گوگل ،فیس بک اور امریکہ کا "مظلوموں "کے خلاف ایکا
(Ghulam Nabi Madni, Madina)
"میرا گھر میری روح ہے۔اسرائیل نے مجھ سے
میرا گھر چھین لیا۔میں اپنے بچوں کو لے کر کہاں جاؤں گا؟کیسے سانس لوں
گا؟میں تنہا ان سے کیسے لڑوں؟آج میں اس قدر کمزور ہوگیا کہ میں اپنی روح کو
بچانے کے لیے بس فریاد کررہاہوں"۔
یہ الفاظ50 سالہ ایک مظلوم فلسطینی مسلمان کے ہیں ،جنہوں نے اپنے آبائی گھر
کے اسرائیلی غاصبوں کے قبضے کے خلاف ایک ویڈیو پیغام کے ذریعےاپنے مسلمان
بھائیوں سے اپنے دکھوں کی دوا کے لیے فریاد کی۔
المیہ ہے کہ امت مسلمہ پچھلے سترسالوں سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے
کچھ نہ کرسکی۔1946 میں بحر احمر سے لے کر شمال میں بحر متوسط تک کی ساری
پٹی ،مصر سے لے کر اردن اور شام کی حدود تک سارا علاقہ فلسطینی مسلمانوں کے
پاس تھا۔اسرائیلی یہودی شمال تک محدود تھے۔جب کہ اِس وقت صرف غزہ کی چھوٹی
سی پٹی،اور مغربی کنارہ جس کا رقبہ 5655 سکوائر کلو میٹر ہے،اس میں بھی صرف
18 فیصد زمین فلسطینیوں کے پاس ہے۔تاریخی طور پر دیکھا جائے توفلسطین پر
اسرائیل کے قبضے کی عملا ابتدا1855ء میں اس وقت شروع ہونے لگی جب عثمانی
فرمانروا نے فلسطین بالخصوص" قدس" کی زمین فروخت کرنے کے لیے پابندی
اٹھائی،اور مشہور برطانوی یہودی بینکار" موسی مونٹیفوری" نے امریکی یہودی
سے مل کر ،قدس میں غیر مسلم شخص سے ایک باغ اور پھر ایک بہت بڑا پلاٹ
خریدا۔یہ جگہ آج بھی یہودیوں کے ہاں "دیوار مقدس “کے قریب دوسری مقدس جگہ
ہے۔پھر رفتہ رفتہ یہو دیوں کی آبادی فلسطین میں بڑھتی گئی اور 1948ء میں
برطانیہ کے آشیرباد سے یہودیوں نے "ریاست درریاست "کے تحت اسرائیل نام سے
فلسطینی ریاست میں اپنی" غاصب ریاست "کا اعلان کردیا،جس کے ساتھ ہی فلسطین
میں انسانیت کی تذلیل کا بھیانک کھیل شروع ہوگیا۔
افسوس کہ اُس وقت امت مسلمہ باہمی رسہ کشیوں میں مصروف رہی اور اسلامی
ممالک کے حکمران محض اپنی کرسیاں بچانے کے لیے رسمی مذمتی بیانات سے زیادہ
کچھ نہ کرسکے۔بجا کہ پاکستان سمیت اقوام متحدہ کے ممبر ممالک میں سے 31
ممالک نے اسرائیل کو اب تک تسلیم نہیں کیا۔لیکن ایک طرف اسرائیل کو تسلیم
نہ کرنا اور دوسری طرف اسرائیل کے اتحادی پاٹنرز امریکہ اور برطانیہ سے
کلوز فرینڈشپ ،(پھر اسرائیل کو امریکہ کی طرف سے حالیہ دنوں دی جانے والی
38 بلین امریکی ڈالرز کی"فوجی امداد "جو لامحالہ اسرائیل فلسطینی مظلوموں
پر گولہ بارود گرانے میں استعمال کرے گا)اس پر خاموشی سے، یقینا اسرائیل کو
تسلیم نہ کرنے والے ممالک کی اصل حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔سفارتی تعلقات
کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،مگر اپنے نظریے،سوچ ،عقیدے حتی کہ اپنے
مسلمان بھائیوں کو قربان کرکے تعلقات بنانا پست اور کمزور قوموں کی علامت
ہے۔اسرائیل کو دی جانے والی حالیہ امریکی امداد پر "او آئی سی" ایسی اسلامی
ممالک کی نمائندہ تنظیموں کی خاموشی بھی ،بے بسی کی علامت ہے،جس سے
اسرائیلی جارحیت کو مزید پھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔عالم اسلام کی مشترکہ بے
حسی اور غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ دوماہ پہلے دنیا کے مشہور سرچ
انجن"گوگل"(جو دنیامیں نقشہ جات کے حوالے سے( گوگل میپس)کے ذریعے منفرد اور
آسان سہولت فراہم کرتاہے،جسے پوری دنیا میں استعمال کیا جارہاہے)نے فلسطین
کو دنیا کے نقشے سے غائب کرکے سارے علاقے پر اسرائیل کی حکومت کا ظاہر
