بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب..؟ آج کے بعد ملاقات نہیں چیف صاحب....؟

نواز شریف کا کھٹکا....اور برٹش میڈیا کا اٹکا
صدر کا برطانیہ کا دورہ اور جگ ہنسائی ....

آج پوری پاکستان میں سب سے زیادہ جو نکتہ موضوع بحث بنا ہوا ہے وہ صدر زرداری کا برطانیہ کا دورہ ہے اِس کی مخالفت سن سن کر کان پک گئے ہیں اور اَب جو صدر زرداری اور برطانیہ کے دورے سے متعلق کچھ کہتا ہے تو بے ساختہ زبان سے یہ الفاظ نکل پڑتے ہی کہ ”بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب ....!!آج کے بعد ملاقات نہیں چیف صاحب“ویسے صدر زرداری نے برطانیہ کا سرکاری خرچ پر اپنا دورہ کیا ....؟کرلیا گویا کہ صدر اور اِن کے دورے پر بولنے کو آج گونگے کے منہ میں بھی زبان آگئی ہے اور مجھ سمیت جس کو دیکھو وہی بیچارے صدر آصف علی زرداری کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گیا ہے اَب اِسی کو ہی لیجئے! کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے تو اپنی حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے متعلق برطانیہ کے وزیر اعظم کیمرون کے بیان پر افسوس کا اظہار جو کیا وہ کیا....؟؟وہ اپنی جگہ درست ہے مگر اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے صدر زرداری کے برطانیہ کے دورے کو بے مقصد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر زرداری کے دورہ برطانیہ سے جگ ہنسائی ہورہی ہے اِن کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیمرون نے پاکستان کی دنیا بھر میں بے عزتی کی ہے اور صدر زرداری نے اِس بے عزتی پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کئے بغیر اُلٹا ہنسی خوشی برطانیہ کا دورہ کر کے ملکی وقار کو مجروح کیا ہے۔

اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف جذبات کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ کہنے سے بھی نہ رہ سکے کہ وہ صدر کے رویے کے خلاف لانگ مارچ کا بھی دوبارہ سوچ رہے ہیں اور نواز شریف نے اپنے اِسی جذبات کے سہارے بہتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا کہ صدر کو کیمرون سے ملاقات کی اتنی جلدی اور بے چینی تھی وہ کیمرون کے ساتھ ملاقات سے تین دن پہلے ہی لندن میں جاکر بیٹھ گئے ہیں اور اِن کا ایک ایسے وقت میں لندن جانا افسوس ناک ہے کہ جب پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور حکومتی مشینری پوری کی پوری غائب ہے اُنہوں نے حکومتی اراکین پر یہ بھی الزام لگایا کہ کوئی ایئر کنڈیشنڈ میں بیٹھا سیلاب کی تباہ کاری سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تو کوئی لندن میں سیر سپاٹے کر کے عوام کے مرنے کا انتظار کر رہا ہے۔

اگرچہ اِس سے بھی انکار نہیں کہ نواز شریف نے چارسدہ میں سیلاب ریلیف کیمپ کے اپنے دورے کے دوران صحافیوں سے اپنی گفتگو کے دوران جن جذباتی خیالات کا اظہار کیا وہ اپنی جگہ تو کسی حد تک درست ہوسکتے ہیں مگر اِنہیں بھی ایسے وقت میں اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے کہ وہ کوئی ایسی بات اپنے منہ سے نہ نکالیں اور کسی لانگ مارچ کے منصوبے کا اعلان نہ کریں کہ جس سے جمہوریت کی ریل گاڑی پٹری سے اتر جائے اور اِن کے اِس سیاسی رویے سے آج عوام کا گھیرا نواز شریف کے گرد جمع ہوا ہے کل یہی عوامی ہجوم اور ریوڑ نواز شریف کو ہی برا بھلا کہتا پھرے کہ نواز شریف نے اچھی بھلی جمہوری حکومت کے ایک طاقتور ترین جمہوری صدر کے خلاف فضول کا لانگ مارچ کر کے ملک میں جمہوریت کے پنپتے پودے کو اپنے جذبات میں اٹھائے گئے قدموں تلے کچل کر رکھ دیا ہے۔

