انتہا پسند بھارت کا بے انتہا جنگی جنون……پاکستانی سیاسی قیادت یکجا
(عابد محمود عزام, Lahore)
جنگی جنون میں مبتلا بھارت کئی رو زسے لائن
آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کر کے پاکستان کو جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتا
ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے فائرنگ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آئے
روز سیز فائر کی خلاف ورزی کرنا بھارت کا معمول ہے۔ گزشتہ دنوں بھارت نے
بارڈر پر بلااشتعال فائرنگ کر کے سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ رچایا، جو بری
طرح فلاپ ہوگیا، جسے دنیا نے ماننے سے انکار کردیا۔ آزادکشمیر میں سرجیکل
سٹرائیکس کے بھارتی دعوے پر عالمی میڈیا نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار
کیا۔دو ممتاز امریکی اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز کے نمائندوں
نے گزشتہ دنوں آزادکشمیر کے علاقوں بھمبر، چھمب اور سماہنی کے مختلف دیہات
کا دورہ کرکے لوگوں سے بھارتی دعوے کے متعلق حقیقت دریافت کی تو انہوں نے
بتایا کہ انہوں نے کنٹرول لائن کے اردگرد بھارتی فوج کی نقل و حرکت تک نہیں
دیکھی۔ آزادکشمیر میں گھسنے یا کسی قسم کے فضائی حملے کا سوال پیدا نہیں
ہوتا، جبکہ برطانوی اخبار ڈپلومیٹ نے سرجیکل سٹرائیک کی بھارتی دفاعی
صلاحیت پر ہی سوال اٹھا دیا اور اپنے اداریے میں لکھا کہ پاکستان کا دفاعی
نظام بہت مؤثر ہے اور کسی بھی ایسے حملوں سے باآسانی نمٹ سکتا ہے۔جاپانی
میگزین دی ڈپلومیٹ میگزین نے بھارت کی جانب سے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک
کی صلاحیت کا ہی انکار کیا ہے۔ میگزین کے مطابق بھارت کے لیے سرحد پار
فضائی حملہ کرنا بہت ہی مشکل ہے، کیونکہ پاکستان کے پاس ایک بہت ہی عمدہ
اور ناقابل یقین فضائی دفاعی نظام موجود ہے، جبکہ خود بھارتی سیاستدانوں نے
بھی سرجیکل اسٹرائیک کے ڈرامے کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ سرجیکل ڈرامہ فلاپ
ہونے کے بعد سے بھارت لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی مسلسل خلاف ورزی کرتے
ہوئے جنگی ماحول پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا
بھارتی فوج نے پیر کے روز تین بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
بلااشتعال فائرنگ کی، نیزہ پیر سکٹر میں 2 خواتین سمیت 3 افراد زخمی ہو گئے،
جبکہ منگل کے روز بھی بھارتی فوج نے ایل او سی پر سیز فائر کی خلاف ورزی
کرتے ہوئے بلااشتعال فائرنگ کی۔ بھارتی فوج کی فائرنگ سے کسی جانی نقصان کی
اطلاع نہیں ملی، پاک فوج کی جانب سے بھارتی فورسز کو منہ توڑ جواب دیا گیا۔
بھارتی فوج کی جانب سے گزشتہ 6 روز میں چھٹیبار لائن آف کنٹرول پر سیز فائر
کی خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔ بھارتی جارحیت کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں
مظاہرے کیے جارہے ہیں، جس میں نہ صرف مسلمان شریک ہیں، بلکہ سکھ برادری بھی
پیش پیش ہے۔ سیالکوٹ کی سکھ برادری نے جسکرن سنگھ کی قیادت میں بھارت کے
خلاف مظاہرہ کیا۔ سکھ رہنماؤں نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم
پاکستان کے دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہیں اور ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں
کریں گے اور فرنٹ لائن پر جا کر مودی کے عزائم کو ناکام بنائیں گے۔ سکھ
برادری نے بھارتی وزیر اعظم مودی کا پتلا نذر آتش کیا اور پاک فوج کی حمایت
میں نعرے لگائے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین متنازع معاملات کو پاکستان ہمیشہ سے مذاکرات کے
ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے، لیکن ہر بار بھارت کی ہٹ دھرمی اڑے
آجاتی ہے۔ پاکستان نے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا
ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف نہیں، آیئے بات چیت کریں۔ کشمیر دونوں ممالک کے
درمیان بنیادی تنازع ہے، جبکہ حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان اور بھارت کے
قومی سلامتی کے مشیروں کا رابطہ بھی ہوا ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے
ٹیلیفونک رابطے میں کنٹرول لائن پر تناؤ کم کرنے کے لیے رابطے پر اتفاق کیا
ہے۔ سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ بھارت ایل او سی پر کشیدگی پیدا کرکے دنیا کی
توجہ کشمیر سے ہٹانا چاہتا ہے، جبکہ پاکستان کی کوشش ہے کہ سرحدی تناؤ کم
کرکے کشمیر پر فوکس کیا جائے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی سے
