طلاق ،بہانہ شریعت، نشانہ
(Syed Ahmed Wameez, India)
عام انتخابات سے قبل جب وزیر اعظم نریندر
مودی بی جے پی کی انتخابی مہم چلارہے تھے تو انہوں نے بار بار عوام کو تیقن
دیا تھا کہ اقتدار ملنے کی صورت میں بہت جلد عوام کے لئے اچھے دن آئیں گے،
کانگریس کی بے عملی سے بیزار عوام نے یہ سوچ کر کہ شاید مودی جی کچھ کرشمہ
کردکھائیں گے، بی جے پی کو بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی، اور خود اچھے دن
کے ا نتظار میں دن شمار کرنے لگے، لیکن جب بی جے پی کے دو سالہ اقتدار نے
ملکی عوام کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تو مودی جی کے اچھے دنوں کی
حقیقت کھل کر سامنے آئی، اچھے دن ضرور آئے ،مگرملک کے عام باشندوں کے لئے
نہیں، بلکہ صنعتی گھرانوں، سیاستدانوں اور حکمرانوں سے قربت رکھنے والوں کے
لئے۔
مودی اقتدار کے دوسالہ عرصے کا جائزہ لیا جائے تو حصولیابیاں کم اور انتشار
زیادہ نظر آتا ہے، حکومت حل طلب مسائل کے تعلق سے اغماض کی پالیسی پر گامزن
ہے، اس کے بر خلاف نان ایشو کو ایشو بنانے میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ
کررہی ہے، ملک کے عام باشندوں کو درپیش دسیوں مسائل ہیں جنہیں برف دان کی
نذر کردیا گیا ہے، لیکن نفرت کی سیاست بام عروج پر ہے، عام آدمی کو در پیش
سب سے بڑا مسئلہ آسمان کو چھوتی مہنگائی کا ہے، جس نے ملک کے لاکھوں
باشندوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، پٹرول سے لے کر اشیائے ما یحتاج کی
قیمتوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے، کبھی پیاز خون کے
آنسو رلاتی ہے، تو کبھی ٹماٹر کے بھاؤ آسمان کو چھوتے ہیں، مہنگائی پر قابو
پانے کے جتنے دعوے کیے جارہے ہیں زمینی حقائق اس کی بالکلیہ نفی کرتے ہیں۔
گا ؤ کشی کے نام پر بھگوا دہشت گردوں کی دہشت گردی سے ملکی سالمیت اور فرقہ
وارانہ ہم آہنگی کو شدید خطرہ لاحق ہے، گاؤ رکھشکوں کی غنڈہ گردی نے ملک
بھر میں تناؤ اور کشیدگی کی ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ ملک کا امن
وامان درہم برہم ہوچکا ہے، اقلیتیں خود کو غیر محفوظ تصور کررہی ہیں، کشمیر
گذشتہ دو ماہ سے جل رہا ہے، فوج کی جانب سے طاقت کے تمام تر استعمال کے
باوجود احتجاج تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، سوکے قریب قیمتی جانیں ضائع
ہوچکی ہیں،زخمیوں اور بینائی سے محروم ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے،
یہ سب سلگتے مسائل ہیں،جنہیں سرد خانوں کے حوالے کرکے حکومت اور بی جے پی
قائدین ایک ایسے معاملہ میں غیر معمولی دلچسپی اور پھرتی کا مظاہرہ کررہے
ہیں، جو فی الحقیقت مسئلہ ہی نہیں ہے،تین طلاق کا مسئلہ ایک بار پھر حکومت
کی تمام تر دلچسپیوں کا محور بن چکا ہے، حکومت کے شانہ بشانہ فسطائی ذہنیت
کا حامل ملکی میڈیا اُسے خوب گرما رہا ہے، ٹی وی چینلوں اور اخبارات کی
سرخیوں میں اسی کا چرچا ہے، میڈیا اور بھاجپائی ٹولے کی جانب سے اسے کچھ