سو اِس موقع پر میرا نواز شریف اور اِن کی پارٹی کے اراکین کو یہ مشورہ ہے کہ وہ حکومت کو جیسے تیسے اپنی مدت پوری کرنے دیں جنرل الیکشن میں عوام خود فیصلہ کردیں گے کہ اِس حکومت نے عوام کے لئے کیا کیا....؟؟اور کیا نہیں ....بہرحال! ابھی نواز شریف یا کسی اور کو کوئی ایسا قدم ہرگز نہیں اٹھانا چاہئے کہ جن کی ذرا سی غلطی کی وجہ سے حکومت وقت سے پہلے ہی ختم ہوجائے اور پھر یہ حکومت اپنی مظلومیت کا رونا روتے عوام کی دہلیز پر جائے تو پھر یہ عوام کو بٹانے اور بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو کر دوبارہ اقتدار کی مسند پر آن دھمکے اور میاں نواز شریف اور دوسرے جو آج اقتدار کی ہوس کے پجاری بننے بیٹھے ہیں یہ ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جائیں تو اِن حالات کے منظر اور پس منظر میں وقت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اِس حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع سب کو مل کردینا چاہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے۔

ہاں! اگرچہ یہ بھی ٹھیک ہے کہ زمینی حقائق سے منہ چراتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھارت میں ایک کپ خالص گڑ کی بنی گرم گرم چائے کی چسکیاں بھرتے ہوئے بھارتیوں ہی کی زبان میں پاکستان پر جو الزامات لگائے ہیں وہ سب کے سب بے بنیاد اور غلط ہیں اور اِس موقع پر ایک میں ہی کیا بلکہ پورا پاکستان ہی یہ سمجھتا ہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم نے جس انداز سے پاکستان پر بھارت میں بیٹھ کر من گھڑت الزامات لگائے ہیں وہ غلط ہیں اور ہمیشہ غلط ہی رہیں گے تو وہیں مجھ سمیت اپوزیشن اور کروڑوں پاکستانیوں کا بھی یہ خیال ہے کہ برطانوی وزیراعظم سے بھی زیادہ بڑی غلطی کے مرتکب ہمارے صدر مملکت آصف علی زرداری برطانیہ کا دورہ کر کے ہوئے ہیں کہ جنہوں نے اِن حالات میں برطانیہ کا دورہ کیا جب برطانیہ کے وزیراعظم نے کھلم کھلا پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگایا اور اِس کے ساتھ ہی یہ کہ جب پاکستان کے بیشتر صوبے تاریخ کے انتہائی بدترین سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اِس سیلاب سے تباہی وبربادی اِن صوبوں اور اِن کی عوام کا مقدر بن چکی ہے تو ایسے میں صدر مملکت آصف علی زرداری اور اِن کے رفقائے کار کو کیا ضرورت پڑی تھی ....؟؟؟کہ وہ سب کے سب خالصتاََ سرکاری خرچ پر فرانس اور برطانیہ کے دورے پرسیلاب سے مرتی کٹتی اپنی عوام کوبے یارو مددگار چھوڑ کر چلے جاتے.....؟؟؟؟اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ اِن دنوں نہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ برطانیہ سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی غیور اور محبِ وطن پاکستانی بستے ہیں اِن سب ہی نے اپنے صدر مملکت آصف علی زرداری اور اِن کے رفقائے کار کو برطانیہ کے اِس بے وقت دورے پرلے چلے گئے ہیں آج اِن کے اِس دورہ برطانیہ کو پاکستانیوں نے جس انداز سے ہدفِ تنقید بنایا اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

