یہ ہَنسنی میری ہے

مُحترم قارئین السلامُ علیکم
اگر پردیس میں کوئی اپنا مِل جائے تُو کیا خُوشی حاصل ہُوتی ہے یہ کسی پردیس میں بیٹھے دیسی سے پُوچھیے وہ نہ صرف آپ کا مدعا جان کر آپکی راہ میں دُل و جان سے فَرشِ راہ ہُوجائے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ اگر اُس مُلک کے مُعاشی حالات پاکستان سے مُختلف ہُوں تُو ایک آدھ وقت کی میزبانی کیلئے بھی آفر کردے۔

میرا واسطہ جب پردیس میں ایک ایسے ہی دیسی پردیسی سے ہُوا تُو مجھ پہ ایک انکشاف یہ بھی ہُوا کہ ایسے دیسی پردیسی بعض اوقات بڑی کھری کھری اور سچی باتیں بھی اُگلنے لگتے ہیں جنہیں سُن کر ایسا مِحسوس ہُوتا ہے کہ جیسے کسی پہاڑ میں آتش فشاں پھٹنے کیلئے بیقرار رہتا ہے اور جیسے ہی مُناسب موقع مُیسر آتا ہے تو اپنا تمام لاوا دوسروں پر اُگل دیتا ہے۔

میں نے جب ایک ایسے ہی پردیسی سفید ریش بابا جی سے گُفتگو کی تو بابا جی زمانے کی رفتار اور نوجوانوں کی بے راہ روی کا رونا رُونے لگے اُنہیں نوجوانوں سے یہ بھی شکایت تھی کہ آج کے نوجوان اپنے بڑوں کا ادب نہیں کرتے میں چونکہ مُسافر تھا لِہٰذا اُنکی تمام باتیں تحمل سے سُنتا رہا لیکن جب میں نے یہ مِحسوس کرلیا کہ بابا جی کا کوٹہ چند منٹوں میں ختم ہونے والا نہیں بلکہ اِس کیلئے ایک عُمر کیساتھ بھینسے کا سا جگر اور گُردہ بھی درکار ہے تُو مجھے مِحسوس ہُوا کہ میرا بیمار جِگر اور پتھری زدہ گُردہ ہرگز اِس کا مُتحمل نہیں ہُوسکتا تو میں نے فقط اِتنا ہی کہا کہ بابا جی یہ فصل تُو آپ ہی لوگوں کی لگائی ہُوئی ہے بھلا بَبُّول کا بیج بھی کبھی خُوشہِ گندم پیدا کیا کرتا ہے۔

بس جناب یہ وہ عظیم غلطی تھی جِسے کرنے کے بعد ہم بُہت پچھتائے کیونکہ ہمارا یہ جھوٹ نُما سچ سُن کر وہ صاحب ایسے بدکے کہ ظہرانہ کی وہ دعوت جو اُنہوں نے ابھی کچھ ہی دیر پہلے ہمیں بڑے اِخلاق یا اِخلاص جیسی چیز کیساتھ دِی تھی نہ صرف واپس لے لی بلکہ ہمیں وہ صلواتیں بھی سُنائیں کہ جِس کی نہ ہمیں کبھی اُمید تھی اور نہ ہی آرزو تھی۔

مگر صاحبو! وہ جو کہتے ہیں نا کہ تقدیر سے زیادہ اور وقت سے پہلے نہ کِسی کو مِلا ہے نہ مِلے گا تو اِس بات کا مُشاہدہ ہمیں اُس دِن ہُوا اور ہم نے خُود سے عہد کیا کہ آئندہ ایسا جھوٹ نُما سچ ایسے وقت میں ہرگز نہ بُولیں گے کہ جب ہمیں زوروں کی بھوک لگی ہُو اِسکے ساتھ ساتھ بابا جی سے یہ بات بھی سیکھنے کو مِلی کہ موقع دیکھ کر بات کرنی چاہیے اور اگر آپ پردیس میں ہُوں اور آپکو بے اختیار بُولنے کی بیماری بھی ہُو تو پہلے پیٹ بھر کر کھانا ضرور کھالیں تاکہ بعد میں ڈانٹ اور پھٹکار کھانے کی گُنجائش ہی باقی نہ رہے۔

