معاف کیجئے گا !لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ
برصغیر کی سیاسی قیادت اپنے اختلافات کو بات چیت سے حل کرنے میں ناکام رہی
ہے۔مجھے یقین ہے کہ اہل دانش کی ایک بڑی تعداد میری اس رائے سے اختلاف کرے
گی لیکن میں کیا کروں کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے دیکھنے میں یہی آرہا ہے،
آنکھیں بند کرنے سے کبوتر کی جان تھوڑی بچ جائے گی۔
آخری بار پاکستان اور بھارت کے درمیان جو نتیجہ خیز مذاکرات ہوئے تھے وہ
وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹواور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے
درمیان ہوئے تھے۔نصف صدی ہونے کو آئی ہے لیکن وزیراعظم میاں نواز شریف
اوربھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورمیں ایک مختصر وقفے کے
علاوہ دونوں ملکوں کے تعلقات کبھی خوشگوارماحول کی عیاشی کی مرتکب بھی ہوئے
ہوں تو طالب علم کی معلومات میں اضافہ کیجئے۔بے شک آپ میاں نوازشریف کو
دشنام دیجئے کہ انہوں نے خارجہ پالیسی راولپنڈی کے حوالے کر رکھی ہے لیکن
میں آپ سے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے یہ ضرور کہوں گا کہ یہ میاں نواز شریف
ہی ہیں جن کے صبر وتحمل کی وجہ سے بھارت کی طرف سے لفظی جنگ کا اسی لب و
لہجے میں جواب نہ دینے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ایک خاص
تناؤ سے آگے نہیں بڑھی۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر چھیڑ چھاڑ کرے گا تو جواب
تو ملے گا لیکن ایسا شائد تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ لائن آف کنٹرول
اوراقوام متحدہ کے سیاسی پلیٹ فارم سے پاکستان نے وقت کے تقاضو ں کے مطابق
بھرپور جواب دیا ہے۔ بھارت نے اُڑی کے فوجی اڈے پر حملے کے بعد اپنی خفت
مٹانے کے لئے پاکستان میں سرجیکل سٹرائیک کا جو ڈرامہ رچایا اس کی اصلیت یہ
ہے کہ بھارت کے ڈی جی ایم اوکو اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے کے لئے
پاکستانی فوج کے ڈی جی ایم او سے درخواست کرنی پڑی ۔ دراصل یہ سرجیکل
سٹرائک بالکل نہیں بلکہ بھارتی فوج کی طر ف سے لائن آف کنٹرول کو پار کرنے
کی سوچی سمجھی سکیم تھی جس کے مقاصد کچھ وقت کے بعد سامنے آئیں گے ۔ کیونکہ
چندولال چوہان تو پکڑا گیا لیکن اس کے ساتھی مارے گئے اور چونکہ وہ لائن آف
کنٹرول کے اس پار پاکستانی حدودمیں ’’گھس کر مارنے‘‘ کے چکر میں مارے گئے
اس لئے ان کی لاشیں اٹھانابھی دوبھرہوگیا(غیر مصدقہ اطلاع کے مطا بق بھارتی
فوجیوں کی لاشیں ابھی تک بھارت کے حوالے نہیں کی گئیں )۔دوسری طرف اقوام
متحدہ میں بھی وزیراعظم میاں نواز شریف کے خطاب سے بھارت اچھا خاصا پریشان
ہے۔میں اگر یہ کہوں کہ بھارت کی دُم پر پاؤں آگیا ہے تو یہ لفاظی تو بہت
اچھی ہوگی لیکن صحافتی اقدار کے تحت اس لب و لہجے میں بات کرنا شائد مناسب
نہ ہو۔کیونکہ جب بھی دونوں ملکوں میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو سرحد
کے دونوں طرف ذرائع ابلاغ کا ایک بڑا حصہ اندھا دھند تجزیوں کا آغاز کردیتا
ہے۔اس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہر ہ کیا جاتا ہے کہ سچائی اور صحافتی اقدار
کے پر خچے اڑا دیئے جاتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ اس میں بھارتی ذرائع ابلا غ کا
حصہ زیادہ ہے۔سرحد کے اُس پار ذرائع ابلاغ نے اپنی آتش بیانی سے اس قدر
تناؤ پید ا کردیا ہے کہ خود بھارتی حکومت کیلئے یہ مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کہ
عوامی جذبات کو کیسے ٹھنڈ اکیا جائے۔ ایک غیر اعلانیہ مہم کے ذریعے بھارتی
