مذہبی تعلیم سے متعلّق ان کی مبسوط فکر کا کوئی سلسلہ ۱۹۴۷ء سے قبل اپنی شکل واضح کرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن قومی تحریک کی اہم شخصیتوں نے آزاد ملک کی پہلی کابینہ میں مولانا آزاد کو ہندستانی معاشرے کے لیے جدید تعلیم کا موسس اور معمار بنانے کا فیصلہ سرسری غور و فکر کے تحت نہیں کیا ہوگا۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ مولانا آزاد کی پوری تعلیم روایتی عربی، فارسی اور اردو زبانوں اور مضامین کی تھی اور وہ انگریزی یا جدید زبانوں کو بولنے یا لکھنے میں استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے برعکس پہلی کابینہ میں مغربی تعلیمی سلسلے اور فکر کے متعدّد ماہرین ستاروں کی طرح چمک رہے تھے۔ کبھی کبھی یہ بات حیرت میں ڈال دینے والی لگتی ہے کہ جب اس ملک میں جدید تر تعلیم کا نظام قائم کرنا طے ہوا تو اُس کا قائد کیوں کر کسی مشرقی زبان یا تہذیب سے متعلّق شخصیت کو بنایا گیا ہوگا؟
جواہر لعل نہرو اور اس عہد کے ان کے رفقا نے جب مولانا آزاد کے کاندھوں پر ہندستانی معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانے کی ذمہ داری سونپی، اس کے پیچھے فی الحقیقت متعدّد وجہیں رہی ہوں گی۔ تعلیم کو گہرائی اور وسیع تناظر میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ عام ہندستانی معاشرے کو کیسی اور کس طرح کی تعلیم دی جائے، اس کے بارے میں مولانا آزاد سے سچ مچ یہ توقّع کی گئی ہوگی کہ وہ اپنی حسّاس فکر اور مہارت سے غیر تعلیم یافتہ ہندستانی سماج کو تعلیم جیسی ایک ایسی صحت افزا غذا عطا کریں گے جس کی مدد سے وہ معاشرہ اپنی کمزوریوں سے نجات پائے گا اور مستقبل میں استحصال سے عاری، پُراز مساوات اور ہمہ گیر معاشرے کی تعمیر کر سکے گا۔
مولانا آزاد خود کسی نامی گرامی تعلیمی ادارے کے فارغ نہیں تھے۔ اپنے والد مولانا خیر الدین کے نجی مدرسے میں ہی ان کی رسمی تعلیم مکمّل ہوئی تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں انھیں اسی مدرسے میں ۱۵؍ طلبہ کو منطِق، حساب اور فلسفے کی ابتدائی تعلیم دینے کا موقع ملا۔ مولانا آزاد کے والد تعلیم کے معاملے میں کچھ زیادہ روایتی ذہن کے مالک نہیں تھے اور وہ لڑکوں کے ساتھ اپنی لڑکیوں کی تعلیم (مذہبی ہی سہی) کا انتظام کرانے میں بھی کامیاب رہے۔ وہ ایک ذرا سی جدّت کے ساتھ جی سکتے تھے اور بدلتے ہوئے زمانے پر بھی ان کی نظر تھی۔ ۱۹۰۸؁ء میں جب مولانا خیر الدین کا انتقال ہوا، اس وقت ابوالکلام آزاد ایک قومی شخصیت کے طور پر اُبھر رہے تھے اور ان کے معاشرتی اور مذہبی افکار پورے ملک میں تیزی سے پھیل رہے تھے۔ صحافت کی طاقت کو آزاد نے پہچان لیا تھا اور ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں ان کے مضامین عزت و احترام کے ساتھ شایع ہونے لگے تھے۔ یہی نہیں، ۱۵ سے ۱۷؍ برس کی عمر میں انھوں نے ’لسان الصدق‘ نام سے ۱۹۰۳-۰۵ء میں جو پندرہ روزہ شایع کیا، وہ اُن کے فکری ارتقا کی زندہ جاوید بنیاد بن چکا تھا۔