ویسے آج پتہ نہیں کیوں کچھ بھی قابو میں نہیں اب یہی دیکھ لیجئے کہ جُو بات کہنے کے لئے ہم نے قلم سنبھالا تھا مِجال ہے جو قلم اُس راہ پر چلنے کو تیار ہُو ہماری خواہش تھی کہ آج آپکو مُربَّہ بنانے کی ترکیب سکھائیں لیکن قیاس یہ کہتا ہے کے شائد مُربَّہ تو نہیں البتہ اچار بنانا آپ ضرور سیکھ جائیں گے ویسے ایک بات ہے مُربّہ ہو یا اچار دونوں ہی خواتین کو بے حد پسند ہیں سُو یہ تو طے ہے کی آپ یہاں سے بیگمات کو بنانا ضرور سیکھ کر جائیں گے۔

بیگمات کے ذکر سے یاد آیا کہ کِسی دانا کا قول ہے کہ بیگمات کے سامنے ہمیشہ جوابات بُہت سوچ سمجھ کر دینے چاہئیں ورنہ لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں اور کبھی بھی دوستوں کے درمیان یہ سُوچ کر کہ وقت آنے پر بیگم لاج رکھ لیں گی، گھریلو بہادری کے قصے اور ڈینگیں مارنے سے پرہیز کرنا شادی شُدہ افراد کی صحت کے لئے بے حد مُفید ہے ورنہ تمام عُمر دوستوں کے سامنے جھوٹ تو کُجا سچ بُولنے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔

بات ہُورہی تھی بڑوں کی اور پہنچ گئی مُربہ جات اور اچار تک آئیے آپکی بُوریت دور کرنے کیلئے آپکو ایک چُٹکلہ نُما کہاوت سُناتا ہُوں جو کہ ایک بابا جی ہی کی زُبانی سُنی تھی اِن دُونوں باباؤں میں فرق صرف اِتنا تھا کہ ایک کو نوجوانوں سے گلہ تھا تو دوسرے کو باباؤں ہی سے شکایت تھی۔

ایک ہَنس کو اپنی پُرسکون زندگی ایک لمحہ نہیں بھاتی تھی جب اُس نے اپنے ایک بندر دوست سے یہ ماجرا بیان کیا تو دانشمند بندر نے اُسے فی سبیل اللہ ایک صلاح دِی کہ یار ہَنس تو شادی کیوں نہیں کرلیتا، بھائی شادی کرنے سے سکون خود بھاگ جائے گا اور تُمہاری زندگی میں ایڈوانچر ہی ایڈوانچر آجائے گا ہَنس نے بندر کی یہ صلاح سُن کر اُسے گلے لگا لیا اور دُعا دینے لگا کہ کاش انسانوں کو بھی تُمہارے جیسے دوست مُیسّر آجائیں، تب بندر نے اُسکے علم میں اضافہ کرتے ہوئے خوشخبری سُنائی کہ تُمہاری یہ دُعا ایڈوانس میں قبول ہُوچکی ہے اور انسانوں کے پاس یک نہ شُد دو شُد بلکہ نجانے کِتنے شُدھ ایسے بندر نُما دوست موجود ہیں جو اُنہیں اپنے قیمتی مشوروں سے میری طرح بالکل مُفت مُستفید کرتے رہتے ہیں۔

سُو بندر کے مشورے پر ہنس صاحب اپنا گھر پھنسانے کیلئے ایک ہنسنی کی تلاش میں روانہ ہُوگئے اِتفاق سے چند جنگل دور ہی اُنہیں اپنی مطلوبہ کوالٹی کی ہنسنی صاحبہ دریافت ہُوگئیں نکاح سے فارغ ہُونے کے بعد وڈیو وغیرہ کی فارملیٹی میں رات زیادہ ہُوگئی اور ہَنسنی صاحبہ وداع ہُوکر دوسرے جنگل تک ہی پُہنچی ہُونگی کہ دِن بھر کی رسومات کی وجہ سے تھک گئیں جب مزید پرواز کی ہمت نہ رہی تو دولہا ہَنس کو حُکم دِیا کہ مزید سفر کو ملتوی کرتے ہُوئے یہیں رات بَسر کی جائے ہَنس بھی خُوش تھا کہ چَلو کوئی تُو آیا جُو مجھ پر بھی آرڈر چلا رہا ہے اور ہنس صاحب نے دُنیا کے پچانوے فیصد تابعدار شوہروں کی طرح سَر تسلیم خَم کردیا۔

