قومی وحدت اور علاقائی اتحاد وقت کی اہم ضرورت
(Dr. Muhammad Javed, Karachi)
عصر حاضر میں اقوام کی جغرافیائی تقسیم کی
صورت یہ ہے کہ ہر قوم کا اپنا زمینی علاقہ ہے ،ہر قوم کی اپنی فضائی حدود
ہے،ہر قوم کی اپنی ایک مخصوص کی گئی سمندری حدود ہے۔ہر قوم کی اپنی
زبان،کلچر،تعلیم کے حوالے سے اپنا مخصوص فکر اور شناخت ہے۔ مختلف
مذاہب،قبائل،فرقوں،قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ایک قوم کی حیثیت سے
اپنا تعارف کرواتے ہیں، ایک قومی جذبہ رکھتے ہیں، امریکی چاہے کسی مذہب کا
ہو یا قبیلے کا امریکی کہلائے گا، اسی طرح کسی بھی اسلامی ملک کو لے لیں،
مصر میں رہنے ولا مصری ہو گا،کویت کا رہائشی کویتی کہلاتا ہے وغیرہ وغیرہ،
یورپ میں رہنے ولا انگلستانی، فرانسیسی وغیرہ ہو گا، چاہے اس کا کوئی بھی
مذہب ہو یا قبیلہ، یا قومیت اپنے ملک کے نام سے اس کی پہچان ہو گی۔ایشیاء
سے لے کر افریقہ اور یورپ سے لے کر امریکہ تک ساری اقوام اپنی قومی حدود
میں کسی کو مداخلت کا حق نہیں دیتیں۔اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی ممالک
سب اپنی قومی پہچان کو اہمیت دیتے ہیں،اور انفرادی ہو یا اجتماعی کسی بھی
ملک میں قومی سطح پہ پہچان ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔کوئی بھی ،ملک کسی بھی
فرد یا گروہ کو بغیر پاسپورٹ اور ویزا اپنے ملک میں قدم رکھنے کی اجازت
نہیں دیتا۔چاہے مسلمان ہو یا نہیں ۔اور کسی مسلمان کو اسلامی ممالک میں
جانا ہو تو وہ بغیر پاسپورٹ اور ویزا یا اجازت نامہ کے داخل نہیں ہو سکتے،
حتیٰ کہ حج کے لئے بھی جانا ہے تو بغیر ویزا کے نہیں جا سکتے۔اور اگر کسی
طرح سے اس ملک میں داخل ہو جاتے ہیں تو باقاعدہ جرم سمجھا جاتا ہے اور اس
کی سخت سزا دی جاتی ہے۔اور ملک سے نکال دیا جاتا ہے۔
اقوام کے انفرادی تشخص کے ساتھ ساتھ ان کی طاقت کا راز یہ بھی ہے کہ انہوں
نے فیڈریشن یا دیگر سطح کے اتحاد کو اہمیت دی ہے۔جس سے ان کی طاقت اور
وسائل میں اضافہ ہوا ہے اور وہ بیرونی استحصال سے بھی کسی قدر محفوظ ہو
جاتی ہیں۔مثلا ریاست ہائے متحدہ امریکہ جس میں باون ریاستیں شامل ہیں۔ان کے
اس اتحاد نے ان کے وسائل اور ان کی طاقت کو منظم کیا ہوا ہے۔ لہذااسی طاقت
کے بل بوتے پہ اس نے دنیا بھر کا استحصال شروع کیا ہوا ہے۔ماضی میں امریکہ
کا مقابلہ کرنے والی طاقت سوویت یونین تھی جس نے اپنے اس اتحاد کے بل بوتے
پہ امریکہ کو سخت دباؤ میں رکھا اور ہر سطح پہ اس کا مقابلہ کیا لیکن جب اس
کی ریاستیں علیحدہ ہو گئیں تو اس میں کمزوری پیدا ہو گئی۔اب وسطی ایشیا کی
یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں بڑی طاقتوں کا آسان شکار ثابت ہو رہی ہیں۔اب انہیں
اپنے وسائل وترقی کے لئے بڑی طاقتوں کی پالیسیوں کا شکار ہونا پڑ رہا
ہے۔نیز ٹیکنالوجی کی کمی کی وجہ سے اپنے وسائل بڑی طاقتوں کے ہاتھوں بیچنے
پہ مجبور ہیں۔دنیا میں سامراجی ممالک خصوصاً امریکہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ
ملکوں کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذارا جائے اور کسی بھی قسم کا علاقائی
اتحاد ،فیڈریشن نہ بننے دی جائے۔اور مختلف سازشوں خاص طور پہ امریکی سی آئی
اے کو اس مقصد کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے کہ قوموں کو آپس میں لڑا کر
،نفرتوں، مذہبی جھگڑوں اور انتہا پسندی کو ہوا دے کران میں علیحدگی کی
تحریکوں کو منظم کر کے انہیں چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تبدیل کر دیا جائے اور
