سچی بات ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں
وزیراعظم میاں نواز شریف کی اس قدر جاندار تقریر کی امید بہت کم لوگوں کو
تھی ۔مقبوضہ کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بجھوانے، برہان وانی شہید کو آزادی
کے متوالے نوجوانوں کے لئے علامت قرار دینے ، دنیا کے سب سے بڑے بین
الاقوامی فورم پر بھارت کی طرف سے مشروط مذاکرات کا بھانڈاپھوڑنے اور
بیرونی مداخلت کو ہر گز برداشت نہ کرنے کا عزم ظاہر کر کے وزیراعظم نے نہ
صرف پاکستانی قیادت کا حق اد اکیا ہے بلکہ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف
کشمیریوں کے دل بھی جیت لئے ہیں۔وزیراعظم اگر نیویارک جانے سے پہلے کشمیری
قیادت کی طرح اپوزیشن رہنماؤں سے بھی ایک ملاقات کر لیتے تو ان کا یہ دورہ
اور زیادہ کامیا ب رہتا لیکن اس موقع پر اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے
وزیراعظم کی تقریر پر اطمینان کا جو اظہار کیا گیا ہے اس کی تعریف نہ کرنا
پیشہ ورانہ بددیانتی ہوگی ۔بہرحال مختصر یہ کہ موجودہ دور حکومت میں
وزیراعظم محمد نواز شریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے چوتھی بار خطاب
جامع،مدلل اور خطے کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل کا بھی احاطہ کررہا تھا جس میں
وزیراعظم نے دنیا کے بڑوں پر واضح کردیا کہ اگر دنیا میں امن چاہتے ہو تو
اس کا راستہ جنوبی ایشیا سے جاتا ہے،اوراگرعالمی برادری جنوبی ایشیا میں
امن دیکھنا چاہتی ہے تو یہاں کے معاملات کو بھارتی عینک سے دیکھنے کی بجائے
پاکستان کو بھی اس کے حیثیت کے مطابق اہمیت دینا پڑے گی۔خاص طور پر
افغانستان کے معاملے میں امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان کو تنہا کرنے کے
لئے بھارت سے جو ہاتھ ملایا ہے اس کا کوئی فائدہ اس لئے نہیں ہوگا کہ
افغانستان میں امن و استحکام کا راستہ پاکستان سے ہو کر جاتا ہے ۔ کافی
عرصہ پہلے خاکسار یہ تحریرکر چکا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے اچھے اور برے
طالبان کی تمیز ختم کرتے ہوئے افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے کا
PARADIGM بدل دیا ہے ۔ وزیراعظم کے اس خطاب کی ایک اور اہمیت یہ بھی ہے کہ
وزیراعظم کی اس تقریر کے مندرجات سے پاکستانی فوجی قیادت بھی مطمئن دکھائی
دیتی ہے ، میرا خیا ل ہے اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب سے پہلے
وزیراعظم کی آرمی چیف سے فون پر بات چیت میں اس موضوع پر تفصیلی بات ہوئی
ہو گی ۔ اس فون کال میں سیاسی اور فوجی قیادت میں فاصلے تلاش کرنے والوں کے
لئے نشانیاں ہیں اگر وہ سمجھنا چاہیں۔
دوسری طرف بھارت کو اگرد یکھا جائے تو تادم تحریراقوام متحدہ میں بھارتی
وزیرخارجہ سشما سوراج نے تقریر نہیں کی ، لیکن اب وہ جو بھی فرمائیں اس کی
اہمیت کھسیانی بلی کھمبا نوچے سے زیادہ کچھ نہیں ہو گی ۔بھارت میں جنگ کا
بخار کافی تیز ہے ،مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کے فوجی اڈے پر حملے کے ہنگام ڈی
جی ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ کا حملہ آوروں سے پاکستانی
اسلحہ ملنے کا بیان بھارتی ذرائع ابلاغ کے’’ کان لال ـ‘‘کئے ہوئے تھالیکن
اب رنبیر سنگھ کا تھوکا بھارتی وزارت دفاع نے خودچاٹ لیا ہے۔ایک عجیب بات
یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان صورت حال جب بھی کشیدہ ہوتی ہے تو دونوں
ملکوں میں ذرائع ابلاغ کا ایک خاص حصہ حقائق کی پرواہ کئے بغیر مخالف کی دم
پر اپنا پاؤں رکھنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے۔ قومی مفادات کے تقاضے نبھانا