جِس درخت پہ ہنس اور ہنسی مِحوئے اسراحت تھے اُسکی ایک شاخ پر ایک عدد مُحترم اُلو صاحب بھی براجمان تھے اُلو نے حَسب عادت رات کی تاریک سے فائدہ اُتھاتے ہُوئے اپنی سُریلی آواز میں اپنی موجودگی کا احساس دِلایا ہَنسنی صاحبہ کیلئے یہ آواز انوکھی تھی کہ اُس کا واسطہ کبھی اِس قبیل کی صدائے رندانہ سے نہ پڑا تھا ، اُس نے حیرت سے اپنے دولہا سے پُوچھا ہَنس رے ہَنس یہ کُون بُولا، ہَنس صاحب بیگم صاحبہ کی معیت میں ایسے مدہوش تھے کہ وہی غلطی کر گئے جو ہَم سے پردیس میں سرزد ہُوئی تھی بے سوچے سمجھے کہہ گئے بیگم صاحبہ کِس کا پوچھ رہی ہیں یہ حضرت جہاں بولتے ہیں وہ جگہ ہی اُجڑ جاتی ہے محترم اُلو صاحب جو کہ جعلی ڈگری یافتہ ہی صحیح مگر بڑے رسوخ کے حامل تھے ہَنس میاں کے اِس جھوٹ نُما سچ کی تاب نہ لاتے ہُوئے وہاں سے کوچ کر گئے اور سَر پنچوں کا دروازہ جا کَھٹکایا تمام پنچ مُحترم اُلو صاحب کے ایماء پر شُوریٰ گاہ میں پُہنچ گئے اب اُلو مہاراج نے پہلے تو اُن پر اپنی تعلیمی قابلیت کا سکہ جمایا اور اُس کے بعد کہنے لگا کہ جیسا کہ آپ تمام حضرات میرا رسُوخ بھی جانتے ہُو اور میری دیدہ وَری کے قصے بھی چہار دانگ میں مشہور ہیں میں بس آپ حضرات سے اِتنا فیور چاہتا ہُوں کہ آپکو بس اِتنا ثابت کرنا ہے کہ کل میں جِس ہنسنی کے ساتھ آپکی شوریٰ میں آؤں تو آپ سب ہنسنی کو میری بیوی ثابت کردیں اِسکے عوض میں آپکے بچوں کو بھی اعلیٰ اسناد اور یونیورسٹیوں میں فری داخلے دِلوادونگا اور ڈالروں سے آپ کے مُنہ بھر دونگا۔

تمام شُورٰی کے ارکان کی رضامندی کے بعد اُلو صاحب اپنے چارٹرڈ طیارے کے ذریعے دوبارہ جنگل پُہنچے اور اُسی شاخ پر وِشرام کرنے لگے صبح جب مخمور ہَنس اور ہَنسنی صاحبہ سفر کے قصد سے اپنے پَر تُولنے لگے تبھی اُلو صاحب درمیان میں کِسی فَلمی ولن کی طرح آدھمکے اور ہَنسنی صاحبہ کی ملکیت کا دعویٰ پیش کر ڈالا پہلے تو ہَنس کو لگا کہ اُلو صاحب مذاق فرما رہے ہیں لیکن جب اُلو کا اصرار دھمکی آمیز ہُونے لگا تو ہَنس صاحب کا تمام نشہ چُور ہُوگیا بڑی عاجزی سے عرض کرنے لگا جناب کہیں ایسا بھی ہُوا ہے کہ کِسی اونچی ذات کے اُلو نے کِسی ہنسنی جیسی بےنام چیز کو اپنے عُقد میں لیا ہُو۔ لیکن اُلو کی ایک ہی رَٹ تھی کہ یہ نوخیز ہنسنی میری منکوحہ ہے اگر چاہو تو فیصلہ پنچوں کے پاس لے چَلو ناچار ہَنس کو اُلو کی یہ انہونی بات ماننی پڑی اور یہ تینوں پنچوں کے پاس اپنا مُقدمہ لے پُہنچے۔

