بڑھتی ہوئی بے روزگاری ایک اہم معاشرتی ناسور

ہمارے اعلیٰ حکمران آدھا ملک تو ہڑپ کر ہی چکے ہیں بقایا ہڑپنے سے بھی گریزنہیں کریں گے۔اور اگر عوام یوں ہی خاموش رہے تو ان کا مستقبل تباہ و برباد ہو جائے گا۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے غریب عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ جہاں بنیادی ضرورتوں کا حصول بھی عوام کو ایک خواب سا لگتا ہے۔غربت اور بے روزگاری سے تنگ آئے روزانہ نجانے کتنے لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ غریب عوام سے بھیڑ بکریوں سا سلوک کیا جاتا ہے مگر معصوم عوام خاموش ہی دکھائی دیتے ہیں۔چند روز قبل یہ خبر سننے میں آئی کہ بہاولپور کے ایک شخص نے غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر خود کو آگ لگا لی۔اہلِ خانہ اور اہلِ محلہ کی کوشش سے اس شخص کو خود کشی سے تو بچا لیا گیا مگر اسپتال پہنچانے تک اس کے جسم کا 55فیصد حصہ جل چکا تھا ۔اسی طرح آئے روز ضرور کوئی نہ کوئی مردوخواتین بے روزگاری سے مجبور ہوکرخود کشی کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض لوگ اپنے بچوں سمیت اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں تاکہ ان کے مرنے کے بعد ان کی اگلی نسل کو بے روزگاری اور غربت کا عذاب جھیلنا نہ پڑے۔غربت سے تنگ آکر لوگوں کا خودکشی کرنا، اپنی اولاد کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینا سب عام ہو چکا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کی نظر میں شاید کسی کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
جھوٹ، چوری، قتل و غارت، دہشت گردی یہ چند ایسی بیماریاں ہیں جو ہمارے ماحول میں اس حد تک پھیل چکی ہیں کہ اب عوام کو ان کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اگر ملک کے موجودہ حالات پر غور کیا جائے توایسے اور بھی کئی نوجوان موجود ہیں جو روزگار کی خاطر دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں بے روزگاری کے باعث تعلیم یافتہ افراد بھی بیرون ملک جاکر مزدوری کرنے پر مجبور ہیں یا پھر اپنے ہی ملک میں منفی سرگرمیوں میں ملوث دکھائی دیتے ہیں آخر نوجوان بیرون ملک جانے پر کیوں مجبور ہیں؟ کیا ان کے نزدیک ملک کی ترقی اہمیت نہیں رکھتی؟ یا وہ اس وطن عزیز کی خاطر کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے؟ تعلیمی معیار بہتر بنانے کے لئے ہم یو ایس ایڈ اور پڑھا لکھا پنجاب جیسی اسکیمیں تو شروع کر رہے ہیں مگر پڑھنے لکھنے کے بعد ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ان کو ان کی قابلیت کے مطابق نوکریاں ملیں گی؟ ان کو روزگار فراہم کیا جائے گا؟ یہ چند ایسے مسائل ہیں جن پر نہ تو سابقہ حکومتوں نے غور کیا اور نہ ہی موجودہ حکومت غور کرنے کو تیار ہے۔ تو آخر عوام ان سوالوں کے جواب کس سے طلب کرے؟ 69 سالوں سے عوام کے ساتھ لاوارثوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز حکمران خود تو دو دو ہاتھوں سے ملک کو لوٹنے میں مگن ہیں مگرعوام کے لئے معمولی ملازمتیں بھی موجود نہیں ہیں۔جس ملک کے حکمران ہی ملک وقوم سے مخلص نہ ہوں ایسے ملک کا کیا حال ہو گا۔ معاشرے میں موجود معاشی عدم مساوات غریب عوام میں احساس کمتری پیدا کر رہا ہے۔امیر اور غریب کے درمیان ایسی دیوار بن چکی ہے جسے پار کرنا غریب کے بس میں نہیں ہے۔ایسی کئی مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔

میرٹ کے گیت گانے والے نا جانے اس وقت کہاں کھو جاتے ہیں۔ جب ملازمت کے حصول کے لئے سفارش یا رشوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔قسمت سے اگر کسی کو نوکری مل ہی جائے تو 2سے3 سال کا تجربہ مانگا جاتا ہے جو کہ فریش گریجویٹس کے لئے نا ممکن ہے ۔پاکستان میں بے روزگاری کی متعدد وجوہات ہیں۔جیسا کہ ہمارا تعلیمی نظام ہمارے ملک کی ضروریات کے مطابق نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہنر مند افراد کی بے حد کمی ہے کیوں کہ تمام تر توجہ نظریاتی تعلیم پر دی جاتی ہے۔ اور عملی کام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ملکی ترقی کے لئے ہنر مند افراد کی ضرورت ہے کیونکہ صنعتوں اور فیکٹریوں میں تمام نوجوانوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز نہیں کیا جا سکتا۔

بے روزگاری کی ایک اور وجہ ہمارے نوجوانوں کا طرز عمل بھی ہے۔ کیونکہ انھوں نے ایک اچھے دفتر کی ملازمت اور اعلیٰ سماجی حیثیت کے خواب دیکھ رکھے ہیں۔ اس لئے نوجوانوں کے نزدیک دستی کام کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے بعد معرض وجود میں آنے والے ممالک ہم سے کہیں آگے نکل گئے ہیں مگر ہم آج بھی مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور بے روزگاری جیسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ بے روزگاری ایک ایسا مسئلہ ہے جو ملک کی معشیت پر بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ صنعتی علاقوں میں لوڈشیڈنگ نے صنعتوں کے ملازمین سے ان کا روزگار بھی چھین لیا ہے۔ جو کہ ملک میں بڑھتے جرائم کا سبب بن رہا ہے۔معاشرے کی اصلاح اور ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ حکمران بے روزگاری کے مسئلے پر توجہ دیں، اس کے علاوہ تعلیمی نظام ملک کی ضرورت کے مطابق بنایا جائے کیونکہ ہمارے ملک میں صرف تعلیم یافتہ نہیں بلکہ ہنرمند افراد کی بھی ضرورت ہے۔اس مسئلے کے حل کی خاطر ایسے ادارے بنائے جائیں جہاں نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم دی جائے۔
Abdul Rauf Bhatti
About the Author: Abdul Rauf Bhatti Read More Articles by Abdul Rauf Bhatti: 3 Articles with 1778 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.