ایسی طرح پیش کیا جارہا ہے جیسے یہ ملک کا سب سے اہم سماجی وسیاسی مسئلہ ہے،
انتظامیہ سے لے کر عدلیہ تک سب اسی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، حکمراں پارٹی
کی اس معاملہ میں غیر معمولی دلچسپی کی بس ایک ہی وجہ ہے، اور وہ شریعت میں
مداخلت اور مسلم پرسنل لا ء میں ترمیم کی راہ ہموار کرنا ہے،طلاق تو محض
بہانہ ہے، اصل نشانہ شریعت ِ اسلامی ہے، پھر یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ
محض شریعت میں مداخلت کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے ایسے لوگ مسلم خواتین
کی مظلومی کی دُہائی دے رہے ہیں، جنہوں نے گجرات فسادات میں حاملہ مسلم
خواتین کو پیٹ میں چھرا گھونپ کر شہید کر ڈالا تھا، ان کے شیر خواروں کو
نیزے کی نوک پر اچھال کر نذر آتش کرڈالا تھا، اور جن کے سروں پر درجنوں
مسلم خواتین کی عصمت دری کا وبال ہے، اورجنہوں نے سیکڑوں عورتوں کو بیوہ
کرڈالا تھا، گجرات فسادات میں انھیں مسلم خواتین سے ہمدردی کا خیال کیوں
نہیں آیا؟ کیا اس وقت ان کے جذبۂ ہمدردی کو سانپ سونگھ گیا تھا؟ پھر بات
اگر مسلم خواتین سے ہمدردی اور ان کے مسائل کے حل میں دلچسپی ہی کی ہے تو
کیا حکومت مسلم خواتین کے سارے مسائل حل کرچکی؟ کیا ملک میں اقلیتی خواتین
کو بھر پور تحفظ حاصل ہے؟ کیا حالیہ عرصہ میں نام نہاد گاؤ رکھشکوں کی جانب
سے بیف کے الزام میں مسلم خواتین پر ظلم نہیں ڈھایا گیا؟ مسلم طبقہ تعلیم
میں انتہائی پسماندہ ہے، کیا مسلم بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے حکومت نے
کسی امدادی اسکیم کو متعارف کرایا ہے؟ مسلم خواتین کے ان سیکڑوں حل طلب
مسائل کو تو قطعی لائق اعتناء نہیں سمجھا گیا، لیکن تین طلاق کی زد میں آنے
والی ایک بے دین حیا باختہ مسلم خاتون نے عدالت کا دروازہ کیا کھٹکھٹایا کہ
مقننہ سے لے کر عدلیہ تک سب کی رگِ ہمدردی پھڑکنے لگی، اور سب کو مسلم
خواتین کی مظلومی ستانے لگی۔
پھر یہ کہ تین طلاق کا مسئلہ کوئی پہلی مرتبہ پیش نہیں آیا، بلکہ ہندوستان
کی تاریخ میں یہ مسئلہ بارہا موضوع بحث بنتا رہا ہے، اس سے قبل بھی عدالت
عظمیٰ میں متعدد بار تین طلاق کے خلاف درخواستیں داخل کی جاچکی ہیں، اور
بارہا اس قسم کے مسائل کو بنیاد بنا کر یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کیا جاتا
رہا ہے،بشمول واجپائی حکومت کے پیش رو ساری حکومتوں نے اسے مسلمانوں کا
داخلی معاملہ قرار دے کر کسی بھی طرح کی عملی پیش رفت سے گریز کیا، موجودہ
واحد حکومت ہے جس نے اس مسئلہ کو لاء کمیشن سے رجوع کرتے ہوئے نہ صرف اپنی
غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ عدالت میں تین طلاق کی مخالفت اور
اس پر پابندی لگانے کی وکالت کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے،اس مرتبہ سپریم
کورٹ نے یہ غلطی کی کہ ایک بار پھر حکومت ِ ہند کو جواب داخل کرنے کے لئے
نوٹس بھیج دیا، عدالت عظمیٰ کے اسی اقدام نے حکومت کو موقع فراہم
