نوک نوک۔۔کامیابی ہے منتظر
(Haseeb Aijaz Ashir, Dubai)
’’آؤ کسی مقصد کے لئے جیتے ہیں،آؤ کسی
مقصد کے لئے مرتے ہیں۔۔۔میری سوچ کا محور اسلام امت اور پاکستان۔۔۔سب کچھ
نہ سہی کچھ نا کچھ ضرور کرنا ہے۔۔۔ہاں میرا دل بار بار مجھ سے کہتا ہے کہ
’’نوک نوک۔۔کامیابی ہے منتظر‘‘۔۔‘‘یہی وہ سوچ ،فکر،نظریہ ہے جو رضوان اﷲ
خان کو شب و روز بے چین کئے ہوئے ہیں۔بے فکر دنیا کی فکر میں ہے بے فکر
لوگوں کو دیکھ کر فکر میں ہے۔۔۔۔رضوان کے خیالات کو جانچنے ،پڑھنے،سمجھنے
کا موقع ملے تو یہ بات خوب عیاں ہو گی کہ اتنی کم عمری میں ہی یہ نوجوان
اپنے ایک اندر کمال خصوصیات رکھتا ہے۔بات کرتا ہے عقل دھنگ رہ جاتی
ہے۔لکھتا ہے تو بڑے بڑے لکھاریوں کوبھی حیرت زدہ کر دیتا ہے ۔کچھ کرنے کا
عزم لئے ، کچھ کر گزرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔۔سنیئے یہ نوجوان کیا کہتا ہے
۔۔’’میں کون ہوں؟۔۔میرا مقصد بتائے گا‘‘
رضوان اﷲ خان ایک موٹیویشنل سپیکر ہیں اور بطور یوتھ اینرجائزر جانے جاتے
ہیں، کالم نگار اور فیچر رائٹر ہونے کے ساتھ سوشل ایکٹیوسٹ بھی ہیں، رضوان
اس وقت پاکستان کی مقبول و معرف ٹریننگ اینڈ کونسلنگ کمپنی ’’ہائی پوٹینشل
آئیڈیاز‘‘ میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ نوجوان کالم نگاروں کی
تنظیم پی ایف یو سی میں بھی بطور ڈائریکٹر پبلک ریلیشن اپنی ذمہ داری بھی
باخوبی نبھا رہے ہیں۔اِس نوجوان کی حالیہ دنوں میں منظرعام پے آنے والی
کتاب ’’نوک نوک۔۔کامیابی ہے منتظر‘‘ بارے یہ کہوں کہ اہل ذوق احباب کیلئے
ایک نادر تحفہ ہے کتاب کی تعریف میں ناکافی ہے۔۔زیرنظر اِس کتاب پر مجھے
تبصرہ ،تجزیہ،یا کوئی جائزہ نہیں لکھنا۔۔اور رضوان اﷲ خان کے سوشل میڈیا پے
لوگوں کے پوچھے گئے سوال کہ’’ہم کیا لکھیں؟ جو لکھتے ہیں لوگ اختلاف کرتے
ہیں‘‘پر دیئے گئے اِس جواب نے، مجھے ویسے ہی لکھنے میں بہت محتاط بھی کر
دیا ہے کہ ’’ ۱۔اگر تو آپ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے لکھنا چاہتے ہیں تو
انہی لوگوں پر لکھیں اور تعریفوں کے پل باندھ دیجئے وہ خوش ہو جائیں
گے۔۔۔۲۔اگر آپ خواتین میں مشہوری چاہتے ہیں تو غم،عشق اور اداسی کی چکی پیس
کر تحریر لکھیں۔۔۔۔۳۔اگر آپ ریٹنگ چاہتے ہیں تو جتنا ہو سکے جھوٹ
بولیں۔۔۔۔۴۔اگر آپ سب کے لئے قابل قبول بننا چاہتے ہیں تو جھوٹے اعتدال کا
نعرہ لگا کر سچ بولنے سے پرہیز کریں۔۔۔۵۔اور اگر آپ صرف سچ، امید، مثبت
پیغام، حق بات کا فروغ اور باطل سے پردہ اٹھانا چاہتے ہیں تو کسی بھی چیز
کی پرواہ کئے بنا، لوگوں کے طعنوں سے ڈرنے بنا، ریٹنگ کی فکر کئے بنا، سب
کو خوش رکھنے کی پالیسی کے بنا بس لکھتے چلے جائیں کیوں کہ میرے نزدیک ہر
شے سے بہتر حق بات کرنا ہے‘‘۔۔۔ تو اس لئے بغیر کسی تمہیدکے اِسی کتاب کا
مختصر تعارف پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جس میں رضوان نے اپنے اساتذہ سے
سیکھے اسباق اور اپنی جواں عمری میں زندگی سے سیکھے ہوئے تجربات قارئین کے
سامنے رکھنے کی بڑے اہتمام سے کامیاب کاوش کی ہے۔۔
یہ کتاب بتائے گی کہ کیسے زندگی میں پریشانیوں اور ناکامیوں کے خوف سے خود