پَنچوں نے جب اُلو کو آتے دیکھا تُو احتراماً کھڑے ہُوگئے جب مُقدمہ پیش کیا گیا تو سَر پنچ بُولا، اے ہَنس کیسی عجیب بات کرتا ہے کہ اُلو کی ہَنسنی بیگم کو اپنا کہتا ہے حالانکہ جب اِن دونوں کا نکاح ہُوا تھا میں بھی اُس محفل میں موجود تھا، تبھی سَرپنچ کا نائب آگے بَڑھا اور کہنے لگا کہ اِس شادی میں مجھے گواہ رکھا گیا تھا اور میں نے نکاح نامے پر اپنے دستخط بھی کئے تھے پھر کیا تھا ہر ایک پنچ بڑھنے لگا اور اُلو اور ہنسنی کی شادی کی شہادتیں دینے لگا ، کسی نے اِس شادی کا ولیمہ کھایا تھا تُو کِسی نے اِس شادی میں باجا بجایا تھا جب سارے پنچ اپنی اپنی گواہی اُلو کے حق میں پیش کرچُکے تو ہَنس کے پاس اِس کے سِوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنا دعویٰ واپس لے کر چلتا بنے سُو ہَنس بیچارے نے کہا کہ اِتنے معزز ارکان جھوٹ نہیں بُول سکتے مجھ ہی کو کوئی دھوکہ ہُوا کہ ہنسنی کو اپنی بیگم سمجھ بیٹھا لگتا ہے کہ میری زندگی میں کوئی ہنگامہ نام کی شے ہی نہیں لکھی سُو مجھے مُعاف فرما دیں یہ کہہ کر ہَنس اپنی منزل کو اکیلا ہی چل دیا۔

اَبھی ہَنس چند گام ہی اُڑا ہُوگا کہ اُلو نے اُسے راستے میں جا لیا اور ہَنس سے کہنے لگا، اے ہَنس ذرا رُک اور مجھے میرے ایک سوال کا جواب دے کر اپنی ہنسنی کو ساتھ لیتا جا کہ یہ ہَنسنی جو واقعی تیری ہے اور میرے کِسی کام کی نہیں ہے۔ اور سوال بڑا آسان ہے مجھے صِرف یہ بتا جا کہ میرے بولنے سے گھر اُجڑتے ہیں یا پنچوں کے بولنے سے؟

مُحترم قارئین ایک شعر پڑھا تھا جو شعر سے زیادہ کسی کی شرارت محسوس ہُوتا ہے۔

ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گُلستاں کیا ہوگا۔

مجھے لگتا ہے یہ شعر کسی نے شرارتاً ہمارے پارلیمنٹ کے معزز ارکان کو دیکھ کر لکھا ہے جب کہ دیکھا جائے تُو یہی پارلیمنٹ ممبران اور وزراء ہیں جو دِن رات الیکشن میں ہماری خاطر دربدر ہوتے ہیں اب یہ بھی کوئی تُک ہے کہ پارلیمنٹ میں جانے کیلئے گریجویٹ ہونے کی شرط رکھ دِی گئی جس کی وجہ سے ہمارے محترم اور مکرم ممبران کو لاکھوں روپے اپنی جیب سے اضافی خرچ کرکے جعلی ڈگری حاصل کرنی پڑتی ہے اور یہ سارا خرچہ صرف اور صرف ہماری وجہ سے اور ہماری مُحبت میں کیا جاتا ہے اب یہی دیکھ لیجئے کہ سیلاب کا بہانہ بناکر ہمارے صدر محترم کو سیر وتفریح سے روکا جارہا ہے کہ یہاں ہزاروں مر رہے ہیں اور آپکو سیر سپاٹے کی اور اپنی اور اپنے صاحبزادے کی تقریر کی فِکر کھائے جارہی ہے اَب ایسی افواہیں پھیلانے والوں کو کوئی سمجھائے کہ بھائی ایسے موقع روز روز تھوڑا نہ آتے ہیں ہمارے صدر مملکت ہمارے غم میں رات دِن گُھلے جارہے ہیں اگر تھوڑی بُہت سیر و تفریح کرلیں گے تو کونسی قیامت آجائے گی اور اِسی بہانے بُہت ساری امداد بھی سیلاب زدگان کے نام پر ہاتھ آجائے گی کم از کم اُس سے اِس سیر و تفریح کا خرچہ ہی نکل آئے گا عوام کا کیا ہے عوام تو ہُوتی ہی قُربانی دینے کیلئے ہے ۔ سُو( دو چار ہزار کی قُربانی اور صحیح ) شائد صدر صاحب کے پیش نظر یہ بات ہو کہ اِس طرح کم از کم قُوم کو طوفانوں میں تیرنا ہی آجائے گا۔

اور آخر میں تمام پڑھنے والوں سے گُزارش ہے کہ مہربانی فرماکر اُلو کی بات پر دھیان نہ دیں اور نہ ہی اُس کی شُوریٰ کو ہماری معزز پارلیمنٹ سے مِلانے کی کوشش کریں کہ ہمارے لوگ کہیں بڑھ کر ہیں اِن کا اُلو سے کوئی جُوڑ ہی نہیں بنتا۔
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1060085 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More