کردیا،دوسری طرف مسلم پرسنل لاء بورڈ کو بھی حلف نامہ داخل کرنے کے لئے کہا
گیا، چنانچہ بورڈ کے ذمہ داروں نے حلف نامہ داخل کرتے ہوئے دو ٹوک انداز
میں واضح کردیا کہ چونکہ ہمارے عائلی قوانین قرآن وحدیث سے مستنبط ہیں، اس
لئے ان میں تبدیلی کی قطعی گنجائش نہیں ہے، بورڈ کا حلف نامہ کیا داخل ہوا
، میڈیا نے اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا، اور نام نہاد مسلم دانشوروں
کے شریعت مخالف بیانات کو خوب ہائی لائٹ کیا جانے لگا، اس طرح جدیدیت زدہ
نام نہاد مسلم دانشوروں کو اپنی دانشوری چمکانے کا سنہرا موقع ہاتھ آیا،
اور انہوں نے مسلم پرسنل لاء اور شریعت کے خلاف خوب بھڑاس نکالی، کسی نے
کہا کہ بورڈ اپنے موقف پر اس لئے اڑا ہوا ہے کہ وہ مسلمانوں میں سماجی
اصلاحات کا انکاری ہے، وہ نہیں چاہتا کہ مسلم سماج میں ترقی پسندانہ
رجحانات فروغ پائیں، کسی نے لکھا کہ بورڈ پر مکمل تسلط مولویوں کا ہے، اور
وہ مسلمانوں پر اپنی برتری قائم اور برقرار رکھنے کے لئے اپنے موقف پر اڑے
ہوئے ہیں، سوشیل میڈیا پر تو ان دانشوروں نے خوب گل کھلائے، اور یہاں تک
لکھ ڈالا کہ مسلم پرسنل لاء جیسی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں، آل
انڈیاخواتین مسلم پرسنل لاء بورڈ کی سربراہ شائستہ عنبر نے اخبارات کودئے
گئے اپنے بیان میں کہا کہ بورڈ نے سماجی اصلاحات کے نفاذ اور شرعی عدالتوں
کو مؤثر بنانے میں اپنی ناکامی چھپانے کو حلف نامہ داخل کیا ہے، جاوید اختر
کی مسلم سماج میں کیا حیثیت ہے، اس سے ہر شخص واقف ہے، بھلا جس کی زندگی
ناچنے ،مٹکنے اور شراب وشباب کی خر مستیوں میں گذری ہو اور جس نے کبھی خود
کو مسلم پرسنل لاء کا پابند نہ سمجھا ہو ،ایسے بد دین شخص سے اور کیا توقع
کی جاسکتی تھی کہ وہ ٹی وی اسکرین پر آکر مسلم پرسنل لاء بورڈ کو مسلمانوں
کا دشمن بتائے گا، تعجب اس پر نہیں کہ جاوید اختر نے بورڈ کو مسلمانوں کا
دشمن قرار دیا، تعجب ان لوگوں پر ہے جو ایسے لوگوں کے مسلمان ہونے کا دھوکہ
کھاتے ہیں۔
حالیہ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں سب سے گھناؤنا کردار میڈیا نے ادا کیا،
ہمارے قومی میڈیا کا عجیب حال ہے کہ ہر وہ مسئلہ جس سے اسلام اور مسلمانوں
کی شبیہ بگاڑی جاسکتی ہو اس کا دلچسپ موضوع بن جاتا ہے، چنانچہ طلاق ثلاثہ
کے معاملہ میں ملک کے سارے مشہور چینل حرکت میں آگئے، اور جاوید اختر جیسے
لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال لائے، اسلام سے بیر رکھنے والے ایک ایک مسلم
دانشور کو چُن چُن کر ٹی وی اسکرینوں پر پیش کیا گیا، دین وشریعت سے خدا
واسطے کا بیر رکھنے والے ان نام نہاد دانشوروں نے مسلم پرسنل لاء کے حوالہ
سے خوب بھڑاس نکالی، حلف نامہ داخل کئے جانے کے بعد میڈیا مسلم پرسنل لاء
بورڈکے تعلق سے یہ تأثر دینے لگا کہ بورڈ طلاق ثلاثہ کی حوصلہ افزائی کررہا
ہے، چنانچہ مشہور این ڈی ٹی وی نے اپنی ویب سائٹ پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے
