دور حاضر میں حضرت انسان حق و باطل سے
کنارہ کشی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ طاقت اور معیشت کو بھی اپنے ہاتھ سے جد
ا نہ کرنے کی جستجو میں مگن ہے۔ نفسا نفسی کے عالم میں انسان اس حقیقت کو
بھی سمجھنے سے قاصرہے کہ کہ دولت اور شہرت کے حصول کے لئے صرف اور صرف ظلم
و ستم اور جنگ و جدل کے علاوہ اور بھی راستے ہیں۔ معاشی پہیہ ایک ہی ذریعے
سے نہیں چل سکتا۔ کیا معاشی استحکام صرف اور صرف زرعت و صنعت پر منحصر ہے؟
ایسا نہیں!بلاشبہ زراعت اور صنعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ملکوں
کی معاشی پیمانے کو عروج ملاہے مگر سیاحتی میدان کو پذیرائی ملنے سے ملکی
معیشت کو جو تقویت ملتی ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جس کی مثال
ترقی یافتہ ملکوں کی تاریخ پر نظر دوڑانے سے عیاں ہو جا تا ہے ہر ممالک
سیاحت کے میدان میں لوہا منو ا نے میں اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ تگ و دو کر
رہے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی جی ڈی پی کا 9.8فیصد حصہ سیا حت پر
منحصر بتایا جاتا ہے اور سیاحتی شعبے سے دنیا میں بلواسطہ اور بلاواسطہ 180
ملین روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ دنیا میں ایسے بھی بہت سارے ممالک ہے
جن کے جی ڈی پی کا 50 فیصد حصہ سیاحت پر منحصر ہے ۔جن ملکوں میں سیاحوں کی
آمد زیادہ ہو ان ملکوں کی نصیب میں بہتر معیشت اور خوشحالی رہتی ہے۔اور
مارکیٹوں میں اشیاء کی طلب میں اضافہ اور پیداواری صلاحیت کو پذیرائی ملتی
ہے۔سیاحتی انڈسٹری سے براہ راست ملکی معیشت کو دوام ملنے کے ساتھ ساتھ ہر
چھوٹے بڑے کاروباری طبقے جن میں بنک ،ٹرانسپوٹر زاور ریسٹورنٹ سر فہرست ہے
کوترقی نصیب ہوتی ہے۔جس سے ملک کے per capita income بھی مثبت سمت اختیار
کرجاتا ہے ۔دنیا کے ہر ممالک سیاحوں کی توجہ مبذول کرنے اور ان کے لئے
بہترسہولیات بہم پہنچانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ویسے تو دنیا کے ہر کونے
میں قدرت کے حسین شاہکار موجود ہیں مگر ان دلکش نظاروں کو چار چاند لگانے
کے لئے سیاحوں کی توجہ لازم گردانتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے سرمایہ اور
صلاحیتوں کے بل پر ان قدرتی مقامات کو عالمی شہرت دینے میں کامیاب نظر آتے
ہیں جبکہ ترقی پذیر ملکوں میں بہت سارے خوبصورت اور دلکش مقامات اور
سیروتفریح کے مو زون جگہے میسر ہونے کے باوجود ان مقامات سے خاطر خواہ
فائدہ نہیں اٹھا یا جارہاہے۔ یہیں سے ہی یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ملک کے
سیاحتی شعبے کو بہتر بنانے کی پالیسی ہر لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے۔ترقی یافتہ
ممالک کے حکمران اس بات سے آشنا ہو گئے ہیں کہ ملک کی معاشی بہتری اور
عالمی سطح پر ملک کے وقار کو اجاگر کرنے کے لئے سیاحتی انڈسٹری بھی کردار
ادا کر سکتی ہے۔سیاحوں کی آمد ہی سیاحتی انڈسٹری کو تقویت بخشنے کا سبب
بنتے ہیں۔ملک کے معاشی حالات بہتر ہونے کے سبب دوسرے اداروں میں بھی بہتری
آ سکتی ہے۔جب تک کسی ملک کی معاشی حالات بہتر نہیں ہونگے اس ملک میں بہتر
تعلیم اور صحت کا فقدان رہتا ہے۔ کیونکہ جس سطح پر ملکی معیشت ہوگی اسی
معیار کی سہولیات عوام کو میسر ہوگی۔ ترقی یافتہ ممالک میں معاشی طور پر
مستحکم ہونے کی بدولت عوام میں خوشحالی ، بہتر تعلیم و صحت کے مواقع دستیاب
ہوتا ہے ۔وطن عزیز جیسے ترقی پذیرملک میں معاشی حالات کی ابتری اور سکیورٹی
خدشات کی بنا پر سیاحتی انڈسٹری کوفروخت نہیں مل رہا۔اگر چہ یہ سرزمین قدرت
