سلگتا ہوا کشمیر

 دنیا کی آ نکھیں قتل و غارت گری اور سفاکیت کا منظر دیکھ کر اشکوں سے لبریز ہیں کہ جنت نظیر کشمیر سلگ رہا ہے اور اس کے بیٹوں کے مقدس خون سے وادیِ کشمیر لالہ زار بنتی جا رہی ہے۔پچھلی دہائی میں پاکستان کے ساتھ دھوکہ ہوا اور اسے بزور بھارتی سر پرستی پر مجبور کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھارتی بالا دستی کو ذہنی طور پر قبول کر لیا تھا اور کشمیر کا ایک حل بھی پیش کر دیا تھا جسے علی گیلانی جیسے جہاں دیدہ قائد نے ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کی پاداش میں انھیں حکومتی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اگر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ نہ ہوتا تو عین ممکن تھا مسئلہ کشمیر کا وہ تایا پینچا کر چکے ہوتے۔ان کی نظر میں اقوامِ متحدہ کی قرار ددوں، عوامی جذبات اور کشمیریوں کی بے شمار قربانیوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔وہ فوجی تھے لہذا ہر بات کو ڈنڈے کے زور پر حل کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے یہی انداز چیف جسٹس افتتحار محمد چوہدری کے بارے میں بھی اپنایا اور منہ کی کھائی۔جنرل پرویز مشرف ایک نئے فارمولے کے تحت جموں اور کشمیر کی تقسیم کی بات کر رہے تھے جسے اسٹیبلشمنٹ اور عوام کیلئے ماننا ممکن نہیں تھا۔بھارتی قیادت بھی جنرل پرویز مشرف کو کھلا رہی تھی ۔ہندو کا تو کام ہی بغل میں چھری منہ میں رام رام کرنا ہے۔اس کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے اور اپنی منافقت پر اسے شرمندگی نہیں ہوتی۔کشمیر میں رائے شماری کی قرار داد ۱۳ اگست ۱۹۴۸؁ کو منظور ہوئی لیکن مجال ہے بھارت نے اس قرارد دادپر عمل داری کو یقینی بنایا ہو۔وہ حیلے بہانوں سے اس قرار داد کو ٹال رہا ہے جس سے کشمیر کا مسئلہ ابھی تک لا ینحل ہے۔کشمیر مسلمان آبادی کی ریاست ہے اور تقسیمِ ہند کے فارمولے کے تحت اسے بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ لحاق کرنا تھا ۔کشمیرکا راجہ ہری سنگھ جوکہ ہندو تھا اس کی بد دیانتی کی وجہ سے کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کیا گیا لیکن کشمیر کے عوام نے اس الحاق کو ماننے سے انکار کر دیاکیونکہ تقسیمِ ہند کے فارمولے کے تحت مسلمانوں کی اکثریت کے علاقے پاکستان کا حصہ بننے تھے اور ہندو کثریت کے حصے بھارت کا حصہ بننے تھے۔اسی لئے بنگال اور پنجاب کی تقسیم عمل میں آئی تھی کیونکہ ان دونوں ریاستوں میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تقریبا ایک جیسا تھا لہذا غیر مسلم آبادی والا پنجاب اور غیر مسلم آبادی والا بنگال تخلیق کیا گیا ۔ ایک بھارت کا حصہ بنا اور ایک پاکستان کے ساتھ شامل ہوا۔لیکن کشمیر میں تو مسلمانوں کی آبادی ۷۷ فیصد تھی جبکہ ہندوؤں کی آبادی صرف ۲۰ فیصد تھی لہذا کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ بنتا تھا۔،۔

بھارتی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دباؤ اور ہندوؤں کی سازش کی وجہ سے راجہ ہری سنگھ کو مجبور کیا گیا کہ وہ کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کرے۔راجہ ہری سنگھ نے اپنا اقتدار بچانے کی خا طر اس دباؤ کو قبول کر لیا لیکن کشمیری عوام نے اس اعلان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس غیر منطقی اعلان کے بعد کشمیر میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۷؁ کو بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہو گئی اور کشت و خون کا بازار گرم کر دیا۔ہزاروں کشمیریوں کو تہہِ تیغ کیا گیا اور انھیں چن چن کر ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔عورتوں کی عصمت دری اور معصوم بچوں کا قتلِ عام روز مرہ کا معمول بن گیا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کشمیر پر بھارتی لشکر کشی کے خلاف اپنی فوج کو اس قتلِ عام کے خلاف تیار رہنے کا حکم صادر کر دیا لیکن اس وقت کے سپہ سالار ڈگلس گریس نے قائدِ اعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیا لہذا انھیں وہ حکم نامہ واپس لینا پڑاتھا۔حالات دن بدن سنگین ہو تے گئے جبکہ بھارتی فوجی نہتے کشمیریوں کو گاجر مالی کی طرح کاٹ رہے تھے لہذا اس ننگی جارحیت کے خلاف وزیرستان کے قبائلیوں کی رگِ حمیت پھڑکی اور وہ بھارتی فوج سے لڑنے کیلئے کشمیر پہنچ گئے ۔ وزیرستان ایک قبائلی علاقہ ہے جہاں پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا اس لئے قبائلیوں کی یہ مدد ان کی اپنی سوچ کی آئینہ دار تھی۔گوریلا جنگ شروع ہو گئی جس میں پاک فوج کی بجائے کشمیری اور قبائلی اس جنگ میں بھارتی فوج کی سنگینون کے سامنے سینے تانے کھڑے ہو گئے ۔سردار عبدالقیوم کی قیادت میں اس قبائلی لشکر نے بہت سے علاقے فتح کئے۔موجودہ آزاد کشمیر بھی اسی لڑائی میں فتح کا نتیجہ ہے۔جب انارکی بہت زیادہ پھیل گئی اور امن و امان کا مسئلہ سنگین صورتِ حال اختیار کر گیا تو بھارت نے ا قوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔جنگ بندی عمل میں لائی گئی اور ۱۳ اگست ۱۹۴۸؁ کو وہ تاریخی قرارداد منظور ہوئی جس میں استصوابِ رائے کا حکم دیا گیا تھا۔اہم بات یہ ہے کہ یہ قرا دادتو آزادیِ ہند کے دو عظیم راہنماؤں قائدِ اعظم محمد علی جناح اور پنڈت جواہر لال نہرو کی حیات میں منظور ہوئی تھی لہذا اس پر عمل داری سے کسی پر کوئی الزام نہیں آسکتا لہذا کسی جماعت کو کسی بھی قسم کا کوخوف یا ڈر نہیں ہو نا چائیے کہ عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گئے کیونکہ اسے بانیانِ ریاست کی تائید حاصل ہے ۔ لہذا عوام استصوابِ رائے کے فیصلے سے خوش ہوں گئے کیونکہ اس سے کشت و خون کا بازار بند ہو گا۔امن کو فروغ ملے گا اور ایک دیرینہ مسٗلہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا ۔بھارتی حکومت نے عالمی دباؤ کے تحت اس قراد اد کو تسلیم تو کرلیا تھا اور اس پر عمل در آمد کروانے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن بسا آرزو کہ خاک شدی کے مصداق وہ ا ستصوابِ رائے ابھی تک حقیقت کا روپ اختیار نہیں کر سکاکیونکہ بھارتی قیادت کے من میں کھوٹ ہے۔