حلف نامے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ طلاق ثلاثہ کو
دلائل کے ذریعہ درست ثابت کررہا ہے،میڈیا پر پیش کئے گئے تبصروں سے عام
تأثر یہ قائم ہوگیا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اُن جاہل مسلمانوں کے طرز ِ عمل
کو جو یکجائی تین طلاقیں دیتے ہیں درست قرار دیتا ہے،جب کہ بات ایسی نہیں
ہے، زیر بحث مسئلہ کے دو مختلف پہلو ہیں: ایک یہ کہ یکجائی تین طلاق دینے
کا حکم کیا ہے؟آیا ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ
ہے کہ اگر کسی نے طلاق ثلاثہ دیدی تو طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ یہ دو باتیں
ایک دوسرے سے مختلف ہیں، جہاں تک طلاق دینے کے صحیح طریقے کا تعلق ہے تو
امت کے تمام مکاتب فکر کے علماء اور ائمہ اربعہ یہی کہتے ہیں کہ یکجائی تین
طلاقیں دینا خلاف ِ شریعت اور سخت گناہ ہے، طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ
کسی کو اگر طلاق دینا ناگزیر ہوجائے تو وہ پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے،
تاکہ باہم گفت وشنید کے بعد رجوع کا امکان باقی رہے، رہا مسئلہ کا دوسرے
پہلو کاکہ کسی نے اگرتین طلاقیں دینے کی حماقت کردی تو تینوں طلاقیں واقع
ہوں گی یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں چاروں ائمہ کا ا تفاق ہے کہ واقع ہوں
گی،بورڈ کا بس اتنا مطالبہ ہے کہ شریعت چوں کہ انسانی قوانین کا نام نہیں
ہے بلکہ یہ خدائی قوانین کا مجموعہ ہے، جس میں ہر گز ترمیم نہیں کی جاسکتی،
اس لئے عدالت تین طلاق کو کالعدم قرار دے کر شریعت ِ اسلامی یا مسلم پرسنل
لاء میں ترمیم کی جسارت نہ کرے، طلاق ثلاثہ کا مسئلہ خالص مذہبی مسئلہ ہے،
اور مذہب انسانی خواہشات کے تابع نہیں ہوتا، بلکہ انسانوں کو مذہب کے مطابق
چلنا پڑتا ہے، بالفاظ دیگر مذہب انسانی خواہشات کے دائرہ میں نہیں آتا بلکہ
لوگوں کو مذہب کے دائرہ اور حدود میں جانا ہوتا ہے، طلاق ثلاثہ کا معاملہ
سراسر شرعی مسئلہ ہے، اور یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، جس کے خلاف طوفان
کھڑا کیا جائے، جب چودہ سو سال سے اس کا حل شریعت کی روشنی میں نکلتا رہا
ہے تو اب کیوں نہیں نکل سکتا؟ اگر لوگ مذہبی قانون پر عمل کرنا نہیں چاہتے
تو مذہبی قانون کو بدلنا عقلمندی نہیں، بلکہ عقلمندی یہ ہے کہ لوگوں کو
مذہب پر عمل کرنا سکھایا جائے، ورنہ روز بروز اگر مذہبی قوانین بدلتے رہیں
تو پھر مذہب بازیچۂ اطفال بن جائے گا، یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ
انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین یا طرز حیات میں ضرورت کے مطابق ترمیم کی
جاسکتی ہے، لیکن آسمانی مذہبی قوانین میں کسی بھی قسم کی ترمیم ممکن نہیں ،
اسلام قیامت تک کے لئے اﷲ کا واحد دین برحق ہے، جس کے سارے قوانین خود اﷲ
اور اس کے رسول کے بنائے ہوئے ہیں، ان میں کسی قسم کی ترمیم کا حق کسی کو
حاصل نہیں ہوسکتا، دوسری بات یہ ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری
مملکت ہے، یہاں کا دستور ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہبی قوانین پر عمل
کرنے کی اجازت دیتا ہے، دستور کی دفعہ نمبر ۲۵ میں صاف صراحت ہے کہ ملک کا
ہر شہری نہ صرف اپنے مذہب پر عمل کرسکتا ہے بلکہ اس کی تبلیغ بھی کرسکتا
ہے، ملکی آئین کی رو سے کسی بھی مذہبی قانون میں حکومت یا عدلیہ کو تبدیلی
لانے کا حق نہیں ۔
علاوہ ازیں طلاقِ ثلاثہ کے بہانے ہندوتوا کے علمبردار ملک میں جس یکساں سول
کوڈ کے نفاذ کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں وہ ہندوستان جیسے کثیر
ثقافتی ملک میں ممکن بھی نہیں، اس لئے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا مطلب
ملک کے ہر باشندے سے اپنے مذہبی، سماجی اور روایتی اقدار وقوانین کے ساتھ
زندگی گزارنے کا حق چھین لیا جائے، اس صورت میں صرف مسلمان ہی نہیں، سکھ،
عیسائی، پارسی، بدھسٹ اور جینی سب اس کی زد میں آجائیں گے، خود ہندوؤں کے
مختلف فرقوں کو اپنے روایتی اقدار سے دست بردار ہونا پڑے گا، دوسرے الفاظ
میں کیرل کے ہندوؤں کو شمالی ہند اور یوپی کے ہندوؤں کے طور طریقے اپنانے
پر مجبور ہونا پڑے گا، ایسے میں کیا یہ درست ہوگا کہ شمالی ہند کے لوگوں کو
جنوبی ہند کے طریقوں پر مجبور کیا جائے، یا جنوبی ہند کے باشندوں کو شمالی
ہند کے طور طریقوں پر مجبور کیا جائے؟ کیا حکومت ملک کے آدی باسیوں کوڈنڈے
کے زور پر مجبور کرے گی کہ وہ صدیوں پرانے اپنے روایتی وسماجی اصولوں کو
چھوڑ کر حکومت کے تجویز کردہ ضوابط اختیار کریں؟ اور کیا حکومت کے اس اقدام
سے ملک کے سارے طبقات پر ظلم نہیں ہوگا؟ آخر ہندوتوا کے علمبردار کیوں نہیں
سمجھتے کہ سو ارب کی آبادی والے اس ملک میں اَن گنت مذہبی رسومات ہیں، اور
ہر طبقے کو اپنے عقائد عزیز ہیں،ایسے میں سارے طبقات کے لئے ایک ہی قسم کا
عائلی قانون کیوں کر قابل قبول ہوسکتا ہے؟ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سکھوں
کو ہندو کہنے پر اعتراض ہے، دلت اور چھوٹی ذات کے لوگ خود کو ہندو ماننے کے
لئے آمادہ نہیں ہیں، لنگایت فرقہ تو اپنی الگ شناخت کے لئے مستقل تحریک
چلاتا رہتا ہے، جین اور بدھ بھی مستقل الگ مذہبی گروہ ہیں، خود ہندو کہلانے
والے طبقہ میں بھی جب بے پناہ مذہبی تنوع ہے تو کیسے سب کو یکساں ضوابط پر
عمل کے لئے مجبور کیا جاسکتا ہے؟ شاید ملک کے اسی مذہبی تنوع کو دیکھ کر
ڈاکٹر امبیڈکر نے ایک اعتراض کے جواب میں کہا تھا کہ کوئی پاگل حکومت ہی
ہوگی جو یونیفارم سول کوڈ نافذ کرے گی۔
یکساں سول کوڈ کی حمایت میں بعض معقولیت سے عاری دلائل کا سہارا لیا جاتا
ہے، مثلا کہا جاتا ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ اور انھیں مردوں کے برابر
حقوق فراہمی کے لئے یکساں سول کوڈ ناگزیر ہے، جب کہ خواتین کو سب سے زیادہ
تحفظ شریعت ِ اسلامی میں حاصل ہے، اسلامی شریعت نے اگر مردوں کو طلاق کا حق
دیا ہے تو عورتوں کے لئے خلع کی صورت رکھی ہے، مسلم پرسنل لاء کے مخالفین