انہیں آپس میں ایک دوسرے کا مخالف بنا کر رکھا جائے۔امریکہ کی یہ حکمت عملی
ایشیا ء افریقہ میں نمایاں طور پہ دیکھی اور سمجھی جا سکتی ہے۔افریقہ میں
اس نے کبھی اتحادد نہیں بننے دیا،باہمی انتشار اور آمریت کو ہمیشہ ہوا دی
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ افریقہ چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم ہو کر باہمی
نفرت انگیز ماحول کا شکار ہو گیا۔اور عوامی سطح پہ بھی علیحدگی کی تحریکوں
اور دہشت گردوں کو امداد دے کر مستقل عدم استحکام کو پیدا کر کے رکھتا ہے
اور دوسری طرف افریقہ کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔چھوٹی چھوٹی
کمزورریاستوں کو امداد کے نام پر اپنے چنگل میں پھنسا کر من مانے معاہدے کر
کے انہیں اپنا
مطیع بنایا ہوا ہے،اور خطے کے وسائل پہ اپنا کنٹرول رکھا ہوا ہے۔امپیریلزم
کی یہ شکل اس وقت دنیا بھر میں موجود ہے۔ایشیا میں بھی اسی طرح کی حکمت
عملی جاری ہے ،خطوں میں عدم استحکام،باہمی آویزشوں کو ہوا دینا ،علیحدگی کی
تحریکوں کو نفرت انگیز طریقے سے مضبوط کرنا۔مذہب کے نام پہ ،قومیتوں کے نام
پہ،زبان کے نام پہ تحریکوں کو کھڑا کر کے پورے خطے کو کمزور بنانا۔یہی وجہ
ہے کہ آج پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے اقتصادی اور علاقائی اتحاد کو
امریکہ کبھی کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا۔
اس کے علاوہ یورپ کی مثال دی جا سکتی ہے ا نہوں نے اپنے خطے کے ممالک کے
درمیان علاقائی اتحاد،معاشی ودفاعی اتحاد کو فروغ دے کر اپنی معاشی اور
دفاعی قوت کو منظم و مستحکم رکھا ہوا ہے۔یورپین ممالک نے اقتصادی تعاون کے
لئے مشترکہ منڈی قائم کر لی ہے۔ ایشیا اور خصوصاً جنوبی ایشیا کے حالات نے
یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے استحصال سے بچنے اور اپنے وسائل
اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے علاقائی اتحاد انتہائی ضروری ہیں۔اور ایشیا
اور افریقہ کی اقوام کو باہم ایسا اتحاد ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس سے
امریکی اور یورپین مفادات کے لئے استعمال ہونے سے بچا جا سکے۔’’ آج علاقائی
تعاون اور متنازعہ مسائل کے حل کے لئے آر ۔سی ۔ڈی ،سارک،اوپیک،غیر جانب دار
ملکوں کی تنظیم،مسلم امہ ،عرب لیگ کام کر رہی ہیں لیکن سامراجی سازشوں اور
حکمرانوں کی ناہلی اور آلہ کاری کی وجہ سے ان کے نتائج خاطر خواہ نہیں نکل
رہے۔
اس وقت امریکہ کی کوشش ہے کہ ایشیا میں کوئی بھی اتحاد نہ بننے دیا
جائے۔بلکہ ایشیائی قوموں کو سرمایہ دارانہ ممالک کے ایسے اتحاد جو کہ ان کے
مخصوص مفادات کے لئے بنائے جا رہے ہیں ان میں شریک کیا جائے جیسا کہ ماضی
میں سیٹو،سینٹو وغیرہ جس میں پاکستان کو بھی استعمال کیا گیا۔نیز امریکہ کی
یہ کوشش ہے کہ خطے کے وسائل کو لوٹنے کے لئے انہیں آپس میں لڑا یا
جائے،علاقائی جنگوں کو ہوا دی جائے،سازشوں کے ذریعے سے لسانی ،مذہبی
منافرتیں پھیلائی جائیں۔اور خاص طور پہ ایسے نظریات کے حامل ممالک جو کہ
سرمایہ داری نظام کے خلاف نظریہ رکھتے ہیں ان کی ناکہ بندی کی جائے اس کو
عملی جامہ پہنانے کے لئے امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف ایک طویل جنگ کی جس
میں اس خطے کو مکمل طور پہ استعمال کیا گیا خاص طور پہ پاکستان ایک فرنٹ
لائن ریاست کے طور پہ استعمال ہوا۔ اور آج چین کی مخالفت اسی بنیاد پہ کی
جا رہی ہے ،اگر پاکستان کسی مضبوط علاقائی اتحاد کے اندر ہوتا اور سامراجی