کے حسین نعمتوں اور تاریخی مقامات سے مالا مال ہے جن کو بہترطریقے سے
استعمال میں نہ لانے کی وجہ سے سیاحت میں خاطرخواہ ترقی نہیں ہو رہی۔
حکومتی توجہ کا منتظر بہت سارے تاریخی مقامات کھنڈرات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف دہشت گردی کے واقعات اور امن وآمان کی خراب صورت حال نے ملک کی
سیاحتی انڈسڑی اور سکیورٹی کے صورت حال پر سوالیہ نشان کھڑا کیا۔ اگر چہ
دہشت گردی کا خدشہ دنیا کے اکثر ممالک کو درپیش ہے مگر ان ملکوں میں بیرونی
سیاحوں کی حفاظت کے لئے موئثر اقدامات کئے جاتے ہیں ۔بہتر سکیورٹی اور
سازگار حالات ہی ملک میں سیاحت اور دوسرے شعبوں میں خوشحالی کا سبب بنتی
ہے۔مگر بد قسمتی سے دہشت گردی کے واقعات نے سیاحت کے ساتھ ساتھ معیشت اور
کھیل کے میدان میں بھی ملک کو پٹری سے ہٹا کر رکھ دیاہے۔آج ملک بین
الاقوامی سطح پر کر کٹ کی میزبانی کرنے سے قاصر ہے ۔ معاشی نقطہ نگاہ سے
دیکھا جائے توکئی سالوں تک اندرونی اور بیرونی تاجر ملک سے انخلا ہونے کو
ترجیح دے رہے ہیں ۔جس سے معیشت پستی کی طرف گامزن رہی۔ لہذا موجودہ دور میں
امن و آمان ہماری اولین ضروریات میں گنا جاتا ہے ۔ملک کے دیگر علاقوں کی
طرح گلگت بلتستان بھی سیاحوں کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ اگر ہم گلگت
بلتستان کی سیاحتی میدان میں اہمیت کا ذکر کریں تو یہ علاقہ بلاشبہ بہت
اہمیت کا حامل ہے۔یہ علاقہ خوبصورتی کے اعتبار سے کو ئی ثانی نہیں
رکھتا۔بلند و بالا پہاڑ ، سرسبز وادیاں اور ہری بھری میدانیں سیاحوں کی
توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔جن میں کے ٹو، نگاہ پربت ، مشہ بروم جیسے بلند و
بالا پہاڑ،دیوسائی ،رامااور شندورجیسے میدا ن اورخپلو ،شگراور ہنزہ جیسے
حسین وادیاں شامل ہیں ۔ان حسین وادیوں کا نظارہ کرنے کے لئے ملکی اور
غیرملکی سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔گرمیوں کے موسم میں د لوں کو چھُو
لینے والی فضا، صاف اور ٹھنڈا پانی سیاحوں کے دل جیتنے کی اصل وجہ بنتی
ہے۔قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی مہمان نوازی ، بہترین امن
وآمان کی وجہ سے بھی سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
گزشتہ سالوں کی نسبت اس سال سیاحوں کی بڑی تعداددیکھنے کو ملی جس کی وجہ
پاک فوج کی آپریشن ضرب عضب میں کامیابی اور ملک میں پیش آنے والے دہشت گردی
کے واقعات میں نمایاں کمی اور علاقے میں آمن آمان کی بہتر صورت حال ہے ۔گزشتہ
سال ننگاپربت بیس کیمپ پرپیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے نے گلگت بلتستان
کو سیاحت کے میدان میں کافی پیچھے چھوڑ دیا۔جس سے ملکی معیشت کو بڑا نقصان
اٹھانا پڑا۔سیاحوں کی آمد سے روزگار کے بہتر مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ
کاروباری مراکز میں بھی بہتری آتی ہے۔ جو کہ ملک کے جی ڈی پی کے لئے بہتر
ثابت ہوتا ہے۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ گلگت بلتستان میں بے شمار خوبصورت
مقامات گلیشر اور برف پوش وادیاں موجود ہیں۔ جو ابھی تک لوگوں کی نظر سے
اوجھل ہیں۔جنھیں تھوڑی سی سرمایا کاری کے ذریعے سیاحوں کے لئے پُر کشش اور
دلچسپ بنایا جا سکتا ہے ۔ ان قدرتی اور تاریخی مقامات کو عالمی سطح پر
اجاگر کرنے اور ان تک رسائی کو آسانی بنا نے میں ہر ممکن اقدامات عمل میں
لایا جائے۔تاکہ ملک میں موجود حسین و جمیل وادیاں اور ان کی خوبصورتیاں وطن
کا نام روشن کرنے اور ملکی معیشت کو سہارا بننے کا موجب بن سکے۔ |