تحمل بھی اور تیاری بھی

برصغیر پاک وہند پر جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔یہ چھاتے بھی ہیں اور چھٹ بھی جاتے ہیں۔بادلوں کا چھٹ جانا دونوں ملکوں کے حکمرانوں کی برداشت اور تحمل کو ظاہر کرتا ہے۔کارگل کے بعد اب تک کئی دفعہ افواج سرحدوں تک آئیں لیکن عقل اور معروضی حالات نے افواج کو پیچھے کی طرف ہٹنے پر مجبور کردیا۔حالات کی خرابی کے پس منظر میں کشمیر کے مسٔلے کا وجود محسوس ہوتا ہے۔دونوں ممالک چونکہ ایٹمی اسلحہ بردار ہیں۔حکمران اور افواج کو خوفناک تباہی بھی نظر آتی ہے۔اب تو پھر دونوں ممالک کے وفود میز کے اردگرد بیٹھ کر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن اگر بڑی جنگ چھٹر گئی اور ایٹمی اسلحہ کا استعمال ہوگیا ۔شاید پھر میز پر ہونے والی گفتگو بھی نظر نہ آئے۔کون رہے گا اور کون نہیں رہے گا۔سوالیہ نشان ہی نظر آتا ہے۔بعد کے فوفناک منظر نامے کو بیان کرنے کے لئے الفاظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔محسوس ایسا ہی ہوتا ہے کہ ایٹمی اسلحہ نے دونوں ملکوں کو بڑی جنگ سے روک رکھا ہے۔دونوں کو یہ پتہ ہے کہ جنگ شروع تو روایتی اسلحہ سے ہوگی اور اختتام خوفناک اسلحہ سے ہوگا۔جاپان نے 2۔ایٹم بموں سے ہونے والی تباہی کے بعد خود ہی یک طرفہ طورپر شکست کا اعلان کردیاتھا۔اپنا ملک امریکہ کے حوالے کردیاتھا۔ہر طرح کا اسلحہ اور فوج تیارکرنے کی امریکی پابندی تسلیم کرلی تھی۔اورپھر جاپان نے دوسرا میدان چن لیا۔اور چند سالوں کے بعد جاپانی ٹیکنالوجی نے امریکہ کو شکست دے دی تھی۔مقابلہ کے لئے میدان بدلنے سے جاپانیوں کی دانش کا اظہار ہوتا ہے۔اوراب معاشی طورپر کمزور امریکہ جاپان کو خود ہی کہہ رہا ہے کہ آپ خود ہی اپنے دفاع کا انتظام کریں۔اس کرۂ ارض پر اﷲ قوموں کے حالات تبدیل کرتارہتا ہے۔کبھی ایک ملک فاتح ہوتا ہے اور وہی چند دہائیوں کے بعد مفتوح ہوجاتا ہے۔روس نے بے شمار ملک فتح بھی کئے اور ہماری ہی آنکھوں نے دیکھا کہ وہ 15ملکوں کو خالی کرکے اپنے پرانے روسی علاقے میں واپس چلا گیا۔مفتوحہ علاقوں کو ایک لمبے عرصے تک اپنے قبضے میں رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔آزادی کی تحریکیں آخر کار رنگ لاتی ہیں۔قبضے کے لئے بے شمار مالیات خرچ کرنا پڑتی ہیں۔فاتح ملک مقروض ہوجاتے ہیں۔معیشتیں کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔امریکہ سے پہلے کی سپر پاور برطانیہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔دوسری جنگ عظیم سے پہلے ہی برطانیہ مقروض ہوچکا تھا۔جنگ نے مزید قرض لاد دیا۔جنگ کے بعد برطانیہ نے دنیا کا چارج امریکہ کو دے دیا۔بے شمار بری،بحری اور ہوائی اڈے قرضوں کے بدلے امریکہ کو دے دیئے۔اور اپنے اصل وطن برطانیہ تک اپنے آپ کو محدود کرلیا۔یہ وہ حالات ہیں جو بالکل ہمارے سامنے ہوئے۔امریکہ نے ابھی دنیا میں اپنے بری اور بحری اڈوں کے ذریعے اپنا رعب داب برقرار رکھا ہوا ہے۔لیکن واضح نظر آتا ہے کہ امریکہ اپنا اثرورسوخ مزیدچند سالوں تک ہی برقرار رکھ سکے گا۔امریکہ کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو ماضی میں قدرتی اصول کے مطابق قوموں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔قوموں کے عروج وزوال کی کہانی بڑی ہی دلچسپ ہے۔قارئین کو کسی اچھی سی کتاب سے ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے۔آیئے اب اپنے علاقے کی بات کرتے ہیں۔برصغیر کی تقسیم کے وقت یہ اصول طے ہواتھا کہ ریاستوں کو اپنی اپنی مرضی سے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کی اجازت ہوگی۔کشمیریوں کی تحریک1947ء سے پہلے ہی سے جاری تھی۔اور عوام اپنی ریاست کو پاکستان کے ساتھ شمال کرنا چاہتے تھے۔