نوعمری کے ابوالکلام آزاد کا جسمانی ارتقاکے مقابلے ذہنی ارتقا زیادہ ہوا۔ وہ ہندستان ہی نہیں، عالمی سطح پر مذہبی اور سیاسی صورتِ حال کو خوب اچھی طرح سے سمجھنے لگے تھے۔ اُن کی متفرّق تحریروں میں قومی اور عالمی مسائل کا کوئی سہل یا سرسری نسخہ نہیں پیش کیا جاتا تھا۔ وہ مسائل کی پیچیدگیوں کو سمجھ رہے تھے اور یہ جانتے تھے کہ معاشرے کے متعدّد مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کا حل ہمہ گیریت میں ہی ممکن ہے۔ صرف پندرہ برس کی عمر میں ۱۹۰۳؁ء میں انھوں نے ’سوشل ریفارم‘ عنوان سے ’لسان الصدق‘ میں جو مضمون شایع کیا، اس کے مقاصد پر غور کیجیے اور مولانا کی عمر کا اندازہ کیجیے؛ ہر کوئی حیرت زدہ رہے گا کہ کس طرح ان کی نظر مسائل کی بنیاد تک پہنچتی تھی۔ فرقہ وارانہ خیر سگالی اور ہندو مسلم اتّحاد کی قدر و قیمت سے وہ واقف تھے لیکن ہندستانی معاشرے کی اُس جکڑبندی کا بھی انھیں ٹھیک ٹھیک علم ہے جسے رسم و رواج اور توہّم پرستی کے طور پر خوب خوب قائم رکھا گیا تھا۔ مولانا آزاد کا واضح طور پر ماننا تھا: ’’تعلیم کو مسلمانوں میں آج تک جو ناکامیابی ہوئی، وہ بہت کچھ رسم و رواج کی پابندی سے ہوئی‘‘۔ اس سے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ مولانا آزاد ایک بالغانہ ذہن سے ہندستانی معاشرے کا احتساب کررہے تھے۔
زندگی کو مکمل طور سے سمجھنا اور چھوٹے چھوٹے اجزا کو جوڑ کر زندگی کا وسیع منظرنامہ تیّار کرنا؛یہ خیال مولانا آزاد کی شخصیت کی وہ قوّت ہے جس کے سہارے قومی تحریک کے دوران مہاتما گاندھی کی فکری قیادت میں مولانا آزاد روز بہ روز اور بھی پختہ تر ہوتے چلے گئے۔ جیسے جیسے ان پر ذمّہ داریاں آتی گئیں، وہ اور زیادہ اعتماد اور مہارت کے ساتھ ان سے نپٹنے میں کامیاب ہوئے۔ کانگریس صدر کے طور پر ان کے کاموں کو تمام مکاتبِ خیال کے لوگوں نے اہم مانا۔ اسی طرح وزیرِ کابینہ کی حیثیت سے ان کے کاموں کے غیر جانب دارانہ احتساب سے اب بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ملک کے سب سے کامیاب وزیرِ تعلیم تھے۔
قومی تحریک سے متعلّق ہمارے سیاسی لیڈروں کو ملک کے مستقبل کی تصویر میں رنگ بھرنے کی ایک اہم ذمّہ داری سونپی گئی۔ مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو، مولانا آزاد، جے پرکاش ناراین، رام منوہر لوہیا، بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس اور متعدّد تحریک کار--- سب کے پاس اپنے ملک کے مستقبل کی ایک علاحدہ تصویر تھی اور سب کی آنکھوں میں نئے ہندستان کے ہزاروں خواب تھے۔ قومی تحریک کے دوران معاشرے نے دھیرے دھیرے تمام لیڈروں کی تربیت اس طرح سے کردی تھی کہ وہ سب ایک ساتھ مل کر ملک کی تعمیرِ نَو کا خواب دیکھ سکتے تھے۔ مولانا آزاد اُن لیڈروں میں اپنی واضح اور مخصوص پہچان رکھتے تھے۔ وہ کانگریس کے سب سے کم عمر کے صدر تھے اور لگاتار سب سے زیادہ دنوں تک کانگریس کی صدارت کا عہدہ بھی انھی کے پاس رہا۔ آج سے ایک صدی پہلے جس عمر میں بچّے مدرسے یا اسکول میں جایا کرتے تھے، مولانا آزاد اس وقت تک ملک کی سطح پر ماہر خطیب، مشہور صحافی اور بااعتبار مذہبی رہنما کے طور پرقبولیت حاصل کرچکے تھے۔ ایسی غیر معمولی شخصیت کو جب جدید ہندستان کے تعلیمی نظام کی مکمّل صورت گری کی ذمّہ داری ملی، تو انھوں نے اپنی ہمہ جہت ذہانت سے متعدّد یادگار کارنامے انجام دیے۔