بوکھلا گیا ہے، اس لیے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھا رہا ہے۔ بھارت میں
متعین پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ جوہری ماحول میں جنگ کے
لیے کوئی جگہ نہیں، لہٰذا دونوں ملکوں کو آپس میں بات چیت کرنا ہوگی، خطے
میں امن کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت ہے اس مسئلے کو دبایا نہیں
جا سکتا۔ بھارت کی طرف سے ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور
پاکستان کے خلاف بیان بازیوں کے باوجود پاکستان پرامن مذاکرات کی پالیسی پر
کاربند ہے، اگر پاکستان کو دہشت گرد ریاست کہا جائے گا تو پھر تعاون کی
کوئی گنجائش نہیں بچے گی۔ امریکا میں متعین پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی
نے امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان و افغانستان رچرڈ اولسن سے
ملاقات کر کے رچرڈ اولسن کو مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی مظالم کے دستاویزی ثبوت
پیش کردیے ہیں۔ ثبوتوں میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں کی تفصیلات شامل ہیں۔ جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ حق خود
ارادیت کشمیریوں سے اقوام متحدہ کا وعدہ ہے، لہٰذا بھارت اس سے انکار نہیں
کر سکتا۔ عالمی برادری اور امریکا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس
لے۔ امریکی نائب ترجمان محکمہ خارجہ الزبتھ ٹروڈو نے دونوں ملکوں کو تحمل و
برداشت سے کام لینے پر زور دیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ امریکا پاک بھارت
کشیدگی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کی قیادت سے رابطے میں ہے۔
جب بھارت کا جنگی جنون بے قابو ہوا اور جارحیت کی جانب بڑھتے ہوئے اس کے
قدم روکنا ضروری ہوگیا تو پاکستانی فوج کی جوابی کارروائی کے ساتھ سیاسی و
پارلیمانی قیادت نے اپنے تمام اختلافات نظر انداز کر کے کشمیر اور بھارتی
جارحیت کی روک تھام کے حوالے سے بے مثال یکجہتی کا اظہارکیا۔ بھارتی جارحیت
اور جنگی جنون کا جواب دینے کی حکمت عملی پر غور کے لیے سیاسی قیادت پیر کے
روز اسلام آباد میں جمع ہوئی، جہاں سب نے مل کر قرارداد میں تنبیہ کی کہ
ہندوستان کی حالیہ بلا اشتعال اور جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں علاقے میں
امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ قرارداد میں کشمیریوں کی جدوجہد اور اسے
کچلنے کے لیے سرحد پار سے دہشت گردی کے ہندوستانی جھوٹے دعووں کی مذمت کی
گئی ہے۔ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اگر بھارت نے پاکستان کا
پانی روکا تو اسے جارحیت تصور کیا جائے گا، مقبوضہ کشمیر میں نافذ کالے
قوانین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، جب کہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے نہ
صرف دہشت گردی کے الزامات بلکہ بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کا بے
بنیاد دعویٰ بھی مسترد کرتے ہیں۔ اعلامیہ میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت
کی بھی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ بھارت کا مذاکرات اور سارک کانفرنس میں
نہ آنا افسوسناک ہے، تاہم پاکستانی قیادت کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے کا بھارتی
دعویٰ بھی مسترد کرتی ہے۔ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے مطالبے کی حمایت
کرتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے عوام، سیاسی
جماعتیں اور افواج متحد ہیں۔ اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ کی تمام
جماعتوں کے سربراہوں کو دعوت نامے بھیجے گئے تھے، تاہم قومی اسمبلی میں
عوامی مسلم لیگ کے واحد رکن شیخ رشید احمد اجلاس میں نظر نہیں آئے۔ پاکستان
پیپلز پارٹی کے وفد میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ خورشید شاہ،
شیری رحمٰن اور حنا ربانی شامل تھیں، جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود
قریشی اور شیریں مزاری نے اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ سینیٹر اعتزاز
احسن، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، جماعت اسلامی
کے امیر سراج الحق، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن
اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود اچکزئی سمیت دیگر رہنما بھی شریک
ہوئے۔ اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ چودھری نثار اور
وزیر دفاع خواجہ آصف بھی شریک تھے۔ مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ، مشیر