لیکن تقسیم کے وقت بھارت نے انگریز سے مل کر جموں وکشمیر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔زمینی راستے کے لئے گورداس پور کو جان بوجھ کر بھارت کا حصہ بنایاگیا۔جب ہنگاموں سے تنگ آکر بھارتی حکمران اقوام متحدہ میں گئے تو جموں وکشمیر کے لوگوں کو حق خود اختیاری دینے کا وعدہ کرلیا۔اس سلسلے کی 2۔قراردادیں بہت مشہور ہیں۔لیکن اب تک بھارت نے بزور افواج قبضہ جمایاہوا ہے۔آخرکار ایک نہ ایک دن یہ زبردستی کا قبضہ ختم ہونا ہے۔اگربرطانیہ جیسی سپر پاور بہت سے علاقوں کو آزاد کرکے واپس اپنے ملک سدھار گئی تھی۔اگر روس جیسی ظالم سپرپاور60سال بعد بہت سے علاقوں اور ملکوں پر سے اپنا قبضہ ختم کرنے کے لئے مجبور ہوگئی تھی۔توبھارت بھی ریاست جموں وکشمیر پر زیادہ دیر تک قابض نہیں رہ سکے گا۔اور جہاں تک موجودہ تحریک کا تعلق ہے وہ تو ہے ہی خالص مقامی۔برہان وانی کی شہادت سے شروع ہونے والی تحریک اب یک بڑی تحریک بن چکی ہے۔کشمیریوں کی نوجوان نسل نے یہ تحریک تیاری کے بعد شروع کی ہے۔کرفیوں کے دنوں میں ایک لمبے عرصہ تک مقابلہ کرنا بغیر منصوبہ بندی کے نہیں ہوتا۔بھارت اڑی جیسے جتنے مرضی ڈرامے رچالے اب یہ تحریک انجام تک پہنچتی نظر آتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان ان حالات میں کیا کرے پاکستان کے لئے سبق یہی ہے کہ تحمل بھی اور تیاری بھی۔اپنی طرف سے پاکستان کسی بڑی جنگ چھیٹرنے کا سبب نہ بنے۔تحمل اور برداشت سے کام لے۔لیکن اپنی تیاری تو پوری رکھنی پڑتی ہے۔ہماری فوج اور قوم نے ابھی تک تحمل اورتیاری کا مکمل اظہار کیا ہے۔آج تمام سیاسی پارٹیوں کے اجتماع میں بھی مکمل اتحاد کا اظہار کیاگیا۔کشمیریوں کی تحریک آزادی کے ساتھ اظہار یک جہتی کیاگیا۔اور یہ بھی کہا گیا کہ اگربھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو یہ اعلان جنگ ہوگا۔اور اس پرسیاسی اورعسکری قیادت متحدہے۔پاکستانی افواج کے پاس جدید ترین اسلحہ جات ہیں۔اگرجنگ مسلط کی گئی تو قوم اور مسلح افواج پوری طاقت سے جواب دیں گی۔بھارت کی طرف سے مہم جوئی کا امکان ہے بھی اور نہیں بھی۔پہلے دن کی باڈر کے اس پار فائرنگ ہی سے ممبئی سٹاک مارکیٹ کافی نیچے آگئی تھی۔اگر بھارت نے کوئی بڑی مہم جوئی کی تو نقصان اسی کا زیادہ ہوگا۔اس کی معیشت و صنعت کافی بڑی ہے۔وہ جنگ کے بعد کئی دہائیاں پیچھے چلا جائے گا۔پاکستان ایک درمیانی سی معیشت کا حامل ہے۔صرف اور صرف لازمی اشیاء برآمد کرتا ہے۔جنگ کے دنوں میں برآمدات پر اثر تو پڑے گا لیکن معمولی۔پاکستان اب تک تحمل اور تیاری کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔پاکستان کی طرف سے اپنے طورپر کوئی مہم جوئی نہیں ہوئی۔صرف اور صرف جواب دیاجارہا ہے۔لیکن جواب بھارتی تصورات سے بلند ہوتا ہے۔جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں ۔اس وقت بھی باڈر پر بھارت کی طرف سے فائرنگ ہورہی ہے۔ایسی پالیسی پاکستان کی طرف سے بنائی جائے کہ بڑی اور بھر پور جنگ شروع نہ ہو۔ایسی پالیسی پورے خطے کے مفاد میں ہے۔پاکستانی قوم کے مفاد میں بھی یہی ہے۔کہ جنگ کو ٹالا جائے۔پاکستان کو چاہئے کہ سفارتی محاظ پر بڑی جنگ لڑے۔پوری دنیا کے دارالخلافوں میں ماثر ارکان پارلیمنٹ کے وفود بھیجے جائیں۔مسٗلہ کشمیر اجاگر کیا جائے۔لیکن کشمیر کے لئے ریاست پاکستان کو خطرات میں نہ ڈالا جائے۔جب جنگ شروع ہوتی ہے ہر قوم اپنے اپنے مفادات کے تحت نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے۔لیکن جنگ کے نتائج بالکل الٹ ہی نکلتے ہیں۔پاکستان کو تحمل سے کام لیکر جنگ کو روکنا بھی ہے۔اور اگر بھارت کی طرف سے جنگ مسلط کردی جائے تو پوری طاقت سے اپنے ملک کا دفاع بھی کرنا ہے۔لہذا پالیسی تحمل اور تیاری کی بنیاد پر طے کی جائے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49957 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.