بالعموم اسلام کے نظام طلاق کو اس کے حقیقی تناظر سے ہٹا کر دیکھتے ہیں،
اسلام میں طلاق کوئی ترجیحی چیز نہیں ہے، احادیث شریفہ میں طلاق کو سب سے
ناپسندیدہ حلال چیز قرار دیا گیا ہے، طلاق کی اجازت اسی وقت ہے جب میاں
بیوی کے درمیان نبھاؤ کی ساری تدبیریں فیل ہوجائیں، پھرجب طلاق ناگزیر
ہوجائے تو طلاق کا طریقہ ایسا رکھا گیا کہ احساسِ ندامت کی صورت میں دوبارہ
رجوع ممکن ہو،پاکی کی حالت میں ایک طلاق دینا طلاق کا صحیح طریقہ ہے،
اسلامی نظام طلاق کی ان ساری نزاکتوں کو نظر انداز کرکے یہ تأثر دیا جاتا
ہے کہ اسلام میں طلاق کا مطلب ہر چھوٹی بڑی بات پر دھڑلے تین طلاق دینا ہے،
جب کہ اسلام اور مسلم پرسنل لاء اس طریقۂ طلاق کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں
کرتا، یہاں اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر چارۂ کار نہیں کہ مسلم پرسنل لاء
کے مخالفین کے ذہن میں طلاق کے حوالہ سے جو غلط تصور پایا جاتا ہے اس میں
موجودہ مسلم معاشرہ کے خلاف شرع طرز ِ عمل کا بڑا دخل ہے، مسلم نوجوانوں کی
بڑی تعداد طلاق کے اسلامی طریقے سے نہ صرف نا بلد ہے بلکہ اکثر نوجوانوں نے
ہر چھوٹی موٹی ناچاقیوں پر طلاق طلاق طلاق کی تین گولیاں فائر کرنے ہی کو
طلاق سمجھ رکھا ہے، اس کے لئے نوجوانوں کو طلاق کے صحیح اسلامی طریقۂ کار
سے واقف کرانے کی اشد ضرورت ہے،مسلم نوجوانوں کو معاشرتی وعائلی مسائل سے
واقف کرانے کے لئے باقاعدہ ملک گیر مہم چلائی جانی چاہئے، دینی مدارس بھی
اس قسم کے اصلاحی پروگراموں کو اپنے بنیادی مقاصد میں شامل کریں، طلاق کے
غیر اسلامی طریقہ کے رواج سے مسلم پرسنل لاء کے مخالفین کو شریعت میں
مداخلت کا موقع مل رہا ہے، گذشتہ ۲۵؍ اگست کے ٹائمس آف انڈیا میں شائع شدہ
ایک رپورٹ میں بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن نامی تنظیم کی رکن ذکیہ سومن کے
حوالہ سے کہا گیا ہے کہ مسلم خاندانوں میں طلاق کی سب سے زیادہ شرح کی ایک
وجہ تین طلاق ہے، اس نے طلاق ثلاثہ کے رواج کو بنیاد بناتے ہوئے مزید کہا
کہ ملک میں علیحدہ ہندومیریج ایکٹ ہے، عیسائی میریج ایکٹ ہے، لیکن مسلمان
اب بھی پرانے شریعہ لاء پر عمل کررہے ہیں، جس میں طلاق کا مکمل اختیار
مردوں کو دیا گیا ہے، ہمارا غیر اسلامی طرز عمل مغرب پرست مسلم خواتین کو
شریعت کے خلاف زبان درازی کا موقع فراہم کررہا ہے، یکساں سول کوڈ کے حق میں
ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے، کہ اس سے ملک میں یکسانیت پیدا ہوگی جو ملک کی
سالمیت کے لئے ضرور ی ہے، اہل بصیرت جانتے ہیں کہ یہ دلیل نہایت بودی ہے،
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ایک قانون ایک مذہب اور ایک رسم ورواج کے باوجود
دنیا کے کئی خطوں میں بھیانک جنگیں ہوئیں، ملک کا اتحاد واستحکام یکساں
قانون سے نہیں بلکہ سارے شہریوں کو حاصل ہونے والی طمانینت سے ہوتا ہے، اور
یہ طمانینت تبھی حاصل ہوگی جب ہر طبقہ کو اپنے مذہبی رسوم پر عمل کرنے کی
پوری آزادی دی جائے۔ |
|