خارجہ سرتاج عزیز بھی اجلاس میں موجود تھے، جبکہ غلام بلور، آفتاب شیرپاؤ،
اعجاز الحق اور حاصل بزنجوکو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اجلاس میں
شرکت کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مدعو
کیا گیا تھا، جس کے دوران سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو کشمیر اور ایل او سی
کی صورتحال پر اعتماد میں لیا گیا۔ اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے قائدین نے
فیصلہ کیا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں وفود بھیجے جائیں جو کشمیر میں
بھارتی مظالم سے ان ممالک کو آگاہ کریں۔ سیاسی جماعتوں نے سلامتی کمیٹی کے
قیام کا بھی مطالبہ کیا، جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو بھی
وادی کشمیر میں ہندوستان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ
کیا جائے اور اقوام متحدہ کا ایک وفد کشمیر بھیجا جائے جو وہاں زمینی حقائق
کا جائزہ لے۔ اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
کے موقع پر عالمی رہنماؤں سے ہونے والی ملاقاتوں اور اس دوران زیر بحث آنے
والے معاملات پر بھی شرکاء کو بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں یہ بتایا گیا کہ
پاکستان کے عوام، تمام سیاسی جماعتیں اور مسلح افواج اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے متحد ہیں۔
قرارداد میں معصوم کشمیریوں کی مسلسل ہلاکت کو انسانی حقوق اور عالمی
قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دے کر شدید مذمت کی گئی اور بتایا گیا کہ
گزشتہ 87 دن میں قابض ہندوستانی فوج نے وادی کشمیر میں خواتین اور بچوں
سمیت 110 سے زیادہ معصوم کشمیریوں کو قتل اور پیلٹ گنوں سے 700 سے زیادہ
کشمیریوں کو اندھا کردیا ہے۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے اجلاس کو
بریف کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر بھرپور
انداز میں اجاگر کیا۔
گزشتہ چند روز سے جاری پاک بھارت کشیدگی سے قومی سطح پر نمٹنے کے لیے
پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس کا انعقاد وقت کی ضرورت بن چکا تھا۔ اسی ضرورت
کا ادراک کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تمام قومی سیاسی
قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے بھارت اور پوری دنیا کو پیغام دیا کہ
پاکستانی قوم ملکی سلامتی اور مسئلہ کشمیر پر یکجا ہے۔ اپوزیشن سے تعلق
رکھنے والے سیاستدانوں نے بھی یہ خوش آیند پیغام دیا کہ سیاسی اختلافات
اپنی جگہ، لیکن جب ملکی سلامتی اور بقا کا مسئلہ درپیش ہو تو وہ اس کے لیے
متحد ہو کر ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اور حکومت کے ساتھ
ایک صفحہ پر ہیں۔ تمام سیاستدانوں نے اپنے بیانات دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ
وہ مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے حکومت کا ہر ممکن
ساتھ دیں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے پرجوش انداز میں بھارت پر واضح کیا کہ
ہم سب بھارت کے خلاف متحد ہیں، اگر بھارت نے ہمیں آزمانے کی کوشش کی تو منہ
کی کھائے گا۔ بھارت کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ جس کی مثال نہیں ملے گی۔
حکومت کے ساتھ کئی معاملات پر اختلافات ہونے کے باوجود ہم کشمیر کے معاملے
اور کنٹرول آف لائن پر بھارتی جارحیت کے خلاف وزیراعظم کے ساتھ ہیں۔
پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھارت کے ناپاک عزائم پوری دنیا پر منکشف ہوچکے
ہیں، بھارتی اتحادی امریکا مودی سرکار کو باور کراچکا ہے کہ وہ خطے میں
پیدا ہونے والی کشیدگی کا ذمہ دار ہے، اس لیے وہ پاکستان کے خلاف اپنے
جارحانہ عزائم سے رجوع کرلے۔ چین، روس، ترکی اور مسلم دنیا کی جانب سے پہلے
ہی بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی مکمل حمایت اور تعاون کا اعلان کیا
جاچکا ہے۔ اسی تناظر میں چین بھارتی دریا کا پانی روک چکا ہے، جو بھارت کے
لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے، جبکہ ہمیں سب سے زیادہ ضرورت اپنی اندرونی
کمزوریوں پر قابو پانے اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کی ہے۔ اس
حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس وقت کی اہم ضرورت تھی، جس میں تمام قومی سیاسی
قائدین نے بہترین ملکی اور قومی مفاد میں وزیراعظم کی جانب خیرسگالی اور
تعاون کا ہاتھ بڑھایا اور بھارت کو بتلا دیا کہ ہم دشمن کے لیے سیسہ پلائی
دیوار ہیں۔ |
|