کو بچاتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانا ہے،یہ کتاب آپ کو سیلف
ایویرنس کے ساتھ آپ کی پوشیدہ صلاحیتیں اور زندگی کے عظیم مقاصد کو جاننے
میں مدد دے گی،اس میں آپ سیکھیں گے کہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے گولز
کس طرح سیٹ کئے جاتے ہیں اور کس طرح اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارا جاتا ہے،
اپنی خود اعتمادی جگانے اور خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں یہ کتاب ایک
معاون دوست کا کردار ادا کرتی ہے،یہ کتاب ناکامی کے اندھیروں میں کامیابی
کی شمع جلاتی ہے، یہ کتاب نوجوانوں بالخصوص ’’سٹوڈنٹس‘‘کے لئے شاندار
روڈمیپ ہے۔
ــ سعید قاسم کے بنائے ہوئے شاہکار دیدہ ذیب سرورق کے ٹاپ پر لکھا ہے
کہ’’ہر اس شخص کے لئے جو زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے‘‘مگر مطالعہ بتائے
گا کہ یہ کتاب فقط اِس زندگی کی ہی نہیں بلکہ بعد ازموت زندگی میں بھی
کامیابیوں کی ضامن ثابت ہوگی،انشاء اﷲ تعالی۔۔والدِ محترم اور اُستادِ
محترم کے نام انتساب میں لکھتے ہیں کہ ’’والدِ محترم عبدالروف خان جن کا
خواب اپنی اولاد کو بڑا اور کامیاب انسان بنتے دیکھنا ہے اور اُستادِ محترم
اختر عباس جن کی محبت،شفقت اور خلوص نے اس خواب کو تعبیر کرنے کا حوصلہ
دیا‘‘بذریعہ ای میل موصول ہونے والے مداحوں ،جن میں ہارون وقار، عفاف
ابراھیم، ڈاکٹر کامران اقبال، عمرحیات گلریز، جاوید میاں، شہزاد خان، ڈاکٹر
فرید حیات اور فرید سجاد کے نام شامل ہیں، کے فیڈ بیک کو بھی کتاب کی زینت
بنانے کی ایک نئی روایت رکھی گئی ہیں ۔جو قابلِ تحسین ہے۔کتاب میں ’’آپکا
شکریہ‘ ‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں رضوان نے بڑے سلیقے اور احترام سے
تمام محسنین سے اظہار تشکر بھی کیا ہے جن کی دعائیں اور ہمت افزائی انکے
ساتھ ساتھ ہیں۔
کتاب کا دیباچہ بعنوان ’’دھیمی سی پُرخلوص دستک‘‘ میں معروف ٹرینر،مصنف
،افسانہ نگار چیف انسپائرنگ آفیسر ہائی پوٹینشل آئیڈیاز محترم اخترعباس
لکھتے ہیں کہ ’’کامیابی ہے منتظر‘‘ بے شک ایک دھیمی سی پرخلوص دستک ہے دستک
دینے والا بھی ہمیں بہت عزیز ہے اور یہ دستک بھی۔یہ کتاب آپ کو آگے بڑھنے
پر اکسانے میں مدد دے گی ۔نوجوان کالم نگار فرخ شہباز وڑائچ صدر پی ایف یو
سی اپنے تاثرات بعنوان ’’پہلی محبت‘‘میں لکھتے ہیں رضوان کی آنکھوں میں
کامیابی کی چمک اسے عام نوجوانوں سے ممتاز کرتی ہے،لگتا ہے یہ کچھ بدلنا
چاہتا ہے یہ زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتا ہے،یہ نوجوان اپنی پہلی کتاب کے
ساتھ آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے،پہلی کتاب ٹھیک ’’پہلی محبت‘‘کی طرح
ہوتی ہے، مجھے یقین ہے آپ اس نوجوان کی پہلی محبت کے امتحان میں اسے ناکام
نہیں ہونے دیں گے۔معروف سکالر شفیق احمد کمبوہ(جرمنی) کتاب پر اپنی آرا کا
اپنے مضمون ’’نوک نوک۔۔ایک جائزہ‘‘میں کچھ یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ اپنی
کتاب میں ہر جگہ مصنف نے زندگی میں حقیقی کامیابی کے حصول کے لئے