کبھی کبھی یہ سوال بعض لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہوگا کہ مولانا آزاد آخر کیسے اتنے بڑے بڑے کاموں کی انجام دہی میں کامیاب ہوپائے؟ یہ بھی اہم ہے کہ مغربی تعلیم جیسے شعبوں کی ترقّی میں وہ کس طرح کامراں ہوئے؟ ایسے سوالوں کے جواب میں ہمیں یہ یاد ہونا چاہیے کہ قومی تحریک سے جو نسل آزادی کے بعد ملک کے سیاسی منچ پر اقتدار کا ساجھی دار بنی، اس میں مُٹّھی بھر افراد کے استثناکے ساتھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کے سب آزادی کی جدوجہد میں دیکھے گئے خوابوں کو زمین پر اُتارنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ تاریخ میں ایسا وقت بار بار نہیں آتا جب زمانہ اپنے دیکھے ہوئے خوابوں کو مجسّم کرنے کا موقع دے دے۔ اشفاق اﷲ خاں، بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس میں سے زندگی میں کسے یہ موقع ملا کہ اپنے خوابوں کے مطابق جدّو جہد کے بعد اپنے ملک کی تعمیرِ نَو خود اپنے ہاتھوں سے کرسکیں۔ گاندھی بھی آزادی ملنے کے ساتھ ہی شہید کردیے گئے۔ خود جواہر لعل نہرو وزیر اعظم کے طور پر اپنی تخیّل پسندی کو تیزی سے زمین پر اتارنا چاہتے تھے۔ مہاتما گاندھی کی دائمی ترغیب میں جواہر لعل نہرو کی فعال قیادت کا ہی یہ ثمرہ تھا کہ جس شخص کو جو وزارت دی گئی، وہ اپنے سارے خواب اور پوری طاقت اسی میں صَرف کرکے ملک کو کامیابی کی راہ پر لگانے کے لیے چل پڑا۔
مولانا آزاد انگریزی زبان کے واقف کار نہیں تھے اور مغربی تعلیم کے اداروں سے کوسوں دور تھے۔ ماہرِ تعلیم کی اصطلاحی تعریف کے دائرۂ کار سے الگ تھلگ رہنے کے باوجود اپنی عظیم ذمّہ داریوں میں اسی لیے وہ کامیاب ہوسکے کیوں کہ وہ تعلیم کو معاشرے میں تبدیلی کا ایک اہم اوزار سمجھتے ہوئے اپنا کام کررہے تھے۔ آیندہ سطروں میں یہ بات واضح ہوجائے گی کہ وہ کس طرح تعلیم کے سہارے غربت، بے روزگاری، چھوا چھوت اور معاشرتی مساوات جیسے دوسرے سینکڑوں تصوّرات کے ساتھ پیش قدمی کر رہے تھے۔ ان کی کامیابی کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ تعلیم کو فی نفسہٖ مقصد، نشانہ یا منزل نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنے معاشرے کی تعمیرِ نَو کا ایک مکمّل ہتھیار سمجھتے تھے۔ جسے اپنے مقصد کا علم ہوجائے گا، نشانہ یا منزل کو جو سمجھ جائے گا، اسے کسی بھی راستے پر چلنے پھرنے یا دوڑنے میں کبھی پریشانی نہیں ہوسکتی۔ اصل منزل کے نہیں جاننے والے راستوں میں بھٹکتے ہیں اور راستوں کے نشیب و فراز سے ہراساں رہتے ہیں۔ لیکن منزل کے جاننے والے چاہے کسی راستے سے چلیں، وہ خدا کو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ مولانا آزاد تعلیم میں اسی لیے کامیاب ہوئے کیوں کہ انھیں ہندستانی سماج کی ضرورتوں کا علم تھا۔ انھیں معلوم تھا کہ اپنے ملک کے لیے انھیں ایک تعلیمی محل تیار کرنا ہے اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔
مولانا آزاد کے تصوّراتِ تعلیم اور تعلیم سے متعلّق ان کے کارناموں کا جائزہ تفصیل طلب ہے۔ اس لیے ا س مطالعے میں مَیں خود کو اعلا تعلیم تک محدود کرنا چاہوں گا۔ کسی دوسرے موقعے پر اسکولی تعلیم یا تعلیم کے دوسرے شعبوں کے سلسلے سے مولانا آزاد کے کارناموں پر غور و فکر کیا جائے گا۔وزیرِ تعلیم کے بہ طور اعلا تعلیم کے شعبے میں انگریزوں کے چلے جانے کے بعد مولانا آزاد کے سامنے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ یونی ورسٹیوں میں ایک طرف پڑھنے والوں کی تعداد بڑھے تو دوسری طرف تعلیم کے معیار میں کسی طرح کی گراوٹ نہ آنے پائے۔ وہ انگریزی کے ذریعہ دی جانے والی تعلیم کی خوبیوں اور خامیوں کو اچّھی طرح سے سمجھتے تھے۔ ۹؍نومبر ۱۹۵۳؁ء کو تعلیم کی مرکزی صلاح کار کمیٹی کی میٹنگ کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے یہ واضح کیا تھا کہ انگریزوں نے اعلا تعلیم کے شعبوں میں اُن تھوڑے سے افراد کو آگے بڑھایا جنھیں وہ اپنے کاموں کی تکمیل کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ یہ طریقۂ کار انگریزوں کی ضرورت کے حساب سے ممکن ہے، درست ہو لیکن ہندستانی سماج کی ضرورت اور خواہش کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا۔ مولانا نے واضح کیا کہ کہیں نہ کہیں بے روزگاری اسی غلط پالیسی کی بنیاد سے پیدا ہوئی ہے کیوں کہ تعلیم کی نشر واشاعت کے ساتھ جس طرح سماج کی ضرورتوں اور تعلیم یافتہ افراد کو جوڑتے جانا چاہیے تھا، وہ کہاں ہوا؟
اپنے خطبے میں انھوں نے یونی ورسٹیوں کو ایسے کارخانے سے موسوم کیا جن کی پیداوار اور سماج کی ضروریات میں کوئی تال میل نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلا تعلیم کی موجودہ سمت کو مکمّل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو نہ تو استعمال میں لاسکیں گے اور نہ ہی قوم کی استعداد کی واجب نشوونما کے لیے ماحول تیار کرسکیں گے۔ مولانا آزاد آزادی کے بعد تیزی سے تعلیم کی نشر و اشاعت اور اعلا تعلیم کے شعبے میں حوصلہ افزا فعالیت کا احترام کرتے تھے اور اسے اور بھی متحرک کرنا چاہتے تھے لیکن انھوں نے ہماری یونی ورسٹیوں کو خبردار کیا تھاکہ انگریزوں کی بنائی اعلا تعلیم کی دنیا ہمارے لیے ماڈل نہیں ہوسکتی۔ ان کو آج سے ساٹھ برس پہلے پتا تھا کہ ہمارے ملک میں تعلیم اور خواندگی کے فروغ کے مقابلے روزگار کے مواقع نہیں بڑھ سکیں گے جس سے بے روزگاروں کی رفتہ رفتہ ایک فوج تیّار ہوجائے گی۔ اسی لیے انھوں نے ماہرینِ تعلیم کو روایتی نظریوں سے دست بردار ہونے کی صلاح دی اور اعلا تعلیم کو روزگار سے جوڑنے کے لیے یونی ورسٹیوں کی رہنمائی کی۔
مولانا آزاد اعلا تعلیم کے شعبے میں تعلیم و تربیت اور ہنر کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ وہ یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ ہماری یونی ورسٹیوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے طالب علم کن کن شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اُن شعبوں میں کامیاب ہونے کے لیے طالب علم کو کس طرح خاص تربیت کی ضرورت ہے؟ آج کالج اور یونی ورسٹیوں میں سینکڑوں کی تعداد میں پیشے ورانہ نصاب کی تعلیم دی جارہی ہے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ان سے طالب علم اپنے حصّے کا روزگار پانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ یہ سوچیے کہ روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ پیشے ورانہ تعلیم کی طرف آج سے آدھی صدی سے زیادہ پہلے مولانا آزاد نے بِگُل نہ پھونکا ہوتا تو آج بھی ہمارا ملک دنیا کے انتہائی پچھڑے ملکوں میں ہی شامل رہتا۔