بہت ضروری ہے لیکن بے پر کی اڑانا اور کشیدہ صورتحال کو سستی شہرت کے لئے
مزید کشیدہ کرنے میں کردار ادا کرنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔بہرحال!باوجود
اس کے کہ بھارتی فوجی قیادت پاکستان پر حملے کو بہت مشکل ہد ف قرار دے چکی
ہے لیکن مودی جی صورتحال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کی بجائے فوجی
آپریشنز روم کے دورے فرما رہے ہیں ۔خاکسار کا ذاتی تجزیہ تو یہ ہے کہ بھارت
تمام تر تناؤ کے باوجود ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح پاکستان پر کھلا
حملہ کرنے کی غلطی نہیں کرے گاکیونکہ عالمی برادری خاص طور پر چین اور
موجودہ حالات میں روس بھی اس معاملے میں اس کی حمایت نہیں کریں گے ۔گو کہ
ماضی قریب میں روس کے صدرولادی میر پوٹن کو بعض وجوہات کی بنا پر اپنا دورہ
پاکستان ملتوی کرنا پڑا تھا لیکن اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ پاکستان
اور روس کے تعلقات کی بحالی کے لئے اندر خانے جو کوششیں کی جارہی ہیں اس
میں دونوں ملک یکساں طور پر سنجیدہ ہیں۔شائد دونوں ملکوں کی قیادت کو یہ
ادراک ہو گیا ہے کہ افغانستان کی جنگ میں ہم دونوں کی ’’سجی دکھا کر کھبی
ماری‘‘ گئی ۔ روس کمیونزم کے دور میں بھی پاکستان کے لئے برا نہیں تھا جیسا
کہ کمیونسٹ چین آج بھی پاکستان کا بہترین دوست ہے لیکن ستر کی دہائی کے آخر
میں پاکستانی پالیسی سازوں کا حساب کتاب الٹا ہوگیا جس کا خمیازہ ہمیں آج
بھی بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ خیر!اب جو ہو چکا سو ہو چکا ،خرابی کو درست کرنے
میں جتنی جلدی کی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔بہت کم لوگوں کو اس چیز کی اہمیت کا
اندازہ ہے کہ روس کے فوجی پاکستان کے ساتھ دوہفتے پر محیط مشترکہ فوجی
مشقوں کے لئے پاکستان پہنچ چکے ہیں ۔بلاشبہ یہ پاکستان کی کامیاب سفارتکاری
کا ہی نتیجہ ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات پر جمی برف پگھل بڑی حد تک پگھل چکی
ہے ۔ باوجود کوشش کے بھارت، پاکستان اور روس کی مشترکہ فوجی مشقیں رکوا
نہیں سکا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں روس اور پاکستان کے تعلقات
بھارتی مداخلت سے پوری طرح آزاد ہو ں گے ۔مشترکہ فوجی مشقیں ہمیشہ دوست
ملکوں کے درمیان ہوتی ہیں اس فارمولے کے تحت دیکھاجائے تو روس کے ہمارے
ساتھ تعلقات میں بہتری آرہی ہے۔
لیکن بھارت اگر ان حالات میں بھی پاکستان پر حملہ یا سرجیکل سٹرائیکس کی
حماقت کرے گا تو اس میں پاکستان کا کم اور بھارت کا نقصان زیادہ ہوگاکیونکہ
پاکستان کی فوج ہو یا عوام جنگ کی صور ت میں سارے بدلے چکانے کے موڈ میں
ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سیاسی قیادت پورے خلوص کے ساتھ بھارت
کے ساتھ تمام تنازعات پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتی ہے لیکن اگر بھارت نے
حملہ کیا تو مذاکرات کی بات کرنے والوں کو عوام کی طاقت کا سامنا کرنا پڑے
گا۔ لیکن مذاکرات تو جنگ کے بعد بھی کرنا پڑیں گے ۔تو مودی جی کومفت مشورہ
یہ ہے کہ وہ پاکستان کے مقابلے میں ہر لحاظ سے بڑے ملک کے وزیراعظم ہیں
لیکن پاکستان کے مقابلے میں ان کے پاس کھونے کو بہت ہی زیادہ ہے۔اس لئے بڑے
بنیں اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر مشروط ،سنجیدہ اور مؤثر
مذاکرات کو وہیں سے شروع کریں جہاں سے واجپائی اور میاں نوازشریف کے
مذاکرات کاسلسلہ ٹوٹا تھا او ر تیز ی کے ساتھ دوطرفہ مسائل کو حل کریں۔ بہت
کم رہنماؤں کو تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کا موقع ملتا ہے اور جو یہ موقع
کھو دیں تاریخ ان کو حرف غلط کی طرح مٹا دیتی ہے۔ |