کنایوں،استعاروں اور تلمیحات کا استعمال انتہائی خوش اسلوبی سے کیا ہے۔یہ
کتاب دل شکستہ اور ناکامی کے خوف سے دو چار افراد کے لئے ایک قیمتی تحفہ
ہے۔بلکہ تمام قارئین کے لئے دورِ حاضر کی مایوسیوں سے بھری زندگی میں تازہ
ہوا کا جھونکا ہے۔سحرین بخاری اپنے مضمون’’میرا تاثر‘‘میں اپنے خیالات کا
اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ فخر بھی کہ نہایت
ذہین اور باادب رضوان اﷲ خان نے معاشرہ میں مفید شہری ہونے کی ذمہ داری
اُٹھاتے ہوئے ، اپنی کتاب میں کامیابی کے حصول کے حوالے سے راہنمااصولوں کا
جائزہ لیا ہے۔’’حرفِ آغاز ‘‘ میں رضوان نے اپنی قلمی سفر میں دوستوں،معاون
کاروں ،اساتذہ ،محسنوں کا ذکر بھی نہایت ادب سے کیا ہے اور آخر میں قارئین
کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اسی وقت خود کو بدلنے کا فیصلہ کیجئے اور
ناکامی کا خوف دل سے نکالنے کا عزم لئے کامیابی کے اصول سیکھنے اور ان پر
عمل کر کے کامیابی پانے کے لئے ’’کامیابی ہے منتظر‘‘ کا مطالعہ کیجئے ،بقول
شاعر۔۔‘‘
جو وقت کو مفت گنوائے گا۔۔۔وہ آخر کو پچھتائے گا
کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا۔۔۔جو بوئے گا سو کھائے گا
تو کب تک دیر لگائے گا۔۔یہ وقت بھی آخر جائے گا
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔۔۔پھر دیکھ، خدا کیا کرتا ہے
کتاب کے پندرہ باب ہیں ’’’آخرکامیابی ہوتی کیا ہے؟، کامیابی کیسے حاصل ہوتی
ہے؟، خواب سے حقیقت تک، من اپنے نوں۔۔پڑھ بندیا، خود پر بھروسہ کرنا
سیکھیں!، آؤ راستہ تلاش کریں، ناممکن تو کچھ بھی نہیں، اپنی صلاحتیں کو
چمکائیں، گھبراؤ نہیں۔۔قدم بڑھاؤ، تندی بادِ مخالف سے نہ گھبراؤ۔۔اے عقاب،
اعتماد کی اہمیت ضرور جان لیجئے، یہ تو میری ذمہ داری ہے!، یہ تو آتی ہے
تجھے اونچا اُڑانے کو!، بزنس میں بنیں، مانگنے میں کنجوسی نہ
کریں‘‘‘عنوانات کی کشش قارئین کو اپنی طرف راغب کرتی ہے،مضامین بامقصد ہیں
اور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔بڑی خوبصورتی اور نفاست سے انگلش لٹریچر کو سلیس
اُردو اور عام فہم انداز میں اُردو ادب میں جس سلیقے سے پیش کیا گیا ہے،جو
کہ ایک خوشگوار اضافہ ہے۔،قرانی آیات اور مقدس احادیثﷺ کو بھی بڑی عقیدت
مندانہ انداز میں مضامین میں شامل کیا گیا،بلاشبہ رضوان کو اُردو سے زیادہ
انگلش لٹریچر پر انگلش سے زیادہ عربی لٹریچر پر اور عربی سے زیادہ اُردو
لٹریچر پر عبور حاصل ہے ۔کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رضوان کو کتابوں سے کس
کدھر عشق ہے اور اُس کے مطالعہ کا دائرہ کار کتنا وسیع ہے۔
کتاب کے آخرمیں کنٹکٹ ڈیٹیل کے علاوہ ایک صفحہ قارئین کے لئے لائف گولز اور
تاثرات لکھنے کے لئے مختص کیا گیاہے۔جو رضوان کی بالغ النظری، دور اندیشی
کی اعلی مثال ہے۔ستمبر ۲۰۱۶ میں۱۵۰ صفحات پر مشتمل کتاب ’’کامیابی ہے
منتظر‘‘کو دارالمصحف نے شائع کیا،جسکی قیمت ۴۰۰ روپے مگر خصوصی رعایت پر
۳۰۰ پر بھی مصنف سے حاصل کی جا سکتی ہے۔تو اب سوچنا کیسا۔۔۔۔۔۔؟منتظر
ہے۔۔۔’’کامیابی کا منتظر‘‘
|
|