اعلا تعلیم اور خاص طور سے یونی ورسٹی کی تعلیم کو ٹھوس بنیاد دینے کے لیے مولانا آزاد نے یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن جیسی مستقل تنظیم کا قیام عمل میں لایا۔ تعلیم کے لیے متعدّد کمیٹیوں نے ہندستانی حکومت کو اس وقت کی تین مرکزی یونی ورسٹیوں کو معاشی اور تعلیمی اعتبار سے مزید استحکام دینے کے لیے بعض فراخ دلانہ فیصلوں کے بارے میں سفارشیں کی تھیں۔ آزاد مرکزی یونی ورسٹیوں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی تمام یونی ورسٹیوں کو لازمی مالی معاونت دے کر ملک میں اعلا تعلیم کے لیے ایک مضبوط بنیاد کا تصوّر رکھتے تھے۔ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کی پہلی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے جو باتیں کہیں، انھیں سنہرے حروف میں لکھا جانا چاہیے۔ انھوں نے یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کو ایک مکمل خود مختار ادارے کے طور پر تسلیم کیا اور آیندہ کی دشواریوں کو پہچانتے ہوئے مرکزی یا صوبائی حکومت کی آئے دن کی مداخلت سے یونی ورسٹیوں کوپورے طور پر بچالینے کی کوشش کی تھی۔ آزاد نے یہ بھی انتظام کیا تھاکہ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے مشوروں اور فیصلوں کو حکومتِ ہند واضح طور پر قبول کرے گی یا اس کے لیے یہ ماننا ضروری ہوگا۔
۲۸؍دسمبر ۱۹۵۳؁ء کو یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کی تاسیسی تقریب میں انھوں نے یونی ورسٹیوں کے کام کاج میں باہمی رابطے کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا اور تحقیق یا دیگر تعلیمی کاموں میں تکرار کو ایک سنگین مسئلے کے طور پر اجاگر کیا۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے قیام کے بعد اعلا تعلیم کو مضبوطی ملے گی اور ملک کی تعلیمی ترقّی میں یونی ورسٹیاں اپنا اہم کردار ادا کر سکیں گی۔ پچھلی آدھی صدی سے زیادہ عرصے میں اعلا تعلیم کے یہ مراکز بے شک بہت مضبوط ہوئے ہیں۔ انھیں معاشی سطح پر کافی استحکام عطا کیا جاچکا ہے اور ان کے روزانہ کام کاج میں عام طور سے حکومت کی عمومی مداخلت بھی دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن یونی ورسٹیوں کے کاموں میں باہمی رابطے کی بات اب بھی ادھورا خواب ہے۔ تحقیق یا تعلیم و تدریس کے کاموں میں آج دُکھی کردینے کی حد تک دہراو نظر آ رہا ہے۔ آزاد کی فکر مندی واجب تھی۔
اعلا تعلیم کے بارے میں مولانا آزاد کے افکار ان کے اُس خطاب میں سلسلے وار طریقے سے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں جب انھوں نے ۱۸؍اپریل ۱۹۵۳؁ء کو تمام ریاستوں کے وزراے تعلیم اور یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو مخاطب کیا تھا۔ اسی اجلاس میں یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے تنظیمی ڈھانچے کے قیام کا منصوبہ بنا تھا۔ آزاد اپنے خطاب کے آغاز ہی میں یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اعلا تعلیم کے معیار و اقدار میں گراوٹ کی قیمت پر کسی بھی طرح یونی ورسٹیوں کی توسیع یا استحکام کو وہ قبول نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کی خاص ذمہ داری وسائل کا اکٹّھا کرنا ہے جس میں حکومت پیچھے نہیں رہے گی اور یہ بھی طے ہے کہ یونی ورسٹیوں کی خود مختاری پر کوئی آنچ بھی نہیں آنے دی جائے گی۔ لیکن ابوالکلام آزاد یہاں چند سوالات قائم کرتے ہیں: کیا اس سے اعلا تعلیم کا ماحول بدل جائے گا؟ کیا یونی ورسٹیوں کا پابندِ عہد ہونا اپنے آپ ثابت ہوجائے گا؟ کیا وہ اعلا تعلیم کے مینار بن جائیں گے؟ آزاد نے اپنے خطاب میں یونی ورسٹیوں کو سب سے پہلے یہ گوش گزار کیا کہ انھیں کس طرح اپنا طریقۂ کار بدلنا چاہیے اور اپنے کردار کو انھیں کتنا زندہ اور متحرّک بنانا ہے۔ ان تمام باتوں کا تعیّن آزاد کی نظر میں یونی ورسٹیوں کو از خود کرنا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے خطبے میں وہ اعلا تعلیم کے کارپردازوں کو نیند سے جگانا چاہتے ہیں اور بار بار انھیں خود کو سماجی ضروریات کے مطابق تعلیمی سرگرمیوں کی بنیاد ڈالنے کی ترغیب دینا چاہتے ہیں۔
آزاد یونی ورسٹیوں کو ایک مطلق العنان تنظیم کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ یونی ورسٹی انتظامیہ کی کسی معاشی بدعنوانی میں متوقع شمولیت کی سنگینی کے سلسلے سے وہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کسی نازک موقعے سے مرکزی حکومت چپ چاپ ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی نہیں رہے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام کی نمایندگی کے فرائض کی ادائیگی کے ناطے مرکزی حکومت کو یونی ورسٹیوں کی کارکردگی کے احتساب کا فطری اختیار حاصل ہے۔ ضرورت پڑنے پرمرکزی حکومت لازماً مداخلت بھی کرے گی۔ لیکن مولانا آزاد کی خواہش ہے کہ یونی ورسٹیاں خود ہی اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھیں اور اپنے فرائض ایمان داری کے ساتھ ادا کریں۔
یونی ورسٹیوں کے معاشرے سے الگ تھلگ ہوجانے کی صورتِ حال سے آزاد بہت رنجیدہ تھے۔ ان اداروں کے طالب علم و اساتذہ رفتہ رفتہ ایسے بے ثمر شجر بن جاتے ہیں جن کا باقی سماج اور خاص طور سے دیہی سماج سے کوئی خاص تعلّق باقی نہیں رہتا۔پہلے پنچ سالہ منصوبے کا وہ زمانہ تھا لیکن آزاد نے یہ مشورہ دیا تھا کہ کیا یونی ورسٹی کے اساتذہ اور طالب علم کسی خاص علاقے کی ہمہ گیر ترقّی کا کوئی منصوبہ بنا سکتے ہیں؟ آزاد اعلا تعلیم کو مہذّب لوگوں میں سمٹی رہنے والی کوئی شَے نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ تمام یونی ورسٹی جماعت کے معاشرے سے مطابقت کے خواہاں تھے۔ بد قسمتی سے آزاد کے اس مشورے کو یونی ورسٹیوں نے گرم جوشی کے ساتھ قبول کرنے کا کوئی منصوبہ ہی نہیں بنایا۔ جگہ جگہ اعلا تعلیم کے مراکز میں ایسے کام شروع ہوئے لیکن ان کا دائرۂ کار بہت محدود تھا۔ آج کی بڑی بڑی رضاکار تنظیموں کی طرح مولانا آزاد یونی ورسٹیوں کے کردار کی توقّع کرتے تھے۔ آزاد اپنی فکر میں بالکل درست تھے۔ معاشرے سے جڑنے میں اعلا تعلیمی مراکز کی ہی بھلائی تھی۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نالندہ یونی ورسٹی میں جب آگ لگی تو آس پاس کے لوگوں نے یونی ورسٹی کو جلتے رہنے دیا ۔ کسی نے بھی بڑھ کر اُسے بچایا نہیں۔ایسا صرف اس لیے ہوا کیوں کہ قدیم نالندہ یونی ورسٹی ایک خاموش تعلیمی جزیرہ بن کر رہ گئی تھی۔ وہاں اُس فکر اور اُن مذہبی علوم کی تدریس ہورہی تھی، جو باہر کی دنیا سے بے پروا تھی۔ یونی ورسٹی نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ جس ماحول میں وہ قائم ہے، اس سے ہر اعتبار سے متعلّق ہوکر اسے خود کو ظاہر کرنا چاہیے۔ نالندہ یونی ورسٹی نے ماحول اور معاشرے سے کٹ کر درس و تدریس کا جو سلسلہ شروع کیا، اسی وجہ سے معاشرے نے مصیبت کی گھڑی میں اسے بچایا نہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ چند لوگ آگ لگادیں اور مہینوں لائبریری کی نادر کتابیں جلتی رہیں اور آس پاس کی آبادی سے کوئی بچانے کے لیے بھی سامنے نہیں آئے۔
مولانا آزاد تاریخ کی پیچیدگیوں کو سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے وقت سے کافی پہلے ہمیں خبردار کر دیا تھا۔ اسے بدقسمتی ہی کہنا چاہیے کہ یونی ورسٹیوں نے آزاد کے اس انقلابی مشورے کو بَروقت نہیں مانا یا اس پر پورے طور پر عمل پیرا نہ ہوئے۔ آج آئے دن کی بات ہے کہ ہماری اعلا تعلیم کے ادارے یا متعدّد تعلیمی مراکز ڈھہتے جارہے ہیں اور انھیں بچانے والا کوئی سامنے نہیں آرہا ہے۔ یونی ورسٹیوں کو کمزور بنانے کی کوششیں بھی ہوتی رہتی ہیں اور اعلا تعلیم کے یہ مینار جیسے جیسے اپنی عمارتوں میں عالی شان اور چمک دار ہوتے جارہے ہیں، اسی طرح ان کی سماجی قبولیت میں بھی گراوٹ آتی جارہی ہے۔ پہلے یونی ورسٹیوں کے دروازے پر ہمارا معاشرہ احترام کے ساتھ سرِ تسلیم خم کرتا تھا لیکن آج ایسا ہرگز نہیں ہے۔ مولانا آزاد نے ایک جگہ واضح کیا ہے کہ یونی ورسٹیوں کو اتنی خود مختاری اس لیے بھی چاہیے کیوں کہ آزاد ماحول میں ہی پاک و صاف، آزاد اور تازہ دم تعلیمی ماحول کا تصوّر کیا جاسکتا ہے۔ ایسے ماحول میں ہی ایک آزاد ذہن کو تیار کیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری یونی ورسٹیاں اپنی سرگرمیوں میں بے سمتی کا شکار ہیں۔مولانا آزاد اس نازک صورتِ حال کے سلسلے میں پہلے ہی واضح اشار ہ کر چکے تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے بھی حکومت کے مالی تعاون کو سامنے رکھ کر یونی ورسٹیوں کو آگاہ کیا تھا کہ دھیرے دھیرے اس سے ان کی آزادی اور خود مختاری ختم ہوتی جائے گی۔ انھی اسباب سے تعلیم کے معیار میں سمجھوتے بھی کرنے پڑیں گے۔ ذاکر حسین نے یہ حل پیش کیا تھا کہ معاشرے سے ایسا رشتہ بنایا جائے تاکہ اُس کے تعاون سے یونی ورسٹیاں مالی طور پر خود کفیل ہوجائیں۔ نہ جانے کس ترنگ میں ہماری یونی ورسٹیوں نے نہ مولانا آزاد کی پوری بات قبول کرسکیں اور نہ ہی ذاکر حسین کی صلاح پرعمل پَیرا ہوئیں۔ اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑرہا ہے۔ ہم آج بھی یونی ورسٹیوں کے وقار کو واپس لاسکتے ہیں، اگر ہم اپنی ذمّہ داری سمجھ سکیں۔ یہ قسم کھائیں کہ ہر استاد معاشرے کی تعمیرِ نَو میں اپنا کردار لازمی طور پر ادا کرے گا تو وہ دن دور نہیں جب ہم اعلا تعلیم کی سچّے معنوں میں حفاظت کرسکیں گے۔
[۱۱؍نومبر ۲۰۰۸ء میں رانچی یونی ورسٹی کے سے می نار میں پیش کردہ انگریزی؍ہندی متن کا اردو ترجمہ۔]
٭٭
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 138802 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.