جبکہ پاکستانیوں کو یہ یقین تھا کہ برطانیہ کا دورہ کرنے پر اِن کی جانب سے صدر کو اِس قدر تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد اِس کے ردِعمل کے طور پر صدر اور اِن کے دورے میں شامل افراد قوم کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے اپنا برطانیہ اور فرانس کا دورہ فوری طور پر منسوخ کردیں گے اور اِس دورے پر آنے والے سرکاری اخراجات کی رقم کو اپنے خالصتاً حب الوطنی کے جذبے کے تحت سیلاب زدگان کی امداد میں دے دیں گے. مگر ہر پاکستانی کو اُس وقت حیرانگی اور پریشانی ہوئی جب صدر زرداری کے اِسی دورہ برطانیہ کے حوالے سے برٹش میڈیا نے بھی بہت سے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاہ ے کہ ایک ایسے وقت میں کہ پاکستان کے صدر زرداری کا ملک اپنی تاریخ کے انتہائی بدترین سیلاب کی کیفیت سے دوچار ہے اور اِن کے اپنے ملک میں امن وامان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ جاری ہے جِسے حکومت روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے تو ایسے میں صدر زرداری کو سرکاری خرچ پر اپنا ملک روتا بلکتا اور سسکتا چھوڑ کر برطانیہ کے دورے پر آنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کو متعارف کرائیں اور مسٹر ٹین پرسینٹ کی املاک جو ایک ارب پاؤنڈ پر مشتمل ہے اور جن کا برطانیہ، اسپین اور فلوریڈا میں گھر ہے وہ اپنے ملک کے عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں کے ہاتھوں چھوڑ کر لندن چلے آئے ہیں تو یوں ہر طرف سے تنقیدوں کے پہاڑ صدر پر گرائے جانے کے باوجود بھی صدر نے اپنا برطانیہ کا دورہ منسوخ نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے اور زیادہ عزم و ہمت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے برطانیہ اور فرانس کا اپنا دورہ جاری رکھا۔ تو اِن کے اِس عزم و ہمت کو دیکھتے ہوئے پاکستانی قوم نے انہیں جہاں پیش کی تو وہیں پوری پاکستانی قوم یہ بات بھی تسلیم کرنے اور سراہانے پر مجبور ہوئی کہ یہ ہمارے ملک کے انتہائی طاقتور ترین صدر اور اِن کے رفقا کار کی جمہوری عمل اور اِن کی ا علیٰ ظرفی اور یکسوئی تو ہے کہ اُنہوں نے پاکستان سمیت دنیا بھر کی خود پر ہونے والی تنقیدوں اور اِن کی طرح طرح کی باتیں سننے کے باوجود بھی وہی کیا جو اِنہیں کرنا چاہئے تھا۔

بہرحال! اَب جو کچھ بھی ہو صدر مملکت آصف علی زرداری کے اِس دورے برطانیہ کے مستقبل قریب میں کیا ثمرات سامنے آتے ہیں.....؟؟ وہ تو بعد کی بعد ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر زرداری نے اُن تمام پابندیوں اور روایات کو پاش پاش کر دیا ہے جس میں سابقہ صدور ِپاکستان جکڑے ہوئے تھے کیوں کہ صدر زرداری پاکستانی شیروانی چھوڑ چھاڑ جینز اور سفید شرٹ پہنے لندن پہنچ گئے جہاں وہ برطانیہ کے وزیراعظم کیمرون کی اِس واضح اور ہٹ دھرمی کے بعد کے میں نے پاکستان سے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ سب کا سب بلکل درست اور ٹھیک ہے اِس کے باوجود صدر زرداری برطانیہ کے وزیر اعظم کیمرون سے ملاقات کے دوران آنکھ میں آنکھ ڈال کر(مطلب ہے کہ صرف اپنا چشمہ اتار کر) بات کریں گے اور اُن کے اُن خیالات کو بدلنے کی کوشش کریں گے.......؟؟؟؟ جو کیمرون نے بھارت میں بیٹھ کر پاکستان سے متعلق کہے تھے اور اِسی دوران صدر اِن سے باہمی دلچسپی سمیت پاک برطانیہ تعلقات کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کریں گے....؟؟؟؟آہ ....آہ ....آہ.....؟؟؟
 
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 903233 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.