یہ بات بڑے غورو فکر کی متقاضی ہے کہ رائے شماری کا معاملہ کوئی خصوصی طور پر کشمیر میں نہیں ہو رہا بلکہ اس طرح کی رائے شماری دنیا کے دیگر ممالک میں بھی گاہے بگاہے وقوع پذیر ہوتی رہتی ہے۔ایسٹ تیمور کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پر عیسائی اور مسلمان باہم اکٹھے رہنے میں دشواری محسوس کر رہے تھے لہذا عیسائی آبادی کے علاقے ایسٹ تیمور کو انڈو نیشیا سے علیحدہ کر کے ایک نئی ریاست بنا دی گئی۔ابھی حال ہی میں سوڈان میں بھی ایسی ہی رائے شماری ہوئی ہے جس میں سوڈان دو حصوں میں منقسم ہو گیا ہے ۔سکاٹ لینڈ کے عوام نے برطانیہ کے ساتھ رہنے سے انکارکیا تو وہاں پچھلے سال ایک ریفرینڈم کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں عوام سے رائے پوچھی گئی تھی کہ وہ برطانیہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا برطانیہ سے علیحدگی چاہتے ہیں؟اس ریفر ینڈم میں عوام نے علیحدگی کی بجائے برطانیہ کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا اور یوں سکاٹ لینڈ کا تصفیہ اپنے انجام کو پہنچا۔ابھی چندہفتے قبل کی بات ہے بر طانیہ نے ایک نئے ریفرینڈم کا اہتمام کیا تھا جس میں عوام کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھاکہ آیا برطانیہ کو یورپی یونین سے نکل جانا چائیے یا یورپی یونین میں رہنا چائیے؟وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین میں رہنے کے حق میں تھے جبکہ اپوزیشن برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنا چاہتی تھی۔عوام نے یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ صادر کر دیا جس سے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے استعفے دے دیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ برطانوی مفادات اور میرے موقف کے خلاف ہے لہذا میرا وزارتِ عظمی پر فائز رہنا جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔اس وقت کشمیر میں بھارت سے آزادی کی تحریک زوروں پر ہے اور برہان مظفر وانی شہید کی موت پر جو احتجاج دیکھنے کو ملا ہے و ہ بالکل مختلف ہے چھ لاکھ افراد کا اس کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا محیر العقوم واقعہ لگتا ہے ۔ ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے ہر انقلابی کے اندر برہان مظفر وانی شہید چھپا ہوا ہے ۔نوجوان اپنے زندگیوں کو وانی کے نام کر چکے ہیں لہذا اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اسے خراجِ تحسین پیش کررہے ہیں۔اگر ٹی وی چینلز ،سیاسی جماعتیں، حکومت اور عسکری قیادت کشمیر کے مسئلہ پر یک زبان ہو جائے تو شائد کشمیریوں کو سات لاکھ بھارتی فوجیوں کے جبر و تشدد سے نجات مل جائے ۔پاکستای جھنڈے کی عظمت ہم سے اس بات کا تقاضہ کر رہی ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر سیاست کرنے کی بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔اخباری بیانات اگر کشمیر کے مسئلے کا حل ہوتے تو یہ مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ یہ مسئلہ اب پوری توجہ کا متقاضی ہے ۔ کشمیریوں کا خون ہمیں پکار رہا ہے۔کیا ان کے لہو کہ پکار اس دفعہ بھی رائیگا ں جائے گی یا حکومت واقعی اپنے فرض سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے کسی نئی راہ کو تلاش کرے گی؟قرار دادیں موجود ہیں ان پر صرف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے۔کیا حکومت ِ پاکستان اپنی اعلی ڈیپلومیسی کی بدولت ایسا کر پائیگی یا مسئلہ کشمیر ماضی کی طرح سرد خانے کی نذر ہو جائیگا؟۔،۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.