چنگل میں گرفتار نہ ہوتا تو وہ امریکی مفادات کی خاطر سوویت یونین کے خلاف
استعمال نہ ہوپاتا۔امریکہ نے پاکستان کو معاشی و سیاسی طور پہ ایسے چنگل
میں جکڑا ہوا ہے کہ پاکستانی نظام اس کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ اس طرح
پاکستانی عوام کو سامراجی مفادات کے لئے قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے۔
اگر پاکستان میں غیر سرمایہ داری نظام قائم ہوتا اور ہر ایک فیڈریشن پر
مشتمل ایک مضبوط ریاست قائم ہوتی اور وہ ریاست اپنے پڑوسی ممالک خاص طور پہ
اینٹی سرمایہ داریت ممالک کے ساتھ ایک فیڈریشن میں جڑی ہوتی اور وہ فیڈریشن
آپس میں دفاعی اور معاشی معاہدات میں بندھی ہوتی تو یقیناً امریکہ خطے میں
اپنا اثر رسوخ نہیں پیدا کر سکتا تھا۔ مگرگذشہ نصف صدی سے ملک کے رائج
سرمایہ داری نظام اور آمریت نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔وفاقی
نظام کے ذریعے سے صوبوں کو نہ صرف ان کے وسائل سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ
ان کی زبان،کلچر کی آزادی اورکوئی تحفظ موجود نہیں ہے۔اور نہ ہی مقامی
زبانوں کو ترقی دینے کے لئے کوئی مثبت قدم اٹھایا گیا ہے۔آمریت نے جمہوریت
کو کبھی پنپنے نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ صوبوں کے معاملات کو ہر دفعہ جبر
اوآمرانہ طاقت سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔صوبوں کے وسائل کو بے دردی سے
لوٹا گیا،اپنی اپنی جگہ پہ چھوٹے صوبے وسائل کے باوجود انتہائی پسماندگی کا
شکار ہیں۔
اب یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے موجودہ چاروں صوبوں کو اسٹیٹ کا درجہ دیا
جائے اور اسٹیٹ کو اپنی حدود میں موجودہ وسائل سے استفادہ کرنے کی آزادی
اور حق ہو۔،ان کی زبان اور کلچر کی آزادی دی جائے۔اور ان اسٹیٹس کا تعلیمی
نظام ان کی مادری زبان میں ہو تاکہ نہ صرف زبان ترقی کرے بلکہ اعلیٰ دماغوں
کی تیاری کا عمل بھی آسان ہو سکے۔اس تصور کی روشنی میں اگر چاروں صوبوں کو
مکمل خود مختاری دی جائے اور مرکز کے پاس صرف دفاع ،کرنسی اور خارجہ امور
ہوں۔اور مرکز ان صوبوں میں مداخلت نہ کر سکے۔اگر اس حل کو نافذ کیا جائے تو
یقیناً اس وقت چاروں صوبوں میں پھیلی ہوئی بے چینی ختم ہو جائے گی۔ ایک
مخصوص علاقے میں ایک زبان اور ایک معاشرت رکھنے والا گروہ ایک قوم کہلاتا
ہے۔اور اس کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی زبان،اور کلچر کو ترقی دے۔اور اپنا قومی
تشخص برقرار رکھے اور اپنے خطے کے وسائل کو اپنی قوم کے مفاد میں استعمال
کرے۔اگر اس وقت پاکستان کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں ایک بڑی آبادی مخصوص
زبان بولتی ہے انہیں ابھی تک صوبے کا درجہ نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے وہاں
نہ صرف پسماندگی ہے ،بلکہ ان کی زبان اور کلچر بھی زوال پذیر ہو چکا ہے جس
کی وجہ سے بے چینی کی فضا موجود ہے۔حکمت عملی کا تقاضہ یہ ہے کہ ان علاقوں
کو بہتر انداز سے تقسیم کر کے انہیں خود مختار صوبے یااسٹیٹ کا درجہ دیا
جائے۔ اس سے قومی سطح پہ استحکام ہو گا اور پھر آگے چل کر یہی استحکام
علاقائی استحکام کی طرف بڑھے گا، اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا
کہاندرونی انتشار کی حامل ریاستیں کبھی بھی سامراجی سازشوں سے محفوظ نہیں
ہو سکتیں اور نہ ہی کسی ایسی علاقائی اتحاد کو بنا اور مضبوط کر سکتی ہیں
جس سے وہ معاشی اور سیاسی طور پہ آزاد اور اپنے وسائل کے مالک بن سکیں۔
|
|