کیا۔گوگل کا یہ دوہرا سلوک ہنوز برقرار ہے۔اسی طرح چند دن پہلے سوشل میڈیا
کی مشہور ویب سائٹ" فیس بک"سے اسرائیل نے ایک معاہدہ کیا،جس میں بذات خود
اسرائیلی حکومت کے وزیرداخلہ " گلڈ اردن "اور وزیر انصاف" آئیلٹ شیکڈ"نے
فیس بک انتظامیہ سے میٹنگ کی،اور انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ فیس بک پر
اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی مواد اپلوڈ کیا جائے یا فلسطین کی
حمایت میں کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کا ڈیٹا اپلوڈ کرے اسے فورا ڈیلیٹ
کردیا جائے۔فیس بک انتظامیہ نے اسرائیل کو مکمل تعاون کا یقین دلایا۔آئیلٹ
شیکڈ نے کہا کہ پچھلے چارہ ماہ میں اسرائیل مخالف مواد ہٹا نے کے لیے 158
درخواستیں فیس بک کو اور 13 درخواستیں یوٹیوب کو بھیجیں،جن کا 90 فیصد مثبت
جواب ملا۔
مذکورہ تین واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ عالم اسلام کس قدر بے
حسی اور غفلت کا شکارہے۔امریکہ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی ملک کو 38
بلین ڈالرز کی فوجی امداد دی ہے،اس پر کسی اسلامی ملک کی طرف سے کوئی مذمت
سامنے نہیں آئی۔جب ہمارا یہ حال ہے تو دیگر نان اسلامک کنٹریز کیوں کر
فلسطینی ایشو پر مسلمانوں کے حمایت کریں گے؟اسرائیلی جنگی جرائم پوری دنیا
کے سامنے ہیں ،کہ کیسے فلسطینیوں کو آئے روز گولیاں مارکر شہید کیا جاتاہے
،کیسے ان کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کیا جارہاہے۔لیکن اس کے باوجود "انسانی
حقوق کے نام نہاد علمبرداروں "کے منہ پر اسرائیل کو مزیددی جانے والی یہ
امریکی امداد ایک طمانچہ ہے۔پھر گوگل اور فیس بک انتظامیہ کا باوجود"
مساوات اور آزادی اظہار رائے" کا نعرہ لگانے کے ،اسرائیل کی حمایت میں
فلسطینوں کے ساتھ دوہرا سلوک بدترین خیانت اور بھونڈے انداز میں تاریخ مسخ
کرنے کا بھیانک حربہ ہے،جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
فلسطین یعنی قبلہ اول کی حفاظت امت مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔تبھی عمربن
الخطاب رضی اللہ عنہ سے لے کر صلاح الدین ایوبی ؒ تک مسلمانوں نے مل کر"
قدس" کی سربلندی اور حفاظت کے لیے جان لڑائی۔آج اگر ستر سالوں میں ہمارے
سامنے فلسطین کے اکثر حصے پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا ،تو شاید کل تک" گریٹر
اسرائیل" کی حدود حرمین شریفین تک وسیع ہوجائیں،جو اسرائیل سے تقریبا
پندرسو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔یاد رہے گریٹر اسرائیل کا یہ ہدف
شام،عراق اور یمن کے راستے پھیلایا جارہاہے۔اس لیے بروقت جاگنا امت مسلمہ
کی ذمہ داری ہے۔سوشل میڈیا سے لے کر بین الاقوامی میڈیا اور امریکہ تک سارے
ذرائع اسرائیل استعمال کررہاہے،تو پھر کیوں عالم اسلام بالخصوص "او آئی
سی"دنیا کے دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر امریکہ اور اسرائیل کے حالیہ گٹھ جوڑ
کے خلاف اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر آواز بلند نہیں کرتا؟بحثیت مسلمان یہ
ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ فلسطینی مسلمانوں ،قبلہ اول کی حفاظت ومدد کرے ،ان
پر کیے جانے والے مظالم دنیا کے سامنے آشکار کرے،گوگل ،فیس بک ،یوٹیوب سمیت
امریکہ اور اقوام متحدہ کے فلسطینی مظلوموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے "دوہرے
سلوک "کو واضح کرے۔ |
|