عوام کو یہ باور کرادیا گیا ہے کہ ان کی فوج جب چاہے پاکستان کو فتح کر لے
گی اور پھر کشمیر کا مسئلہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے گا۔پروپیگنڈے
کا چراغ رگڑ کر اگر آپ عوامی جذبات کے جن کو بوتل سے باہر نکالیں گے تواسے
دوبارہ بند کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ،اور جن کوئی بھی ہو،اگر بے قابو ہو جائے
تو بہت تباہی پھیلاتا ہے۔در حقیقت دونوں ملک یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ
کھلی جنگ کی صورت میں پاکستان اور بھارت دونوں میں اس قدر تباہی پھیلے گی
کہ لوگ ہیرو شیما اور ناگاساکی کو بھول جائیں گے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت
یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی ماحول کو تناؤ کیوں دے رہا ہے ۔ خاکسار کی
رائے میں اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل اور موجودہ
حکومت کی پالیسیوں ،خاص طور پر پاک چین اقتصادری راہداری کی تیز رفتار
تعمیر بھارت کے لئے انتہائی پریشان کن ہے۔ایک تو اس سے پاک چین تعلقات مزید
مستحکم ہور ہے ہیں دوسرے اس سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر معاشی سرگرمیوں
میں اضافے کا قوی امکان ہے ۔ پاکستا ن نے توانائی کے بحران پر قابو پالیاتو
ملک میں بیروزگاری میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی اور عوام کی قوت خرید میں
بھی اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف پاکستان اور روس کے درمیان بحال ہوتے تعلقات بھی
بھارت کے لئے سوہان روح بنے ہوئے ہیں ۔ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات کی
بحالی کا آغاز ہی ’’دوستی ــ‘‘ نامی مشقوں سے ہورہا ہے تو آگے چل کر یہ کیا
رخ اختیار کریں یہ سوچ بھارت کے خارجہ پالیسی سازوں کے لئے پریشان کن ہے ۔
قارئین میرے منہ میں خاک !لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ بھارت کی ہٹ دھرمی کے
سبب جنوبی ایشیا میں جنگ ناگزیر ہوچکی ہے۔جہاں کروڑوں بچے سکول سے محروم
ہوں، مائیں بچوں کو جنم دیتے ہوئے دم توڑ دیں،معاشرے کے ایک بہت بڑے طبقے
کو پینے کا صاف پانی اور بیت الخلاء تک میسر نہ ہو،جہاں کروڑں خاندانوں کی
زندگیاں فٹ پاتھ کے اوپر بسر ہوں وہاں جنگ کی بات اچھی تو نہیں لگتی لیکن
بھارتی رویہ ایسا ہی رہا توجنگ آج ہو یا دس بیس برس بعدفیصلہ بندوق سے ہی
ہوتا نظر آرہا ہے۔اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں کہ جنگ تباہی لاتی ہے اور
شکست خوردہ فریق کے ساتھ ساتھ فتح کے شادیانے بجانے والا بھی مدت تک اپنے
زخم چاٹتا رہتا ہے۔لیکن بار ہا مذاکرات کا ٹوٹنا اس بات کی گواہی دیتا ہے
کہ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت (خاص طو ر پر بھارتی قیادت)بات چیت کے ذریعے
اپنے تنازعات حل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ تاریخ پر نظر ڈالیں توصرف تعلیم
یافتہ اور منظم قومیں ہی اپنے تنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کی سکت رکھتی
ہیں لیکن جہاں عوام کی بڑی تعداد خود جہالت اور پسماندگی کا شکار ہو وہاں
جہاندیدہ قیادت ابھرنے کے امکانات بہت زیادہ روشن نہیں ہوتے اور ایسے
معاشروں میں فیصلے تلوار کی نوک سے ہی ہوتے ہیں۔لیکن ایک بات ممکن ہے کہ
چین اور روس کے ساتھ عرب ممالک بھی مل کر ایسا دباؤ پیدا کردیں کہ بھارت کو
خطے میں خوشحالی کے لئے کشمیر سمیت پاکستان سے اپنے تمام تنازعات حل کرنے
پڑیں ۔ لیکن غیر ہماری اتنی فکر کیوں کریں گے اگر ہم خود ہی اپنے آپ کو
بدلنے کی کوشش نہ کریں ۔ |